45.8 C
Lahore
Sunday, May 18, 2025
ہومغزہ لہو لہوبے گھر زمین کے باسی

بے گھر زمین کے باسی


کچھ دن قبل جب پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ اپنے عروج پر تھا، میں نے اپنے کالم پہلگام کے زخم ، جنگ کی سیاست اور امن کی تلاش میں لکھا تھا کہ حالیہ حملے نے نہ صرف کئی گھرانوں کو سوگوار کیا بلکہ برصغیر کی فضا کو ایک بار پھر بارود کی بو سے آلودہ کردیا۔ ہم کب تک لاشیں گنتے رہیں گے؟ اب رفتہ رفتہ جنگی طبل کی آوازیں مدھم ہو رہی ہیں اور سفارت کاری کی راہیں دوبارہ ہموار ہونے لگی ہیں۔

یہ منظر دل کو ایک عجیب سی ڈھارس دے رہا ہے۔ مگر جب سرحدوں پر اُترتی ہوئی خاموشی کو دیکھتی ہوں تو دل اُن لاکھوں ان دیکھے چہروں کے بارے میں سوچتا ہے جو ان جنگوں ان تنازعات کے شکار ہوئے۔ وہ بچے، وہ عورتیں، وہ بوڑھے جو اپنی مٹی اپنی شناخت اپنے گھروں سے محروم کر دیے گئے۔ وہ جن کے لیے دنیا ایک بے رحم نگر بن چکی ہے اور زمین محض ایک انجان سرزمین۔

آج مہاجرین کی تعداد دنیا بھر میں خوفناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے کے مطابق 2024کے آخر تک دس کروڑ سے زائد انسان یا تو اندرونِ ملک بے گھر ہوچکے ہیں یا سرحدوں کے پار بھٹک رہے ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں یہ بکھری ہوئی زندگیوں کی گنتی ہے۔ یہ اُن خوابوں کا ملبہ ہے جوکبھی گھروں کی دہلیز پر پروان چڑھتے تھے۔ ہجرت کی داستان کوئی نئی نہیں۔ چاہے وہ اسپین سے یہودیوں کی جبری بے دخلی ہو یا 20 ویں صدی کے اوائل میں آرمینیائی قتلِ عام کے بعد لاکھوں مہاجرین کی دربدری انسانی تاریخ مہاجرین کے خون اور آنسوؤں سے لکھی گئی ہے۔

برصغیر کی تقسیم 1947میں جو خونی ہجرت ہوئی، وہ تاریخ کی سب سے بڑی اور سب سے المناک ہجرتوں میں سے ایک تھی۔ تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ انسانوں نے اپنی جان بچانے کے لیے سرحدیں عبورکیں اور ان میں سے کئی لاکھ اپنی جان سے بھی گئے۔ اس ہجرت کے زخم آج بھی دونوں ملکوں کے وجود پر نقش ہیں۔ اسی طرح فلسطین جوکبھی زیتون کے باغات اور پر امن بستیوں کا دیس تھا 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد نَکبہ کا شکار ہوا۔ لاکھوں فلسطینی اپنی سرزمین سے بے دخل ہوئے۔ آج تیسری اور چوتھی نسل تک وہ مہاجر کیمپوں میں جی رہے ہیں بغیر کسی پاسپورٹ، بغیر کسی سرزمین کے۔ شام ، عراق، یمن، افغانستان، جنوبی، سوڈان، ایتھوپیا دنیا کے ہر کونے میں کہیں نہ کہیں کوئی قافلہ ہے جو اپنی بقا کے لیے راہوں میں بھٹک رہا ہے۔

مہاجر ہونا محض ایک جغرافیائی تبدیلی نہیں، یہ وجود کا بکھر جانا ہے۔ مہاجر ہونا اُس بچے کی آنکھوں سے وطن کا خواب چھن جانا ہے جسے کبھی اسکول جانا تھا مگر اب خیمے میں روٹی کی لائن میں لگنا سیکھنا ہے۔ مہاجر ہونا اُس عورت کا صبر ہے جو بے بسی میں بچوں کے لیے پناہ مانگتی ہے اور اپنے آنسو چھپاتی ہے۔ مہاجر ہونا اُس بوڑھے کا کرب ہے جو اپنی زمین، اپنی زبان اور اپنی مٹی سے جدا ہوکر اجنبی شہروں کی گرد میں کھو جاتا ہے۔ پھر جب یہ مہاجر سرحدوں پر دستک دیتے ہیں تو وہی دنیا جو انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، انھیں واپس دھکیل دیتی ہے۔ سمندری لہریں ان کے لیے قبرستان بن جاتی ہیں، دیواریں بلند ہو جاتی ہیں۔ دستاویزات اور ویزے ان کی قسمت پر تالے لگا دیتے ہیں۔

جب امریکا اور یورپ اپنے دروازے مہاجرین پر بند کرتے ہیں، جب خلیجی ممالک لاکھوں بے گھر انسانوں کے لیے اپنے شہروں میں کوئی جگہ نہیں نکالتے، جب افریقی حکومتیں اپنے ہی لوگوں پر ظلم ڈھاتی ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے، کیا اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج انسانی برابری محض ایک خواب تھا؟ ہم دیکھتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ کے بعد یورپی ملکوں نے یوکرینی مہاجرین کو خوش آمدید کہا مگر جب بات شامی یا افریقی مہاجرین کی ہوئی تو وہی دروازے بند کر دیے گئے۔

یہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر روا رکھا گیا امتیاز ہے جس نے عالمی ضمیر کو ایک بار پھر شرمسار کردیا ہے۔ مگر ہر اندھیرے کے بیچ کہیں نہ کہیں ایک دیا بھی جلتا ہے۔ کسی گمنام رضاکار کے ہاتھوں میں ایک روٹی ،کسی بے نام استاد کے الفاظ میں علم، کسی بے خوف شاعر کے قلم میں امید، یہی تو وہ کرنیں ہیں جو دنیا کو اب بھی انسانوں کی دنیا بناتی ہیں۔ پناہ گزین بچوں کے لیے قائم اسکول، جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والی فلاحی تنظیمیں ، اپنے گھروں کو مہاجرین کے لیے کھولنے والے انسان، یہ سب وہ چراغ ہیں جو سرحدوں کے پار بھی جلتے ہیں اور دلوں کے بیچ بھی۔

 یاد رکھیے! مہاجرین ہماری ہمدردی نہیں مانگتے، وہ اپنا بنیادی انسانی حق مانگتے ہیں، جینے کا حق، شناخت کا حق، عزت کا حق۔ ہم سب کسی نہ کسی طرح ان بے گھر زمین کے باسیوں کے ہم سفر ہیں۔ ان کی کہانی ہمارے خوابوں سے جڑی ہے، ان کے زخم ہماری انسانی تاریخ کا حصہ ہیں، اگر ہم نے ان بے نام مسافروں کو نظر انداز کردیا تو یاد رکھیں کل تاریخ ہمیں بھی اسی بے حسی کے کٹہرے میں کھڑا کرے گی۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم سرحدوں کے پار دیکھنے کا ہنر سیکھیں۔ رنگ نسل مذہب سے پرے انسان کو انسان سمجھیں۔ اور ہر اس دربدر انسان کے لیے ایک نرم گوشہ اپنے دل میں رکھیں جو اپنی زمین اپنی مٹی اپنے خوابوں سے جدا ہو کر کسی انجان راستے پر رواں دواں ہے۔

 وہ لوگ کس اذیت سے گزرتے ہوں گے جو بے گھر ہوجاتے ہیں جن کی کوئی شناخت نہیں رہتی۔ ہر لمحہ خوف میں گزرتا ہوگا۔ اس درد اور بے بسی سے کسی انسان کو نہ گزرنا پڑے۔ پھر بھی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ شاید کسی انجان راہ پر کسی خستہ خیمے میں کسی اجڑے میدان میں کوئی چراغ جل رہا ہو جو اندھیرے کو مات دینے کی ہمت رکھتا ہو۔
 



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات