37 C
Lahore
Wednesday, May 21, 2025
ہومغزہ لہو لہوصحافت کی مزاحمت - ایکسپریس اردو

صحافت کی مزاحمت – ایکسپریس اردو


صحافت محض ایک پیشہ نہیں ایک مسلسل جدوجہد ہے۔ یہ سچ کے چراغ کو ہاتھوں میں تھامے طوفانوں کے بیچ روشنی کی تلاش کا نام ہے۔ یہ ان آوازوں کی نمایندگی ہے جو بازارِ زر میں بکنے کو تیار نہیں ہوتیں، جو اقتدار کے ایوانوں میں گونگی کردی جاتی ہیں، جو سچ بولنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتی ہیں۔

تین مئی دنیا بھر میں آزادیِ صحافت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ دن محض رسمی طور پر منایا جاتا ہے، وہ صحافی جو ریاستی جبر، عدالتی بے حسی اور سرمایہ دارانہ نظام کے پنجوں میں سسک رہے ہیں، اُن کے لیے یہ دن نوحہ ہے ،جشن نہیں۔ ہمارے ملک میں صحافی ہونا اور سچ لکھنا آسان نہیں ہے۔

کبھی صحافی قتل ہو رہے ہوتے ہیں اورکبھی اغوا ہوتے ہیں ،کبھی مذہبی انتہا پسند فتوے دیتے ہیں اورکبھی محبِ وطن کہلانے والے لوگ گالیاں دے کر خاموشی مسلط کرتے ہیں اور اگر کوئی پھر بھی لکھنے کا حوصلہ کرے تو اسے یا تو گمشدہ کر دیا جاتا ہے یا پھر عدالتوں کے چکر میں پھنسا دیا جاتا ہے یا بے روزگار کر کے ایسے حالات پیدا کردیے جاتے ہیں کہ فاقہ کشی کی نوبت آ جاتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ خاموشی کیوں ضروری سمجھی جاتی ہے؟ کس بات کا ڈر ہے؟ سچ سے اتنی وحشت کیوں؟

ہم جانتے ہیں کہ صحافت کی آزادی کی دشمن محض آمریت نہیں بلکہ جمہوریت کے لبادے میں چھپے وہ نظام بھی ہیں جو عوام کے بجائے اشرافیہ کے مفاد کی نگہبانی کرتے ہیں۔ آج کا دور ایک طرف جدید ٹیکنالوجی کا ہے جہاں AI الگورتھم اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمزکی بھرمار ہے مگر دوسری طرف وہی پرانی غلامی ہے۔ صرف چہروں اور ہتھکنڈوں کی تبدیلی ہوئی ہے۔ آج کا صحافی ’’کی بورڈ ‘‘کے پیچھے بیٹھ کر لکھتا ہے، مگر اس کی سانسیں اب بھی مقتدرہ کی مرضی سے آتی جاتی ہیں۔

عالمی سطح پر بھی صحافت ایک آزمائش سے گزر رہی ہے۔ فلسطین میں غزہ میں جب اسرائیلی بمباری کے دوران درجنوں صحافی شہید ہوئے تو مہذب دنیا کی زبانیں گنگ تھیں۔ یوکرین کی جنگ ہو، افغانستان میں طالبان کی واپسی ہو یا بھارت میں مودی سرکار کا عروج ہر جگہ وہی کہانی ہے جو لکھے گا وہ مارا جائے گا، جو بولے گا، وہ دبایا جائے گا اور وہ جو غیر جانب دار کہلاتے ہیں وہ دراصل خاموش تماشائی ہیں۔ ایک طرح سے ظلم کے شریک۔

پاکستان میں صحافت کی تاریخ خود ایک جدوجہد کی کہانی ہے۔ نثار عثمانی، منہاج برنا، فیض احمد فیض سب نے اپنے اپنے دور میں سچ لکھا اور اس کی قیمت چکائی۔ آج بھی کئی صحافی ایسے ہیں جو اپنے قلم کی حرمت پر سودے بازی نہیں کرتے۔ چاہے ان کے خلاف مقدمات ہوں یا دھمکیاں وہ ان صحافیوں کی صف میں کھڑے ہیں جنھوں نے ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا۔ چاہے مظلوم بلوچ ہو، پشتون ہو، سندھی ہو یا کسی چھوٹے اخبار کا رپورٹر۔

یہ سوال محض صحافت سے نہیں بلکہ ایک وسیع تر سماجی خوف سے جڑا ہوا ہے۔ سچ بولنے والا فرد معاشرے میں اجنبی بنا دیا جاتا ہے۔ اسے نہ صرف مقتدر حلقے بلکہ اکثر اپنے ہم پیشہ افراد بھی تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ کئی نوجوان صحافی جب اس پیشے میں قدم رکھتے ہیں تو وہ خواب لیے آتے ہیں کہ وہ حق کا ساتھ دیں گے مگر جلد ہی انھیں سمجھا دیا جاتا ہے کہ سمجھ داری اور خاموشی میں فرق صرف ایک نوکری کا ہے۔ انھیں یہ باورکرایا جاتا ہے کہ اگر تم نے سوال اٹھایا تو تم پر ایجنٹ کا الزام لگے گا، تمہیں غدار یا بیرونی ایجنٹ کہا جائے گا۔

آج میڈیاانڈسڑی خود آزادیِ صحافت کی مخالف ہے۔ اس کی ترجیحات میں صحافیوں کا تحفظ نہیں ریٹنگز اور کاروبار ہے۔ کئی رپورٹرز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خبر دیتے ہیں مگر ان کی خبر کسی مفاد سے متصادم ہو تو یا تو دبا دی جاتی ہے یا توڑ مروڑ کر پیش کی جاتی ہے۔

صحافت جو کبھی مظلوموں کی آواز تھی آج بعض جگہوں پر صرف طاقتوروں کا ہتھیار بن چکی ہے۔عوام کو یہ سوچنا ہوگا کہ جب کوئی صحافی لاپتا ہوتا ہے یا کسی اخبار میں سچ پر مبنی رپورٹ نہیں چھپتی تو اصل نقصان کسے ہوتا ہے؟ عوام ہی وہ محروم طبقہ ہے جس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ صحافی جب سوال نہیں پوچھے گا تو عوام کو جواب کون دے گا؟ پارلیمان ہو، عدالتیں ہوں یا سڑکوں پر احتجاج ان سب کی تصویر اور آواز صحافی ہی تو ہوتا ہے، اگر وہ بھی خاموش ہو جائے تو سمجھ لیجیے کہ سماج نے اپنی سانس روک لی ہے۔

یاد رکھیے آزادیِ صحافت صرف صحافی کا مسئلہ نہیں یہ جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔ جب صحافی آزاد نہ ہو تو عوام اندھیرے میں رکھے جاتے ہیں۔ جب سوال پوچھنے والے کو غدارکہا جائے تو سمجھ لیجیے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ کتنے کمزور ہیں۔ طاقتور ہمیشہ سچ سے ڈرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سچ کو دبا دیا جائے یا کم ازکم اتنا کمزورکردیا جائے کہ وہ گونگا ہو جائے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صحافت کی آزادی کوئی مہربانی نہیں یہ ایک حق ہے۔ یہ حق صحافیوں نے خود چھینا ہے مارکھا کر، قید ہو کر، لاپتا ہوکر۔ آج کے نوجوان صحافیوں کو چاہیے کہ وہ اس میراث کو صرف موبائل جرنلزم یوٹیوب چینلز یا ریٹنگز کی بھینٹ نہ چڑھائیں بلکہ ان نظریاتی بنیادوں سے جڑیں جو صحافت کو مزاحمت بناتی ہیں جو اسے اقتدار کے سامنے سوال بناتی ہیں۔

آج کے دور میں جب اصل خبر دفن ہو جاتی ہے ہمیں وہ صحافی یاد رکھنے چاہئیں جو سچ کی تلاش میں شہید ہوئے۔ صحافیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا، تشدد کیا گیا۔ وہ سب جو لاپتا ہیں جو آج بھی واپس نہیں آئے، ان کی داستانیں ہمارے ضمیر پر ایک قرض ہیں۔ یہ کالم ان تمام لوگوں کے لیے ہے، جو آج بھی قلم کو تلوار سے زیادہ مؤثر سمجھتے ہیں۔

جو جانتے ہیں کہ جھوٹ کی دیوار چاہے کتنی ہی اونچی ہو، سچ کا ایک جملہ اسے لرزا دیتا ہے اور جو مانتے ہیں کہ صحافت کا اصل مقصد طاقت کے ایوانوں کی خوشامد نہیں عوام کے دکھوں کو زبان دینا ہے۔یہ وقت ہے کہ ہم سوال کریں کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا ہمارا میڈیا عوام کی نمایندگی کر رہا ہے یا مفادات کا غلام ہے؟ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں؟ سچ کے ساتھ یا خاموشی کے ساتھ۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات