31.5 C
Lahore
Tuesday, May 13, 2025
ہومغزہ لہو لہوپاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے شناختی کارڈ سے محروم

پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے شناختی کارڈ سے محروم


نادرا کے قیام کے بعد سے اس ادارے کا رویہ پاکستانی شہریوں کے ساتھ انتہائی تضحیک آمیز رہا ہے۔

بالخصوص ان افراد کے خلاف جنہوں نے پاکستان کے قیام میں اپنی عزت آبرو جان و مال سب کچھ قربان کر دیا اور اپنے اجداد کے لہو سے اس پاک وطن کی آبیاری کی ۔ تاریخ پاکستان اس بات کی گواہ ہے کہ اگر 1946 میں بہار کے فسادات نہ ہوتے تو آج دنیا کے نقشے پر پاکستان بھی نہ ہوتا ، اس سال بہار میں بہار کے مسلمانوں نے بے مثال قربانیاں دیں ، ہزاروں مسلمانان بہار نے اس وطن کی آزادی کی جنگ کو اپنے لہو سے سرخرو کیا ۔

1946 میں بہار کے مسلمانوں نے جو تاریخ ساز قربانیاں دیں تو اس موقع پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ مجھے بہار کے مسلمانوں پر فخر ہے، ہندو راہ نما سردار ولبھ بھائی پٹیل سمیت دیگر ہندوستانی راہ نماؤں نے کہا کہ اب پاکستان بننے سے کوئی نہیں روک سکتا جس کے بعد برصغیر پر قابض جابر انگریزی حکومت نے ہندوستان کو دو علیحدہ ریاستوں میں تقسیم کردیا اور یوں 14 اگست 1947 کو پاکستان معروض وجود میں آیا۔ بہاری مسلمانوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بہار کبھی بھی پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتا اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے علیحدہ ریاست کے قیام میں لاکھوں کی تعداد میں قربانیاں دیں، قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش پر بہار سے چند لاکھ مسلمانوں  نے مشرقی پاکستان ہجرت کی تاکہ اس ملک کو چلانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔

تقسیم ہند کو ہندوستان نے دل سے تسلیم نہیں کیا اور اس نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند تنظیم مکتی باہنی و دیگر کو مسلح کرنا ان کی عسکری تربیت کی اور اس نے 24 سالوں میں مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیا ، سیاسی اور عسکری قیادت نے حالت کو سمجھنے میں دیر کردی ملک دولخت ہوگیا۔ بہار سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان آنے والے بہاریوں نے ایک مرتبہ پھر اپنا لہو دے کر اس وطن کو بچانے کی کوشش کی۔ 16 دسمبر انیس سو اکہتر کو سقوط ڈھاکا ہوگیا ، پاکستان کی خاطر اپنے آباؤ اجداد کی زمین چھوڑ کر ہجرت کرنے والے پاکستان شہریوں کو بنگلادیش کے 116 کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

سقوط ڈھاکا کے بعد حکومتی سطح پر چند لاکھ لوگ مغربی پاکستان پہنچ پائے، باقی حکومتی بے حسی کی وجہ سے بنگلادیش کے 116 کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ، پاکستانی ایمبیسی نے 2002 تک بنگلادیش سے پاکستان آنے والوں کو ویزہ جاری کیا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستانی حکومت نے قومی شناختی کارڈ کا اجراء کیا اور انیس سو چوہتر تک پاکستان آنے والے بہاریوں کو شناختی کارڈ جاری کیے گئے مگر اس کے بعد بنگلادیش کے کیمپوں سے پاکستان آنے والے بہاریوں کو شناختی کارڈز جاری کرنے سے روک دیا گیا۔

نادرا کے قیام کے بعد پاکستانی شہریوں، جن میں بہاری بھی شامل تھے، کو شناختی کارڈ جاری کیا گیا، مگر بتدریج بہاریوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا عمل روک دیا گیا اور جن بہاریوں کے شناختی کارڈ جاری ہوئے تھے انہیں مختلف حیلے بہانوں سے بلاک کرنا شروع کردیا گیا۔ بالخصوص سابق صدر ضیاء الحق کے زمانے میں شہری ایکٹ 16 اے میں ترمیم کے بعد بہاریوں کو شناختی کارڈ کے مسائل سے دو چار کردیا گیا، تحریکِ حقوقِ بہاری پاکستان نے اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ آواز بلند کی۔۔ مہاجر قومی موومنٹ اور مسلم لیگ ن کی حکومت میں بنگلادیش کے کیمپوں سے چند سو خاندانوں کو پاکستان لایا گیا، جنہیں سابق وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدروائیں نے میاں چنوں کے مقام پر مکانات بناکر آباد کیا۔ ایم کیوایم مہاجرقومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہونے کے بعد بہاریوں کی منتقلی کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی۔

بعدازآں تحریکِ حقوقِ بہاری پاکستان نے حسن رضا بخاری ایڈووکیٹ کی قیادت میں اس حوالے سے اپنی جد و جہد کا آغاز کیا۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی خواجہ اظہارالحسن نے شہری ایکٹ 1951 میں ترمیم کا بل پیش کیا۔ انہوں نے اپنے پیش کردہ بل میں 1982 تک پاکستان آنے والوں کو شہریت اور شناختی کارڈ جاری کرنے کا کہا گیا ہے۔

یہ بل چند بہاری شخصیات نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ بہاریوں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے مگر اس موقع پر تحریکِ حقوقِ بہاری پاکستان نے اس بل کو مسترد کرنے کی بجائے اس میں فوری ترمیم کا مطالبہ کرتے ہوئے آنے والوں کو شہریت اور شناختی کارڈ دینے کی مدت 2002 تک کرنے کا مطالبہ کیا۔ تحریکِ حقوقِ بہاری پاکستان اپنے مذاکراتی عمل کو جاری رکھتے ہوئے خواجہ اظہار الحسن سمیت متحدہ کی اعلیٰ قیادت تک اپنے سفارشات پہنچائیں اور قوی امکان ہے کہ متحدہ اس حوالے سے ترمیمی بل پیش کرے گی جس سے بہاریوں کے شناختی کارڈ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات