بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ میرے دماغی مسائل میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ میرے دماغ میں جو خناس ہے، وہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ عجیب و غریب باتیں میرے ذہن میں آنے لگی ہیں۔ ایک اچھا خاصا پڑھا لکھا سلجھا ہوا معتبر سیاح اپنا بیگ تیار کرتا ہے۔ کہیں دور پہاڑوں میں، کبھی ریگستانوں میں اور کبھی سمندروں کے کنارے سیاحت کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اپنے پیسے، وقت اور توانائی کو اچھی طرح استعمال کرتا ہے اور بہت سی خوشیاں سمیٹ کر اپنے دیس اپنے گھر لوٹ آتا ہے۔ نہ جانے مجھے یہ راحتیں کیوں کر سمجھ نہیں آتیں۔
رمضان المبارک کی بابرکت راتوں میں سے کسی ایک رات میں جو کہ یقیناً بابرکت رات ہی ہو گی، مجھے ایک خیال آیا کہ کیوں نہ وزیر آباد تا راول پنڈی ایسے ریلوے اسٹیشنوں کو دیکھا جائے جہاں اب ریل گاڑی نہیں رکتی بلکہ فراٹے بھرتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ اب رمضان المبارک کی فضیلت والی راتوں میں آیا خیال میں بھلا کیسے رد کر سکتا تھا۔ حالاں کہ شیطان انکل نے میرے چھوٹے سے دماغ میں بہت بار یہ خلل ڈالنے کی کوشش بھی کی کہ بھائی کوئی انسانوں والا منصوبہ بنا۔ عید کی چھٹیاں ہیں، انھیں کسی اچھی جگہ استعمال کرے۔ ہنزہ وادی میں کیا ہی کمال کا موسم اترا ہے۔
گلابی سے رنگ کے پھول ہر طرف ٹہنیوں پر لگے ہیں۔ تم بھی ان پھولوں کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلو مگر میں نے شیطان کے تمام منصوبوں کو رد کیا اور سوچا کہ نہیں ہم تو اب ان ہی ریلوے اسٹیشنوں کو نہ صرف ڈھونڈیں گے بلکہ وہاں کچھ وقت بھی گزریں گے۔ اب ایسے میں دو طرح کے مسائل تھے۔ ایک یہ ہے کہ وزیر آباد تا راول پنڈی چھوٹے بڑے کون کون سے ریلوے اسٹیشن ہیں، ان سب کی فہرست اور دوسرا یہ بھی کہ ان پہاڑی علاقوں اور دیہات کے ان ریلوے اسٹیشنوں کی لوکیشن۔ مصیبت یہ ہے کہ غیرآباد ریلوے اسٹیشنوں کے بارے وہاں کے مقامی بھی نہیں جانتے ہوتے کہ انھوں نے نہ کبھی وہاں کا رخ کیا ہوتا ہے اور نہ کبھی سنا ہوتا ہے۔
ان ریلوے اسٹیشنوں کو خود ہی گلی محلوں میں ڈھونڈنا تھا۔ پھر ان پوٹھوہاری نیم پہاڑی علاقوں کی ایک مصیبت اور بھی ہے کہ یہ علاقے کہیں اور ہیں اور ان ناموں سے جڑے ریلوے اسٹیشن کہیں اور ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کی لوکیشن گوگل میپ پر موجود نہیں۔ جیسے ڈومیلی کہیں اور ہے اور اس کا ریلوے اسٹیشن کہیں اور۔ بالکل ایسے ہی بکڑوالہ کہیں اور ہے اور اس کا ریلوے اسٹیشن کہیں اور۔ تو دوستو اب ان ہی ریلوے اسٹیشنوں کی کہانیاں ہوں گی، ان سے جڑی بہت سی باتیں ہوں گی اور ان خوب صورت ریلوے اسٹیشنوں پر بیتے ہوئے کچھ لمحوں کو یادگار بنائے گئے جو راول پنڈی اور وزیر آباد کے درمیان ہیں مگر ریل دوڑتے ہوئے ان سے منہ موڑ کر گزر جاتی ہے مگر اب رکتی نہیں۔
عید کے دن تھے اور سب کو ہی چھٹیاں تھیں۔ موسم معتدل تھا مگر گرمی کے کچھ کچھ اثرات تو تھے۔ ارادہ تو یہ تھا کہ ہم فجر کی نماز تقریباً وزیر آباد کے آس پاس پڑھیں گئے مگر فجر گھر میں ہی ہوگئی۔ فضا میں خنکی تھی، اس لیے سب ہی نے کچھ نہ کچھ اوپر اضافی پہنا ہوا تھا۔ میں نے وزیرآباد اور سیال کوٹ کے درمیان آنے والے تمام ریلوے اسٹیشنوں کو چھوڑا اور سیدھا وزیرآباد کو پار کرتے ہوئے اپنی پہلی منزل ہری پور بند پہنچ گیا۔ یہاں میں کی بجائے ہم کا صیغہ استعمال کیا جائے تو بہتر ہے کیوں کہ اس بات بائیک کے سفر میں میں اور ماجد اکیلے نہ تھے۔
ماجد نے اپنے ساتھ دو مزید لوگوں کو بھی شامل کر لیا تھا۔ اگرچہ کہ میں کسی دوسرے کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے خلاف تھا کیوں کہ ہر کسی کا مجاز نہیں ہوتا ایسے نگری نگری گھومنا پھرنا۔ عام طور پر لوگوں کو یہی لگتا ہے کہ یہ ایک سیاحتی ٹور ہورہا ہے مگر ایسے سیاحتی ٹور کے لیے جب آپ کو اپنی منزل کا تو پتا ہو مگر راستہ نامعلوم ہو اور منزل بھی کیا ہے، کچھ پتا نہیں۔ عام ممکن ہے کہ جس اجڑ چکے ریلوے اسٹیشن یا عمارت کی تلاش میں ہم گھر سے نکلے ہوں، وہ اب وہاں موجود ہی نہ ہو تو دکھ ہونا یقینی بات ہے۔ یہ ہر شخص نہیں سمجھ سکتا یا کم از کم نیا نیا سیاح نہیں سمجھ سکتا اور خاص کر شمال کو جانے والا سیاح تو بالکل بھی ان باتوں کا ادراک نہیں رکھتا۔ شمال کو جانے والا ہر سیاح جانتا ہے کہ یہ منزل ہے، یہ راستہ ہے اور راستہ اور منزل دونوں خوب صورت ہیں مگر پنجاب کے سیاحتی دوروں کی بات الگ ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ماجد نے اس بار دو لڑکوں کو ساتھ شامل کرلیا۔ ماجد تو میرے مزاج سے واقف تھا اور میں۔ مجھے پوری امید تھی کہ باقی دونوں افراد ہمارے اس سفر کو برداشت نہ کر سکیں گے اور راستے میں ہی ایک بدتمیزی کا طوفان کھڑا ہو جائے گا اور یہی ہوا جسے کمال خوب صورتی اور عقل مندی سے ٹال دیا۔ وزیرآباد جنکشن ایک بڑا جنکشن ہے جہاں پر آپ تین اطراف کو نکل سکتے ہیں۔ اگر آپ لاہور کی طرف سے آئیں تو صراطِ مستقیم پر چلتے ہوئے آپ شہرِ اقتدار یعنی کہ راول پنڈی کی طرف نکل جائیں گے۔ ریل اگر بائیں جانب چلی جائے تو حافظ آباد سے ہوتے ہوئے یہ فیصل آباد کا رخ اختیار کر لے گی۔ جب کہ انجن کا رخ اگر دائیں جانب کر دیا جائے تو یہ میرے شہر یعنی سیال کوٹ کی طرف نکل جائے گی۔ وزیرآباد پاکستان کے مصروف ترین ریلوے اسٹیشنوں میں سے ایک ریلوے اسٹیشن ہے۔
ہم میں سے وہ کون ہے جس نے اپنی نصابی کتب میں نہیں پڑھا کہ وزیرآباد شہر ہر قسم کی کٹلری، چھریاں، چاقو بنانے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں گھروں میں ہی چھوٹے چھوٹے کٹلری بنانے کے کارخانہ بنے ہوئے ہیں۔ ماضی میں یہاں لکڑی بنانے کا کاروبار بھی ہوتا رہا ہے جس کے لیے لکڑی جموں کشمیر سے لائی جاتی تھی۔ لکڑی کے بڑے بڑے تختے کاٹ کر دریائے چناب میں بہا دیے جاتے تھے اور یہاں وزیرآباد کے قریب پھر دریا سے لکڑی کو نکال لیا جاتا تھا۔ مزید آگے بڑھنے سے پہلے ریلوے کی چند باتیں سمجھ لیں۔ سنگل لائن اور ڈبل لائن کے بارے تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ اگر کہیں سے صرف ایک ہی لائن گزر رہی ہو تو اسے سنگل لائن کہا جائے گا۔ مخالف سمت سے اگر کوئی گاڑی آ جائے تو کسی بھی چھوٹے اسٹیشن یا بڑے اسٹیشن پر لوپ لائن بنا کر پہلے گاڑی کو دوسری لائن پر منتقل کیا جاتا ہے، پھر سامنے سے آنے والی گاڑی کو گزارا جاتا ہے۔ آپ کے مشاہدے میں یہ بات ضرور آئی ہو گی کہ ہر ریل گاڑی کے ساتھ اَپ یا ڈاؤن کا لفظ لگا ہوتا ہے۔
کراچی کی طرف یعنی کہ سطع سمندر کی طرف جانے والی ریل گاڑیوں کے نام کے ساتھ ڈاؤن جب کہ کراچی سے اندرونِ ملک یا کسی شہر سے اونچائی کی جانب سفر کرنے والی ریل گاڑیوں کے ساتھ اَپ لگایا جاتا ہے۔ ہر ریل گاڑی کو کوئی نہ کوئی ایک نمبر بھی الاٹ کیا جاتا ہے۔ عام روایت یہی ہے کہ اَپ گاڑیوں کو طاق نمبر دیا جاتا ہے جب کہ ڈاؤن گاڑیوں کو جفت نمبر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ کراچی سے پشاور جانے والی ریل گاڑی کو خیبر میل اپ 1 جب کہ پشاور سے کراچی جانے والی ریل گاڑی کو خیبر میل ڈاؤن 2 کا نام دیا گیا ہے۔ اسی طرح پشاور سے کوئٹہ جانے والی جعفر ایکسپریس ڈاؤن 40 اور کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو اپ 39 کا نام دیا گیا ہے۔
میدانی علاقوں میں بے قابو ریل گاڑیوں کو پٹری سے نیچے اتارنے کے لیے ’’کیچ لائن‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کیچ لائن کیا ہے؟ اگر آپ ریل گاڑی پر سفر کرتے ہوئے کسی بھی اسٹیشن میں ریل گاڑی کے داخل ہوتے وقت، اس کی کھڑکی سے اپنی مُنڈی باہر نکالیں تو آپ کے مشاہدے میں یہ بات آئے گی کہ مرکزی لائن سے ایک لائن باہر کو نکلتی ہے۔ لائن کے آخری سرے پر بنائے گئے مضبوط بفرز سے ٹکرا کر یہ لائن رک جاتی ہے۔ اس لائن کو کسی بھی حادثے سے بچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر ریلوے اسٹیشن پر ایک ناکارہ لائن بھی ہوتی ہے جہاں خراب اور اضافی بوگیوں کو کھڑا کیا جاتا ہے۔ میرے اپنے شہر سیال کوٹ میں آج کل آرمی کی چند بوگیاں ریلوے اسٹیشن پر اسی لائن پر کھڑی ہیں جنھیں بوقتِ ضرورت استعمال کیا جائے گا ورنہ وہ یہیں کھڑی رہیں گی۔
لوکو موٹیو جسے ہم عام زبان میں انجن کہتے ہیں اور تمام بوگیاں کے آگے اور پیچھے دو بڑے بڑے بفرز لگے ہوتے ہیں جن کا اہم کام بوگیاں کو انجن اور بوگیاں کو آپس میں منسلک رکھنا تو ہے ہی ہے مگر فرض کریں اگر پہلی بوگی میں کسی وجہ سے بریک لگ جائے یا کسی بھی تیکنیکی وجہ سے رفتار مدھم ہو جائے تو یہی بفرز پچھلی بوگیوں کو اگلی بوگی پر چڑھنے سے روکتے ہیں۔ انجن کے ریل کار سے لگنے کا دل کش منظر تو ہم سب نے دیکھا ہی ہے۔ یہ ایسا منظر ہوتا ہے کہ ریلوے پلیٹ فارم پر موجود تمام مسافر یہ منظر دیکھنے کے لیے انجن کے پاس جمع ہو جاتے ہیں۔
ہر بڑے جنکشن پر کچھ نہ کچھ اضافی بوگیاں یا مال گاڑیاں بھی ایک طرف کھڑی ہوتی ہیں جنھیں بہ وقتِ ضرورت استعمال میں لایا جاتا ہے اور کسی بھی ریل گاڑی کے ساتھ ضرورت پڑنے پر جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس لائن کو شنٹنگ لائن کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات ان ہی اضافی بوگیوں کو ملا کر ایک پوری ریل گاڑی بنا دیا جاتا ہے۔ اضافی بوگیوں سے بننے والی اس ریل کو ریلوے کی زبان میں ’’ریک‘‘ کہا جاتا ہے۔ ریلوے کی واشنگ لائن کے بارے بھی آپ دوستوں نے ضرور سنا ہو گا۔ جب کوئی بھی لمبے سفر کی ریل گاڑی اپنے سفر کے آخری اسٹیٹس پر پہنچتی ہے تو اس ریل گاڑی کو دھویا جاتا ہے۔ اچھی طرح صفائی ستھرائی کا کام مکمل کیا جاتا ہے۔ مگر صفائی سے پہلے ریلوے پولیس کا عملہ پوری ٹرین کی اچھی طرح چھان بین کرتا ہے کہ کہیں کوئی مسافر یا غیرمتعلقہ شے ٹرین میں تو نہیں۔ ایسے میں اگر کوئی بھی اضافی شے یا کسی مسافر کا سامان رہ گیا ہو تو اسے ریلوے پولیس اسٹیشن میں جمع کروا دیا جاتا ہے۔
پولیس کی جانچ پڑتال کے بعد ریلوے کا تکنیکی عملہ ہتھوڑے کی مدد سے ٹرین کے پہیے، بریک سسٹم اور دوسرے پُرزوں کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ ریلوے کے تیکنیکی عملے کی یوں ریل کو ضربیں لگانے کا عمل بھی آپ سب کے مشاہدے میں ضرور آیا ہو گا۔ اس سب کے بعد صفائی کا کام شروع کیا جاتا ہے۔ یہاں آپ کو ایک دل چسپ بات بتاتا چلوں کہ سیالکوٹ سے کراچی جانے والی علامہ اقبال ایکسپریس جب کراچی سے واپس سیال کوٹ آتی ہے تو اسے نہانے دھونے کے لیے سیال کوٹ سے وزیرآباد بھیج دیا جاتا ہے۔ سیال کوٹ سے وزیرآباد کے درمیان یہی علامہ اقبال ایکسپریس شاہین پیسنجر ٹرین کے نام سے چلتی ہے۔ نہاتی دھوتی ہے اور صبح سویرے وزیرآباد سے سیال کوٹ پہنچ جاتی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ایک بار میں نے سیال کوٹ سے لاہور اسی علامہ اقبال ایکسپریس پر سفر کیا تھا جو ابھی ابھی نہا دھو کر سیال کوٹ پہنچی تھی مگر گندی کی گندی ہی تھی۔ شاید آپ میں سے کچھ احباب ٹرن ٹیبل سے واقف ہوں۔ کم استعمال ہونے والے روٹ کے آخری اسٹیشن پر ایک ٹرن ٹیبل ہوتا ہے جس کی مدد سے لوکو موٹیو کے رخ کو موڑا جاتا ہے۔ چھوٹے ریلوے اسٹیشنوں پر اس ٹرن ٹیبل کو ریلوے کے ملازمین خود ہی اپنے ہاتھ سے موڑتے ہیں۔ ایسے ہی ٹرن ٹیبل میں نے بھیرہ ریلوے اسٹیشن اور مندرہ ریلوے اسٹیشن پر دیکھے ہیں جہاں کبھی ریلوے انجنوں کو موڑا جاتا تھا۔
بد قسمتی سے دونوں ٹرن ٹیبل اب غیر فعال ہو چکے ہیں۔ ملکوال تا بھیرہ برانچ لائن مکمل پر متروک ہو چکی ہے جب کہ مندرہ ریلوے اسٹیشن سے بھی ایک برانچ لائن چکوال کو نکلتی تھی جو نہ صرف اب متروک ہے بلکہ ظالموں نے پوری کی پوری پٹری ہی اکھاڑ کھائی ہے۔ ریل پر سفر کرتے ہوئے آپ جوں ہی وزیر آباد جنکشن سے باہر نکلتے ہیں تو آپ کا سامنا وزیر آباد کی ایک چھوٹی سی جھیل گیمن جھیل سے ہوتا ہے۔ گیمن جھیل ایک چھوٹی سی قدرتی جھیل ہے۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ تیکنیکی طور پر جھیل کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔ پانی تو کھڑا ہی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گیمن جھیل میں پانی کہیں سے نہیں آ رہا، گیمن جھیل کا پانی کہیں جا نہیں رہا۔ وزیرآباد شہر بھلے سے سطع سمندر سے بہت بلند سہی مگر گیمن جھیل چوں کہ سطع سمندر کے برابر ہے، اس لیے اس کا پانی اپنی جگہ پر کھڑا رہتا ہے۔
نیچے زمین سے مسلسل پانی کا اخراج ہورہا ہے جو جھیل کے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ظاہر سی بات ہے اوپر سے پانی بخارات بن کر ضرور اڑتا ہوگا۔ نیچے زمین سے ہی بھی مسلسل تازہ پانی جھیل میں شامل ہو رہا ہے اس لیے جھیل کا پانی بدبو نہیں چھوڑتا اور نہ ہی اوپر کائی جمتی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اب جھیل کا پانی مسلسل گندا ہورہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ شاید آس پاس کا گندا پانی بھی اسی جھیل میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ گجرات تا گوجرانوالہ کے درمیان کہیں بھی رہتے ہیں تو کسی بھی اچھے موسم میں اس جھیل کی جانب ضرور سفر کریں اور جھیل پر بنے پل پر سے ریل گزرنے کا خوب صورت منظر بھی دیکھیں۔ مجھے بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ گیمن جھیل ہے ورنہ ایک لمبا عرصہ تک تو میں اسے نالہ پلکھو ہی سمجھتا رہا۔ نالہ پلکھو جو جموں سے بہنا شروع کرتا ہے اور راستے کے کہیں اور چھوٹے چھوٹے نالوں کو اپنے ساتھ ملاتا ہے اور ہیڈ خانکی سے تھوڑا پہلے ہی دریائے چناب میں شامل ہوجاتا ہے۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ طغیانی کے دنوں میں نالہ پلکھو کا پانی گیمن جھیل میں ڈالا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیمن جھیل پر بنے ریلوے پل پر Pulkhoo spill لکھا ہے۔ اس لیے کم از کم طغیانی کے دنوں میں آپ گیمن جھیل کو نالہ پلکھو سمجھ لیں تو غلط نہ ہوگا۔ گیمن جھیل سے ذرا آگے ہوں تو عاشقوں کا دریا، دریائے چناب آپ کو خوش آمدید کہے گا۔ یہاں سب سے پُرلطف شے دریائے چناب پر بنا Alexandra ریلوے پل ہے جس کا افتتاح 22 جنوری 1876 کو Wales کی شہزادی Albert Edward نے کیا تھا۔ ریلوے کا یہ پل 9300 فٹ لمبا جب کہ 100 فٹ گہرے پانیوں میں کھڑا ہے۔ چناب کا نام ’’چن‘‘ اور ’’آب‘‘ سے مل کر بنا ہے جس میں چن کا مطلب چاند اور آب کا مطلب پانی ہے۔ چندر بھاگ دریائے چناب کا پرانا نام ہے۔ دریائے چندرا اور دریائے بھاگا کے بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی کے مقام پر ملاپ سے بنتا ہے جو بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع لاہول میں واقع ہے۔ بالائی علاقوں میں اس کو چندرابھاگا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ جموں و کشمیر کے جموں کے علاقہ سے بہتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ پاکستان کے ضلع جھنگ میں تریموں بیراج کے مقام پر یہ دریائے جہلم سے ملتا ہے اور پھر دریائے راوی کو ملاتا ہوا اوچ شریف کے مقام پر دریائے ستلج سے مل کر پنجند بناتا ہے، جو کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ دریائے چناب کی کل لمبائی 960 کلو میٹر ہے اور سندھ طاس معاہدہ کی رو سے اس کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم ہے۔
ویدک زمانہ (قدیم ہندوستان) میں اس کو اشکنی یا اسکمتی کے نام سے اور قدیم یونان میں آچیسائنز کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 325 قبل مسیح میں سکندراعظم نے سکندریہ (جو آج شاید اوچ شریف یا مٹھن کوٹ یا چچارن ہے) نام سے ایک شہر دریائے سندھ کے نزدیک پنجند کے سنگم پر تعمیر کیا۔ پنجابی تہذیب میں چناب کا مقام ایک علامت کے طور پر ہے جس کے گرد پنجابی سوجھ بوجھ گھومتی ہے اور سوہنی مہینوال کی پنجابی رومانوی داستان دریائے چناب کے گرد ہی گھومتی ہے۔ گیمن جھیل اور دریائے چناب کے درمیان ایک چھوٹا سا علاقہ ہری پور ہے جہاں دریائے چناب کی طغیانی سے بچنے کے لیے ایک بند بنایا گیا تھا۔ تب ہی سے ہری پور بند کہا جانے لگا۔ یہ ہری پور بند ہی بنیادی طور پر ہماری پہلی منزل تھی کیوں کہ وزیرآباد کے بعد ہری پور بند ہی وہ پہلا ریلوے اسٹیشن جہاں سے ریل فراٹے بھرتے ہوئے گزر جاتی ہے مگر کبھی نہیں رکتی البتہ بعض اوقات یہاں سے ٹرینوں کا کراس ضرور کروایا جاتا ہے۔ ہم ہری پور بند پہنچے تو موسم میں کچھ کچھ خنکی ابھی تھی۔
وجہ یہ تھی کہ سورج ابھی تک طلوع نہیں ہوا تھا۔ اسٹیشن ماسٹر کا کمرا بند تھا۔ میں نے اندر جھانکنے کی کوشش کی تو نوجوان اسٹیشن ماسٹر ظہیر نے ہمیں اندر بلا لیا اور ریلوے کے نظام بارے بتانے لگا۔ میں ظہیر سے سوال کرنے میں مصروف تھا کہ اتنے میں گجرات ریلوے اسٹیشن سے کال آگئی کہ پاکستان کی پہلی ٹرین خیبر میل ڈاؤن 2 گجرات سے روانہ ہو چکی ہے اور کچھ ہی دیر میں یہ ہری پور بند پہنچ جائے گی۔ میں نے ظہیر کے ساتھ گپ شپ کو بریک لگائی اور خیبر میل دیکھنے کے لیے ٹریک پر آ گیا۔ خیبر میل پاکستان کی وہ واحد ریل ہے جس میں ڈاک کے لیے ایک لال ڈبا لگا ہوتا ہے۔ لال ڈبے کی وجہ سے آپ بآسانی اس ٹرین کو پہنچان سکتے ہیں۔
آپ جب بھی جہاں بھی اس لال ڈبے والی ٹرین کو دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ یہ خیبر میل ہی ہے۔ خیبر میل کے گزرنے کے بعد میں پھر سے ظہیر کا سر کھانے کے لیے اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں چلا گیا تو ظہیر نے فوری طور پر وزیرآباد ریلوے اسٹیشن پر اطلاع دی کہ خیبر میل ہری پور بند سے گزر چکی ہے اور کچھ ہی دیر میں یہ وزیرآباد پہنچ جائے گی۔ ہری پور بند ایک خوب صورت ریلوے اسٹیشن ہے جہاں آج کل گلاب ہی گلاب کھلے ہیں۔ ایک پرانے زمانے کا ہینڈ پمپ بھی لگا ہے جو ابھی تک ریلوے اسٹیشن کے پھولوں پودوں کو پانی فراہم کرتا ہے۔ ظہیر نے بتایا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے اور ایم ایس سی statistic کی ڈگری رکھتا ہے۔ میں ظہیر سے بہت سی باتیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کی نوکری کے بارے میں سوال کرنا چاہتا تھا کہ آیا وہ اتنی تعلیم کے بعد یہاں اسٹیشن ماسٹر بن کر خوش ہے؟ کیا اس کی نوکری مستقل ہے یا وہ یہاں ایک کنٹریکٹ کے تحت ہے؟ مگر مجھے یوں لگا جیسے میرے اس طرح کے کسی بھی سوال سے ظہیر کی دل آزاری ہوگی۔
ظہیر نے محبت سے چائے کی پیش کش کی جسے میں نے اسی محبت سے منع کردیا۔ ہم نے ظہیر کو ہری پور بن ریلوے اسٹیشن پر ہی چھوڑا اور سڑک پر واپس آ گئے۔ ہری پور بن کے بعد ہماری اگلی منزل کھٹالہ ریلوے اسٹیشن تھا مگر اس کی عمارت اب مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ بلکہ کوئی نام و نشان ہی نہیں ہے۔ کھٹالہ کے بعد گجرات تھا جو ہماری فہرست میں شامل نہیں تھا۔ اس لیے ہم گجرات شہر کی طرف نہیں گئے۔ گجرات سے اگلا ریلوے اسٹیشن دیونا جلیانی تھا۔ ایک ایسا ریلوے اسٹیشن جہاں ریل گاڑی نہیں رکتی بس دوڑتی چلی جاتی ہے اور گجرات پہنچ کر بریک لگاتی ہے۔ دیونا جلیانی ایک خوب صورت ریلوے اسٹیشن ہے جہاں نہ صرف ہریالی ہے بلکہ بہت ہریالی ہے۔
درخت ہیں کہ قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ صبح صبح کا وقت تھا اور اسٹیشن ماسٹر صغیر صاحب کو شاید یہاں انسانی آوازوں کی تو توقع نہیں تھی۔ ہمارے شور و غل سے صغیر صاحب باہر تشریف لے آئے۔ علیک سلیک کے بعد ہم نے انھیں آنے کا مقصد بیان کیا تو مسکرانے لگے۔ دیونا جلیانی ریلوے اسٹیشن بارے معلومات دیتے ہوئے بتانے لگے کہ یہاں اب باقاعدہ ریل تو نہیں رکتی مگر بعض اوقات کراسنگ ضرور کروائی جاتی ہے۔ البتہ نوجوانوں سے شام کے اوقات میں خاص کر چھٹی والے دن ریلوے اسٹیشن بھر جاتا ہے۔ صغیر صاحب یہیں اسی ریلوے اسٹیشن پر بہت عرصے سے تعینات ہیں۔
ان سے استفسار کیا کہ کیا کبھی دیونا جلیانی کے ریلوے اسٹیشن پر کوئی ایسا واقعی پیش آیا ہے جس نے آپ کو ہلا کر رکھ دیا ہو۔ صغیر صاحب پہلے تو خاموش رہے مگر پھر ماضی کا ایک قصہ بتانے لگے۔ کہنے لگے کہ آج دیونا جلیانی میں ریل صرف کراسنگ کے لیے ہی رکتی ہے مگر ہمیشہ سے تو ایسا نہ تھا۔ چند ایک گاڑیاں یہاں رکتی تھیں۔ ایک نوجوان تھا جو اکثر شام میں یہاں آتا تو گھنٹوں ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر گزار دیتا اور آتی جاتی ٹرینوں کو دیکھتا رہتا۔ جس ٹرین نے رکنا ہوتا صرف وہی ٹرین مین لائن سے ہٹ کر پلیٹ فارم کے لوپ پر آ کر رکتی۔ باقی سب مین ٹریک پر ہی رہتیں۔ اور تیز رفتاری سے بنا رکے آگے سیدھا گزر جاتیں۔ ایسے میں وہ نوجوان اکثر پلیٹ فارم سے نیچے اتر جاتا اور لوپ لائن پر کھڑے ہو کر تیز رفتار گاڑیوں کو دیکھتا۔ مناسب عمر کا سمجھ دار شخص تھا اور دیکھنے میں بھی مناسب تھا، اس لئے کسی نے زیادہ سختی نہ تھی۔ دیونا جلیانی چوں کہ ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن ہے، اس لئے پولیس اسٹیشن بھی یہاں موجود نہیں۔ اسٹیشن ماسٹر یا عملہ بھی اسی وقت باہر آتا تھا جب ریل کا وقت ہوتا ورنہ سب اپنے کمروں میں ہی رہتے تھے۔ ایک شام جب ہی یہی گندم کی کٹائی کے دن تھے تو تیز بارش شام سے شروع ہو گئی۔
ساتھ میں آندھی بھی تھی۔ وہ نوجوان پلیٹ فارم پر ہی بھیگتا رہا، بنا کسی مسکراہٹ کے۔ بہت دیر تک جب بھیگ چکا تو شاید تھکاوٹ کی وجہ سے گھر چلا گیا۔ پھر اگلے کچھ دن وہ ریلوے اسٹیشن پر نظر نہیں آیا۔ دس سے پندرہ دنوں کے بعد پھر سے ایک شام وہ دیونا جلیانی کے ریلوے سٹیشن پر نظر آیا۔ پہنچان میں ہی نہ آتا تھا۔ ایسے جیسے بہت عرصے سے بیمار رہا ہو۔ شام کا وقت تھا اور وزیر آباد، گجرات کی جانب سے تیز گام اپنی پوری رفتار کے ساتھ آ رہی تھی۔ وہ نوجوان حسبِ عادت لوپ لائن پر چلا گیا کیوں کہ تیز گام نے یہاں نہیں رکنا تھا۔ اسٹیشن ماسٹر صاحب کہنے لگے کہ میرے سامنے ہی ابھی وہ لوپ لائن پر کھڑا تھا، میں پلیٹ فارم کے ایک کونے جب کہ وہ لڑکا دوسرے کونے پر کھڑا تھا۔ ہم دونوں کے درمیان پورے پلیٹ فارم کا فاصلہ تھا۔ جوں ہی تیز گام پلیٹ فارم میں داخل ہوئی تو وہ لڑکا بھاگ کر لوپ لائن سے مین لائن پر آ گیا۔ لوکو موٹیو ڈرائیور نے زور سے ہارن بجایا، بریک لگانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جوں ہی وہ لڑکا تیز گام کے لوکو موٹیو سے ٹکرایا تو اڑ کر دور جا گرا۔ عملے کے دو تین بندے ہی اسٹیشن پر موجود تھے۔
ہم دونوں تیز گام کے کو گزار کر اس لڑکے کی طرف بھاگے کہ شاید وہ بچ گیا ہو مگر ہماری یہ خواہش فقط خواہش ہی رہی۔ پولیس کو اطلاع دے دی گئی۔ ایمبولینس آئی اور اس نوجوان کی نعش کو ڈسٹرکٹ اسپتال گجرات لے گئی۔ پولیس ریلوے اسٹیشن بھی تشویش کرنے کے لیے آئی مگر ہم سرکاری ملازم تھے، جو جانتے تھے سب بتا دیا۔ نہ جانے کون تھا، کہاں سے آتا تھا۔ بھلی جوانی میں ہی اس دنیا سے چلا گیا۔ اس مادہ پرست زمانے نے بھی چھوٹی چھوٹی عمروں میں ہی نہ جانے کتنے لوگوں کی جانیں لے لی ہیں۔ اسٹیشن ماسٹر صاحب کی باتوں نے ہم سبھی کو دکھی کیا۔ ہم سب نے دیونا جلیانی کے ریلوے اسٹیشن کو الوداع کہا اور جرنیلی سڑک پر واپس آ گئے اور اپنا رخ لالہ موسیٰ جنکشن کی جانب کر دیا مگر ہم نے یہاں رکنا نہیں تھا۔ لالہ موسیٰ جنکشن جہاں سے ایک لائن سرگودھا کی طرف جاتی ہے۔ میں نے جتنا وقت لالہ موسیٰ جنکشن پر گزارا ہے، یقینی طور پر اور کسی ریلوے اسٹیشن پر نہیں گزارا۔ بچپن میں جب اپنے نانی گھر سرگودھا جاتے تو صبح سویرے سیال کوٹ سے راول پنڈی جانے والی ٹرین سے ہم لالہ موسیٰ کا سفر کرتے اور پھر لالہ موسیٰ جنکشن پر کھیلتا رہتا کہ سرگودھا کی جانب سے انے والی ایک ٹرین لالہ موسیٰ جنکشن آتی اور پھر صاف ستھرائی کے بعد سرگودھا کی جانب مڑ جاتی۔ سرگودھا جاتے ہوئے ایک جنکشن ملک وال بھی آتا تھا جہاں کے پکوڑے بہت مشہور تھے۔ نہ جانے مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں آنے والے دنوں میں کسی گرم اتوار پھر ہی اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ملک وال ریلوے اسٹیشن پر موجود ہوں گا۔ لالہ موسیٰ اسٹیشن پر جو چائے کیک ہم کھاتے تھے، اس کا ذائقہ آج بھی میری زبان پر ہے۔ بچپن کی پھر بات ہی الگ ہے۔
ہم جرنیلی سڑک پر سفر کرتے جاتے تھے کہ میرے بائیں جانب ایک سڑک لالہ موسیٰ ریلوے اسٹیشن کو جاتی تھی، جسے ہم نے نظر انداز کیا، اپنا سفر جرنیلی سڑک پر ہی جاری رکھا۔ ذرا آگے جا کر سڑک پر ایک بورڈ نظر آیا جہاں ’’چک پُرانا‘‘ لکھا تھا۔ یہی ہماری اگلی منزل تھی۔ ہم نے اپنی اپنی موٹرسائیکل چک پرانا ریلوے اسٹیشن کی جانب موڑ دی۔ ہمارے پنجاب کے ریلوے اسٹیشن خاص کر پوٹھوہار کے ریلوے اسٹیشنوں میں ایک بات بہت خوب صورت اور اہم ہے اور وہ ہے ہریالی۔ ہمارے پنجاب کا شاید ہی کوئی ریلوے اسٹیشن آپ کو نظر آئے جہاں انگریزوں کے پرانے پرانے برگد یا بوہڑ کے درخت نہ ہوں۔ چک پرانا ریلوے اسٹیشن بھی بالکل ایسا ہی تھا۔ ہرا بھرا، خوب صورت پلیٹ فارم اور سب سے بڑی بات۔۔۔ انتہائی ویران۔ یہ ویرانیاں ہی تو ہیں جو ان ریلوے اسٹیشنوں کی جانب میں کھینچا چلا جاتا ہوں۔
ہم جب چک پرانا ریلوے اسٹیشن کی طرف مڑ رہے تھے تو قریب ہی ایک آئل ڈپو کی طرف نظر پڑی جسے وقتی طور پر تو نظرانداز کیا مگر ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کر علم ہوا کہ یہ کتنی اہم شے تھے۔ میرے خیال میں یہ شاید پی ایس او کا آئل ڈپو تھا اور یہاں صرف اس ڈپو کے لیے الگ سے ریلوے لائن کا ایک لوپ بنا ہوا تھا۔ مال گاڑی یہاں آکر رکتی تھی۔ بڑی بڑی پائپ لائنز اس لوپ کے ساتھ ہی لگی ہوئی تھی جنھیں مال گاڑی کی ہر بوگی کے ساتھ جوڑا جاتا تھا اور پھر پٹرولیم مصنوعات کو اس ڈپو میں منتقل کیا جاتا تھا۔ جہاں سے یہ پٹرولیم مصنوعات مختلف علاقوں کو دی جاتی تھی۔ چک پرانا ریلوے اسٹیشن پر کھڑے تھے کہ دور سے پاکستان ایکسپریس آتی دکھائی دی۔ میں لاشعوری طور پر پاکستان ایکسپریس کا ہی انتظار کر رہا تھا جیسے کہ کہیں کھو سی گئی تھی۔ وجہ بس یہ تھی کہ پچھلی بار چکوال جاتے ہوئے جب میں ڈومیلی ریلوے اسٹیشن گیا تھا تو تقریباً یہی وقت تھا اور ڈومیلی میں ہمیں پاکستان ایکسپریس ملی تھی۔ ہری پور بند میں ہمیں لال ڈبے والی خیبر میل تھی اور اب چک پرانا میں پاکستان ایکسپریس ملنے کا رہی تھی۔
میں مین لائن کے ساتھ بنی لوپ لائن پر کھڑا ہوگیا۔ ڈرائیور نے قریب سے گزرتے ہوئے زور سے سیٹی بجائی اور ہم سب نے اچھل اچھل کر پاکستان ایکسپریس کو ایک الوداعی سلام پیش کیا۔ پاکستان ایکسپریس کے گزرتے ہی ہم سب نے بھی چک پرانا سے نکل جانا ہی مناسب جانا کہ ابھی ہمارا سفر طویل اور منزل بہت دور تھی۔ ہم چک پرانا سے دوبارہ جرنیلی سڑک پر پہنچے تو کچھ ہی دیر کھاریاں ریلوے اسٹیشن تھا جہاں رکنا ہماری فہرست میں نہ تھا۔ آپ جوں ہی کھاریاں سے نکلتے ہیں تو آپ کا واسطہ ایک جنگل سے پڑتا ہے جسے ’’پبی جنگل‘‘ کہا جاتا ہے۔ دوستوں کے لئے شاید یہ حیرت کا مقام ہو کہ پبی جنگل کے بیچوں بیچ ایک ریلوے اسٹیشن تھا جو نہ صرف خود ختم ہوچکا ہے بلکہ وہاں تک جانے کا راستہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ کسی زمانے میں اسے ’’بنی بنگلہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ پبی جنگل جہاں اورنگ زیب عالم گیر کا بنوایا ہوا ایک بہت بڑا تالاب آج بھی قائم ہے۔ جنگل کے بیچوں بیچ ہونے کی وجہ سے یہ تالاب عوام کی نظروں سے اوجھل ہے اور آج مسلسل درخت اگنے کی وجہ سے یہ تالاب درختوں میں گم ہوتا جا رہا ہے۔ عام روایت کہ ہے ویسے تو مغلوں کے پختونوں کے ساتھ ذرا اچھے مراسم ہی ہے، جس کی بنیادی وجہ شاید یہ تھی ظہیرالدین بابر جب درہ خیبر کے راستے وسطی ایشیا سے برصغیر میں داخل ہوا تو اس نے پختونوں سے رشتے داری بنالی۔ سوات کی یوسفزئی قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کرکے اس سے تمام معاملات کو حل کیا۔
یہ اچھے تعلقات اورنگزیب عالم گیر سے پہلے تک تو ٹھیک رہے مگر اورنگزیب عالم گیر کے اقتدار سنبھالتے ہی پختونوں اور مغلوں میں لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے۔ ایک جنگ میں شرکت کرنے کے لیے اورنگزیب جب اٹک قلعہ جب رہا تھا تو اسے یہ علاقہ بہت پسند آیا۔ جنگل ہی میں بہت بڑا تالاب بھی بنوایا جسے محکمۂ آثارِقدیمہ اپنانے کو تیار نہیں تھا مگر کھاریاں کے ایک وکیل کریم شاہ صاحب کی کوششوں سے سنا ہے محمکۂ آثارِ قدیمہ والوں نے اس تالاب کو گود تو لے لیا ہے مگر اس جانب کوئی توجہ نہیں۔ عالم گیر نے ایک سرائے بھی تعمیر کروائی جہاں آج سرائے عالم گیر شہر آباد ہے مگر اس سرائے کی بھی آج کوئی نشانی باقی نہیں۔ اورنگ زیب عالم گیر کی اگر اس علاقے میں کوئی نشانی باقی ہے تو وہ وہی پبی جنگل میں بنا ہوا تالاب ہے جہاں جانا خطرے سے خالی نہیں کیوں کہ جنگل ہونے کی وجہ سے یہاں جنگلی جانوروں خاص کر سُوَرّوں کی بہتات ہے۔ خنزیروں کی تعداد تو ویسے ہمارے پورے ملک میں ہی بہت ہے۔ محکمۂ آثارِ قدیمہ نے جنگل کے شروع میں ہی اپنے لیے ایک ریسٹ ہاؤس تو بنا رکھا ہے جہاں ان کے اپنے اعلیٰ افسران آ کر ٹھہرتے ہیں، موسم اور ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور پھر واپس شہری زندگی کو چلے جاتے ہیں مگر اورنگ زیب عالم گیر کے بنائے ہوئے تالاب کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔ ڈر ہے کہ توجہ نہ دینے کی وجہ سے چھوٹی اینٹ سے بنا ہوا یہ تالاب آئندہ چند سالوں میں مکمل طور پر ہی تباہ نہ ہو جائے۔ تالاب تک تو آپ پھر بھی کچھ اختیاطی تدابیر کے ساتھ جا سکتے ہیں مگر بنی بنگلہ ریلوے اسٹیشن نہ صرف خود متروک ہوچکا بلکہ یہاں تک جانے کے سب راستے بھی بند ہوچکے ہیں۔ آج بنی بنگلہ پبی جنگل کے بجائے صرف ریلوے کی پرانی کتب میں موجود ہے۔
ایم ایل ون اسی پبی جنگل سے گزرتی ہے۔ ریل کی سیٹی بھی گونجتی ہے مگر افسوس آج ہم بنی بنگلہ کو کھونے کی وجہ سے جنگل میں سے گزرتی ریل کے دل فریب مناظر سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔۔۔۔۔۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان میں چھے بڑے بڑے دریا بہا کرتے تھے جن میں سے پانچ تو صرف اپنے پنجاب میں ہی تھے۔ اس لیے تو اس سرزمین کو پنجاب کہا جاتا ہے۔ یہ پانچ دریا چناب، راوی، جہلم، ستلج اور بیاس تھے۔ دریائے سندھ تو موجودہ پاکستانی پنجاب کی صرف دُم پر داخل ہوتا ہے، اس لیے اسے ان پانچ دریاؤں میں شامل نہیں کیا جاتا۔ ویسے بھی جنوبی پنجاب خاص کر ریاست بہاول پور کو کم از کم میں تو پنجاب کا حصہ نہیں مانتا۔ آپ مانتے ہیں تو مانتے رہیں، کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے۔
ہر ایک کی اپنی رائے ہے اور میری رائے یہی ہے کہ نہ تو ریاست بہاول پور پنجاب کا حصہ ہے اور نہ ہی سرائیکی پنجابی زبان کا لہجہ۔ تو بات ان دنوں کی میں کر رہا تھا جب دریاؤں پر ابھی ڈیم بنانے کا رواج نہ تھا یعنی ہندوستان پر انگریز راج قیام تھا اور ان چھے کے چھے دریاؤں میں بحری جہاز چلا کرتے تھے، اسٹیمر دوڑتے تھے۔ ان چھوٹے چھوٹے بحری جہازوں کا سفر کراچی کی بندرگاہ کیماڑی سے شروع ہوتا اور جہاز سکھر سے ہوتے ہوئے کوٹ مٹھن تک سفر کرتے۔ یہاں سے شمال کو جانے والے جہاز دریائے سندھ کی طرف مڑ جاتے جب کہ وسطی اور جنوبی پنجاب یعنی لاہور اور ملتان کو جانے والے پنجند کی طرف سفر کرتے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا تھوڑے تھوڑے وقفے سے ملتے ہیں۔
جہلم پہلے چناب سے ملتا ہے اور پھر آگے چل کر راوی بھی چناب میں مل جاتا تھا۔ یہاں ’’تھا‘‘ کا صیغہ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کیوں کہ سندھ طاس معاہدہ کے تحت راوی اب پاکستان کی ملکیت نہیں رہا۔ تینوں دریا چناب ہی کے نام سے آگے بڑھتے تھے کیوں کہ چناب کا بہاؤ سب سے زیادہ تھا۔ بیاس تو بہت پیچھے ہی ستلج میں شامل ہوجاتا تھا۔ جنوبی پنجاب میں جا کر ہی چناب (چناب، راوی اور جہلم) اور ستلج (ستلج اور بیاس) دونوں مل جاتے تھے اور یوں پنجند سے آگے ایک ہی دریا بہتا تھا جس کا نام ستلج تھا۔ بالکل آخر یعنی کوٹ مٹھن کے قریب یہی دریائے ستلج اور اوپر سے آنے والا دریائے سندھ دونوں مل جاتے ہیں اور یہاں آگے صرف ایک دریا چلتا ہے جسے دریائے سندھ کہا جاتا ہے۔
کراچی سے ملتان تک کا یہ دریائی سفر دنوں میں مکمل ہوتا تھا اور یہاں سے آگے پورے ہندوستان میں سامان کی ترسیل کے لیے یا پھر مسافر زمینی راستہ اختیار کرتے تھے۔ اگرچہ بہت بھاری سامان جیسے انجن وغیرہ یا قیمتی سامان کے لیے لاہور تک کا دریائی سفر بھی اختیار کیا جاتا تھا۔ شمال کی جانب دریائے سندھ میں سفر کرنے کے لیے آخری بندر گاہ اٹک میں تھی جہاں سے آگے پہاڑی علاقے شروع ہو جاتے ہیں، اس لیے اسٹیمر پر مزید دریائی سفر ممکن نہیں تھا۔ اگرچہ کہ تاجِ برطانیہ کا منصوبہ تھا کہ دریائے کابل کے ذریعے ہی افغانستان تک رسائی حاصل کی جائے مگر یہ سارا منصوبہ نقشوں پر ہی تھا کہ برصغیر میں ریل نے اپنے قدم جمانا شروع کردیے۔ یہ ساری دریائی نقل و حرکت انگریزوں کی ہی کمپنی انڈس سٹیم فلوٹیلا کمپنی دے رہی تھی۔ جب ہندوستان میں ریل چلی تو موجودہ پاکستان میں سب سے پہلے کراچی تا کوٹری ریل کا ٹریک بچھایا گیا۔ اصل منصوبہ تو کیماڑی بندر گاہ (کراچی) کو پشاور اور دہلی سے جوڑنے کا تھا۔
منصوبہ بندی شروع ہوئی اور دریاؤں پر پُل بننے لگے۔ اسی دوران جنگِ آزادی بھی شروع ہوگئی جس کے اثرات سندھ تک نہ پہنچ سکے جس کی وجہ سے یہ منصوبہ چلتا رہا اور یوں مختلف اوقات میں یہ منصوبہ رینگتا رینگتا پہلے لاہور پہنچا، پھر راول پنڈی اور پھر پشاور۔ بعد میں یہی کراچی تا پشاور ریلوے لائن ایم ایل ون کہلائی۔ ہم جو بچپن سے اپنی مطالعہ پاکستان میں سنتے اور پڑھتے چلے آ رہے تھے کہ جب تقسیم کا عمل ہوا تو پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں صنعتوں کا ایک وسیع جال تھا اور پاکستان میں بھی جو تھوڑی بہت ترقی تھی، وہ راول پنڈی اور لاہور کے درمیان ہی تھی، جس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ افغانستان کی طرف سے انگریزوں کو ہمیشہ ہی حملے کا خطرہ رہتا تھا۔ سرحدی صوبے کے برعکس پنجاب ہمیشہ سے ہی پُرامن صوبہ رہا تھا۔ اس بات کو بھانپتے ہوئے نہرو نے پنجاب کو تقسیم کیا تھا کہ مسلمان ذرا اُدھر اُدھر ہی رہیں۔ سارا پنجاب اگر پاکستان کو ملتا تو بارڈر آج نہیں تو کل دہلی پر لگا ہوتا اور اگر نہرو سارا پنجاب خود رکھ لیتا تو حملوں کا ہمیشہ خطرہ رہتا۔ اسی لیے نہرو نے عقل مندی کی، پنجاب تقسیم کیا اور ہمارے کزنز کو ہمارے ساتھ ہی الجھا کر خود سکون سے بیٹھ گیا۔ ریل کی باتیں تو ساتھ ساتھ چلتی ہی رہیں گی، اب ذرا ہماری رام کہانی بھی سن لیں کہ ہم صرف سفر ہی نہ کرتے جاتے تھے بلکہ ساتھ ساتھ کچھ کھا پی بھی رہے تھے۔ میاں جی ریسٹورنٹ پر نظر پڑی تو یہیں ناشتہ کرنے کا سوچا۔ امید تھی کہ یہاں تندوری پراٹھے کھانے کو ملیں گے مگر پراٹھوں کے نام پر ہمیں جو کھلایا گیا، اسے کم از کم میں تو پراٹھا ماننے کو تیار نہیں۔ دال اور چنے اچھے تھے۔ صبح کا وقت تھا۔ ہلکی ہلکی دھوپ تھی۔ مزید یہ بھی کہ بائیک کے سفر کے بعد کچھ کچھ خنکی محسوس ہوتی تھی۔ اپریل کے ابتدائی دنوں کی ہلکی دھوپ، خنک زدہ جسم کو ایک الگ ہی مسرت دے رہی تھی۔
چائے کی چسکیوں کا تو ایک الگ ہی سرور تھا۔ ہم جو پھر سفر کو نکلے تو کھاریاں پار کر چکنے کے بعد ایم ایل ون ہمارے ساتھ ساتھ ہی چل رہی تھی کہ اچانک سے مجھے ریلوے سگنل ڈاؤن نظر آیا۔ میری پوری کوشش تھی کہ ہم جس جس ریلوے اسٹیشن پر رکیں، وہاں سے گزرتی ہوئی ریل ضرور دیکھیں جو کہ مشکل کام تھا مگر کسی حد تک ممکن بھی تھا۔ جہاں میں نے سگنل نیچے دیکھا، اس کے ذرا آگے ہی ایک سفید چونے والی عمارت نظر آئی جو کہ ممکنہ طور پر ہمارا اگلا ریلوے اسٹیشن ہو سکتا تھا۔ فی الحال تو مجھے اس ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے کی جلدی تھی۔ پوری کوشش تھی کہ جلد از جلد یو ٹرن لیا جائے مگر یو ٹرن کم از کم دو کلو میٹر بعد آیا۔ یو ٹرن لینے کے بعد اتنا ہی فاصلہ ہمیں پھر اس ریلوے اسٹیشن کی طرف کرنا پڑا۔ جس سفید عمارت کا مجھے شک تھا، وہی ’’چوآ کڑیالہ‘‘ تھا۔ ہم ابھی موٹرسائیکل چوآ کڑیالہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے کھڑی کر ہی رہے تھے کہ انجن نے زور سے سیٹی بجائی اور میں نے پلیٹ فارم کی طرف دوڑ لگا دی۔ مقصد صرف یہی تھا کہ ٹرین کے چوآ کڑیالہ ریلوے اسٹیشن سے گزرنے کے عمل کو اس طرف کیمرے میں محفوظ کرسکوں کہ ریلوے اسٹیشن کا نام بھی فریم میں آ جائے اور ریل نے تو پھر فریم میں آنا ہی تھا۔ ہم کُل چار لڑکے تھے (کتنا اچھا لگتا ہے ویسے اپنے آپ کو لڑکا لکھنے میں)۔ ابھی تینوں ریلوے اسٹیشن سے باہر ہی کھڑے تھے۔
مجھے پلیٹ فارم پر ٹرین کی جانب دوڑتے ہوئے دیکھ کر ریلوے اسٹیشن کے عملے کو پہلا گمان یہی گزرا کہ میں خود سوزی کرنے کی نیت سے ٹرین کے سامنے آنا چاہتا تھا مگر چند سیکنڈ کے فرق سے میری ٹرین چھوٹ گئی۔ ریلوے کا ایک بندہ میرے پیچھے بھاگا کہ مجھے روک سکے مگر جب اس نے مجھے جیب سے موبائل نکالتے دیکھا تو پوری بات سمجھ گیا اور پیچھے ہٹ گیا۔ ہم جب فوٹوگرافی سے فارغ ہوچکے تو ہمیں اندر طلب کرلیا گیا۔ سرزنش کی گئی کہ اگر خدا نخواستہ میرا پاؤں سلپ ہوجاتا یا بھاگنے کی وجہ سے میری بریک نہ لگتی اور میں پلیٹ فارم سے نیچے گر جاتا تو کون ذمے دار ہوتا؟ بات اسٹیشن ماسٹر صاحب کی ٹھیک تھی۔ مجھے یہ بے احتیاطی نہیں کرنا چاہیے تھی۔ چوآ کڑیالہ ریلوے اسٹیشن کے عملے کی جانب سے چائے کی دعوت پیش کی گئی جسے ہم نے شکریہ کے ساتھ مسترد کر دیا۔ کچھ تصاویر بنوائیں اور پھر سے جرنیلی سڑک پر واپس آگئے ۔۔۔۔۔۔ یہاں کچھ باتیں جرنیلی سڑک کے متعلق ہونا بھی ہیں۔ کچھ ایسی غلط فہمیاں یا غلط العام جو جرنیلی سڑک کے بارے مشہور ہیں مگر غلط ہیں۔ اس ضمن میں محمد عبدہ صاحب کا ایک مضمون نظر سے گزرا جسے میں جوں کا توں نقل کر رہا ہوں۔ سکندرِاعظم کے بعد ہمارے موجودہ پنجاب میں اشوک اعظم کے دادا چندرگپت موریہ کی حکومت کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس حکومت میں یونان کا ایک سفیر میگا ستھیز تھا۔
میگا ستھیز 305 قبل مسیح سے 281 قبل مسیح تک تقریباً 25 سال یہاں سفیر کی حیثیت سے رہا جو بہت زبردست محقق اور لکھاری بھی تھا۔ اور یہاں کے حالات زندگی پر کتاب Indika لکھتا رہا جو آج بھی موجود ہے۔ میگا ستھیز لکھتا ہے کہ چندر گپت موریہ کی راجدھانی میں ایک نکڑ پاٹلی پٹر (موجودہ پٹنہ) سے دوسری نکڑ بالا حصار (موجودہ کابل) تک ایک راج پاتھ (شاہی سڑک) تھی۔ یہ سڑک اس وقت کے فاصلاتی پیمائش سٹیڈیا کے مطابق تقریباً 1600 میل (2500 کلومیٹر) تھی۔ یہ سڑک زمین سے کچھ اونچی بنائی گئی تھی، یہاں ہر ایک سٹیڈیا (تقریباً 2.2 کلومیٹر) کے فاصلے پر ایک مینار بنا تھا، جس میں اگلے مینار کا فاصلہ، راستے میں آنے والی آبادیوں اور دائیں بائیں نکلنے والی سڑکوں کی تفصیل لکھی ہوتی تھی۔ اس سڑک کی دیکھ بھال کے لیے ایک سرکاری محکمہ بھی بنا ہوا تھا۔ اس بات کو کچھ دیر یہاں روک کر 1800 سال آگے چلتے ہیں یہ 1540 کا زمانہ ہے شیرشاہ سوری رہتاس قلعہ فتح کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے اور ہمایوں کو شکست دیکر دہلی میں اپنی حکومت قائم کرلی ہے اور پھر مسلسل جنگیں لڑتا ہوا سہسرام تک جا پہنچا اور صرف 5 سال بعد 1545 میں سہسرام قلعہ کے باہر بارود پھٹنے سے فوت ہوگیا اور وہیں دفن ہوا۔ شیر شاہ سوری ایک عبقری بادشاہ اور بہترین منتظم تھا، زمین کا پٹوار خانہ، آبپاشی سمیت بیشمار نظام بنا کر برصغیر کو دیکر گیا ہے۔ لیکن ایک آپ سوچنے والی ہے کہ کیا یہ ممکن ہے آج سے تقریباً 480 سال پہلے جنگوں میں مسلسل مصروف رہنے والے بادشاہ نے صرف 5 سال میں کلکتہ سے کابل تک تقریباً 2500 کلومیٹر لمبی سڑک بھی بنا دی ہو؟ بعض کتابوں میں جی ٹی روڈ کے کچھ حصے مرمت کرنے کا تذکرہ ضرور ملتا ہے اور کچھ جگہوں پر قوس مینار کا ذکر بھی آتا ہے مگر جی ٹی روڈ بنانے کا معمار شیر شاہ سوری ہر گز نہیں تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں موٹروے کے علاوہ ہر بین الاضلاعی سڑک کو جی ٹی روڈ کہہ دیا جاتا ہے، یاد رکھیں جی ٹی روڈ، جرنیلی سڑک، گرینڈ ٹرنک روڈ صرف ایک ہی ہے جو پشاور اٹک ٹیکسلا راولپنڈی جہلم کھاریاں لالہ موسی، وزیر آباد سے لاہور آتی ہے اور پھر واہگہ سے امرتسر دہلی چلی جاتی ہے۔ یہ چندرگپت موریہ کی راج پاتھ ہے، مغلیہ دور میں جرنیلی سڑک بنی، انگریزوں نے اسے جی ٹی روڈ بنا دیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی کوئی بھی سڑک جی ٹی روڈ نہیں ہے۔ چاہے یہ روایت جہاں سے بھی، جیسے بھی مرضی مشہور ہو گئی ہو تاریخی طور یہ بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انگریز نے جتنی بھی مزید سڑکیں بنائیں انہیں جی ٹی روڈ کہنا شروع کردیا۔ جیسے ملتان سے دہلی، لاہور سے فیصل آباد، وغیرہ وغیرہ۔ کیا آپ نے میگا ستھنیز کی انڈیکا اور کوتیلہ چانکیہ کی ارتھ شاستر پڑھی ہے؟ اگر پڑھی ہوتی تو جی ٹی روڈ کو کبھی شیر شاہ سوری کی نہ کہتے۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہندو نے بابری مسجد پر قبضہ کرکے رام مندر بنا لیا اور ہم نے ہندو راجہ چندرگپت موریہ کی پوری سڑک ہی مسلمان بادشاہ شیرشاہ سوری کے نام تھوپ دی ہے۔
لہٰذا حساب برابر ہوا۔ جیسے ہندو راجہ پورس ہمارا دشمن اور ہمارے آباؤاجداد کو قتل کرنے والا سکندراعظم ہمارے چاچے کا پُتر تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ہم چوآ کڑیالہ ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلے تو واپس جرنیلی سڑک پر سفر شروع کر دیا۔ جہانگیر کا بنایا ہوا سرائے عالم گیر گزرا اور پھر اسی خاموشی سے جہلم بھی گزر گیا۔ یہاں کچھ ایسے ریلوے اسٹیشن بھی تھے جہاں اب ریل نہیں رکتی مگر وہ ہماری فہرست میں شامل نہیں تھے۔ وقت کی کمی کو دیکھتے ہوئے میں ایسے تمام ریلوے اسٹیشن چھوڑتا چلا جا رہا تھا جنھیں میں نے پہلے سے دیکھ رکھا تھا۔ اسی لیے سرائے عالم گیر کو بھی چھوڑا، جہلم کو بھی چھوڑ دیا اور سیدھا گلزار کے شہر دینہ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گیا۔ دینہ جہاں ریل رکتی ہے مگر گلزار کی وجہ سے میں یہاں رک رہا تھا کہ گلزار کی جنم بھومی پر کم از کم ایک بار رکنا تو بنتا تھا۔ گلزار جن کا اصل نام سمپورن سنگھ تھا، کی تاریخِ پیدائش میں اگرچہ کہ اختلاف ہے مگر زیادہ معتبر یہی مانا جاتا ہے کہ آپ 18 اگست 1936 دینہ میں پیدا ہوئے۔ والد سردار مکھن سنگھ کپڑے کے شعبے سے وابستہ تھے۔ والدہ سبحان کور، مکھن سنگھ کی دوسری بیوی تھی جن کا انتقال گلزار کی بہت چھوٹی عمر میں ہی ہو گیا۔ سبحان کور کے انتقال کے بعد گلزار کے والد نے تیسری شادی کر لی۔ سمپورن سنگھ نے اپنے استاد مجیب الرحمٰن کے مشورے سے اپنا نام گلزار رکھ لیا۔ اس طرح گلزار کی وجہ شہرت دو چیزیں ہوگئیں۔ ایک گلزار خود، دوسرا ان کا سفید کُرتا پاجامہ جو ہمیشہ ہی گلزار کو دوسروں سے منفرد بناتا تھا۔ سفید کُرتے پاجامے میں یوں لگتا ہے جیسے یہ رنگ بنا ہی گلزار صاحب کے لئے ہے۔ گلزار جو تھے تو بابا گرو نانک کے ماننے والے مگر مینا کماری سے محبت اتنی تھی کہ ان کے لئے روزے بھی رکھتے تھے۔ گلزار کو دو چیزوں سے بڑی محبت ہے (میں کیسا خوش قسمت ہوں جو گلزار کے لیے ’’ہے‘‘ کا صیغہ استعمال کر رہا ہوں)۔ ایک دینہ اور دوسری اردو اور دونوں کا حوالہ ہمیں بار بار ان کی شاعری میں ملتا ہے۔
ذکر جہلم کا ہو، بات ہو دِینے کی چاند پکھراج کا، رات پشمینے کی وہ یار ہے جو خوشبو کی طرح جس کی زبان اردو کی طرح گلزار اگرچہ کہ بھارت میں بمبئی جیسے گنجان شہر میں رہتے ہیں مگر دینہ ان کے دل سے کبھی نہیں نکلا۔ اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ فلم ماچس کا ایک گیت ’’چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں‘‘ انھوں نے دینہ کی گلیوں کو یاد کرتے ہوئے ہی لکھا تھا۔ گلزار گیارہ سال کے تھے جب برصغیر تقسیم ہوا اور گلزار صاحب اپنے اہل و عیال کے ساتھ بھارت چلے گئے۔ جہاں وہ دینہ کو نہیں بھولے تو تقسیم کے زخموں کو بھی نہیں بھولے۔ خوف، پلکوں کی چھاؤں، راوی پار، یہ سب وہ افسانے تھے جس میں تقسیم کے غم کو بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ دینہ ریلوے اسٹیشن پر ہی ہمیں عوام ایکسپریس نے آن لیا۔ مجھے جوں ہی پتا چلا کہ عوام ایکسپریس آ رہی ہے تو میں فوراً ہی موٹر سائیکل پر بیٹھا اور دوستوں کو بھی بھگانے کا کہا۔ میرا ایک خواب یہاں سچ ہو سکتا تھا اگر میں ذرا دوڑ لگاتا۔ ڈومیلی پار کرتے ہی جرنیلی سڑک ایک نالے پر سے گزرتی ہے جہاں نئے پُل اور ریلوے لائن کے درمیان پرانی جرنیلی سڑک کا بنا پُل بھی ہے۔
اس پل پر سے ریل کو گزرتا ہوا دیکھنا میرے لیے ایک خواب ہے۔ ایک ایسی تصویر لینا جس میں پیچھے پوٹھوہار کی پہاڑیاں ہوں، میرے سامنے سے ریل گزر رہی ہو اور ریل اور میرے درمیان پرانی جرنیلی سڑک کا ایک چھوٹا سا پُل بھی ہو۔ میں نے دوڑ لگائی تو راستے میں پھاٹک آ گیا۔ پھاٹک بند تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ عوام ایکسپریس یہاں نہیں رکے گی بلکہ سیدھا ہی گزر جائے گی۔ عوام ایکسپریس فراٹے بھرتے ہوئے گزر گئی اور پھاٹک کھلنے کے بعد رش کی وجہ سے مزید تاخیر ہوگئی۔ میرا یہ خواب، خواب ہی رہا اور عوام ایکسپریس کو اس دریائی گزر گاہ سے گزرتے ہوئے میں نہ دیکھ سکا۔ ابھی چند دن پہلے ہی محترم قیوم صاحب کی بھیج ہوئی تصاویر موصول ہوئیں۔ تصاویر دیکھیں تو وہ اسی پُل کی تھیں، جہاں سے میں ریل کو گزرتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔ خود تو یہ منظر نہ دیکھ سکا، فی الحال محترم قیوم صاحب کے موبائل سے ہی دیکھ لیا۔ ( جاری ہے )