33 C
Lahore
Monday, May 19, 2025
ہومغزہ لہو لہوٹرمپ کی عشائیہ ڈپلومیسی - ایکسپریس اردو

ٹرمپ کی عشائیہ ڈپلومیسی – ایکسپریس اردو


پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی، تناؤ، کشمکش، سرحدی چھیڑ چھاڑ اور باقاعدہ جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے، ہر دو ممالک کے حکمرانوں کے درمیان تنازعہ کشمیر سمیت مختلف مسائل پر مذاکرات بھی ہوئے، رابطے ٹوٹتے بھی رہے، بات چیت میں تعطل بھی آتا رہا، اسی باعث دونوں ممالک کے درمیان آج تک خوش گوار تعلقات کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اگر آپ ماضی کی تاریخ دیکھیں تو کشیدگی میں اضافے کا آغاز ہمیشہ بھارت کی جانب سے ہوتا رہا ہے۔ مختلف بہانوں، بے بنیاد الزامات اور من گھڑت جھوٹے واقعات کو جواز بنا کر بھارت پاکستان کے خلاف مہم جوئی کرتا رہا ہے۔

1987 میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سرحد پر فوجیں جمع کرکے پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ قومی اور عالمی میڈیا میں پاک بھارت کشیدگی کی خبروں سے ایک ہلچل مچ گئی۔ ممتاز امریکی سفارت کار ڈینس کے مطابق امکانی جنگ کی اطلاعات کے بعد امریکا اور سوویت روس کے درمیان رابطے ہوئے اور طے پایا کہ امریکی صدر رونالڈ ریگن پاکستان اور بھارت کی قیادت سے رابطہ کرکے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کریں۔

صدر ریگن نے راجیو گاندھی اور جنرل ضیا الحق پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ کشیدگی کا خاتمہ کریں۔ ایک ملکی فوجی ماہر نے مضمون میں لکھا کہ انڈین فوج کے سربراہ مہندر جی یہ خواب دیکھتے تھے کہ وہ کسی ماہر شمشیر زن کی طرح اپنا ماسٹر اسٹروک کھیلیں گے اور پاکستان کو دو حصوں میں کاٹ کر رکھ دیں گے مگر انڈیا کا اصل منصوبہ یہ تھا کہ پنجاب پر حملہ کرکے اسے سندھ سے کاٹ دیا جائے تاکہ پاکستان کو اس کے ایٹمی قوت بننے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔

ایک ایسے وقت میں جب انڈیا اور پاکستان کی فوجیں سرحدوں پر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی تھیں اور جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے تو جنرل ضیا الحق اپنے وفد کے ہمراہ کرکٹ میچ دیکھنے انڈیا پہنچ گئے۔ مبصرین حیران ہو گئے، جنرل ضیا نے اپنے اس دورے کو ’’کرکٹ برائے امن‘‘ کا نام دیا جب کہ عالمی میڈیا نے اسے ’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔

واقفان حال کا کہنا ہے کہ جنرل ضیا الحق نے بھارتی وزیر اعظم راجیوگاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تم پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہو، ٹھیک ہے کرو، لیکن یاد رکھنا کہ اس حملے کے بعد دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی، صرف ضیا الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی کیوں کہ یہ جنگ روایتی نہیں ایٹمی ہوگی، ہو سکتا ہے اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان ختم ہو جائے لیکن مسلمان دنیا میں موجود رہیں گے کیوں کہ دنیا میں مسلمانوں کے بہت سے ملک ہیں۔

رہ گئے ہندو تو یاد رکھنا کہ اس تباہی یعنی ایٹمی جنگ کے نتیجے میں ہندوستان مٹ گیا تو پوری دنیا سے ہندوؤں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ جنرل ضیا نے آخری بات یہ کہی کہ اگر تم نے میری واپسی سے قبل اپنی فوج کو واپسی کا حکم نہ دیا تو پاکستان پہنچتے ہی میرے منہ سے ایک ہی لفظ نکلے گا ’’فائر۔‘‘ مبصرین کے بقول جنرل ضیا کے دورے کے بعد صورت حال تبدیل ہو گئی، دونوں ملکوں کے درمیان سمجھوتہ طے پا گیا اور پاکستان و انڈیا کی فوجیں کشیدگی سے پہلے والی پوزیشن پر چلی گئیں۔

جنرل ضیا کی ’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ تو نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 7 تا 10 مئی کے دوران لڑی گئی مختصر جنگ جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ذاتی کوششوں سے رکوائی جس کا وہ مختلف مواقعوں پر بار بار خود ذکر کرتے چلے آ رہے ہیں، اپنے حالیہ دورہ عرب میں بھی انھوں نے برملا یہ کہا کہ امریکا نے مصالحتی کردار ادا کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کرا دی اور اسی مقصد کے لیے میں نے تجارت کو استعمال کیا۔

بقول ٹرمپ میں نے کہا کہ ’’دوستو! آؤ ایک معاہدہ کرتے ہیں، کچھ تجارت کرتے ہیں، جوہری میزائل کی نہیں بلکہ ان چیزوں کی جو آپ بڑے خوب صورت انداز میں بناتے ہو۔‘‘ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان اور بھارت کی قیادت کو عشائیے پر اکٹھا کر لیں گے۔ صدر ٹرمپ اپنی ’’عشائیہ ڈپلومیسی‘‘ کے ذریعے پاک بھارت کشیدگی کو مکمل طور پر ختم کرانے میں کامیاب ہو سکیں گے اور دونوں ملکوں کے درمیان تنازع کشمیر، سندھ طاس معاہدہ اور دیگر حل طلب مسائل کا ہر دو فریق کے لیے قابل قبول حل تلاش کرنے میں کوئی کلیدی کردار ادا کر سکیں گے؟ یہ انتہائی اہم سوالات ہیں کیوں بظاہر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی تو ہو گئی ہے لیکن زبان بندی نہیں ہوئی۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر ان کے وزرا تک اور انڈین میڈیا سے لے کر متعصب تجزیہ نگاروں تک بیانات دیکھ لیں تو آگ اگلتے نظر آتے ہیں جو بھارت کے مذموم، مکروہ اور ناپاک و خطرناک ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ مودی کی درخواست پر امریکا نے جو جنگ بندی کرائی ہے وہ عارضی ہے۔ بھارت مہلت حاصل کرکے پاکستان کے خلاف حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ 10 مئی کو اپنی شکست و تباہی کا بدلہ لے سکے۔ بھارتی لیڈروں اور انتہا پسند میڈیا نے جارحانہ اور جنونی بیانات اور دھمکیوں کے جواب میں پاکستان کے وزیر اعظم، سپہ سالار، وزرا اور ہمارے میڈیا نے نہایت ذمے دارانہ طرز عمل اختیار کیا اور بھارت کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اور پاکستان کے خلاف دوبارہ جارحیت کی تو پہلے سے زیادہ سخت جواب دیا جائے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے یوم تشکر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے جنگ جیت لی ہے فتح کے بعد اللہ نے پاکستان کو وہ مقام عطا کیا ہے کہ اب کوئی بڑی سے بڑی طاقت ہمارا راستہ نہیں روک سکتی۔

وزیر اعظم نے صاف لفظوں میں پیغام دیا کہ آئیں مذاکرات کریں، ہم امن کے لیے کشمیر سمیت تمام مذاکرات کا حل چاہتے ہیں۔ آرمی چیف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پوری قوم نے متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ ہمارے میڈیا کا کردار ذمے دارانہ رہا، ہم نے کچھ نہیں چھپایا۔ سب حقیقت بتائی، بھارتی میڈیا کو ایسا جواب دیا جو اسے ہمیشہ یاد رہے گا۔ ایسی نازک صورت حال میں کہ جب بھارت جارحیت کے لیے دوبارہ پَر تول رہا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کی عشائیہ ڈپلومیسی کامیاب ہوگی یا نہیں، اس سوال کا جواب آنے والا وقت دے گا۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات