الطاف حسن قریشی‘ صحافت کی دنیا کے جہاں دیدہ شہسوار ہیں۔ پختہ عمر اور طبیعت کے حد درجہ سادہ انسان۔ پچھلے برس ایک تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ مہربانی تھی کہ انھوں نے اپنے دولت خانہ پر وقت دیا۔ قریشی صاحب سے ملنے کے بعد‘ ایک احساس ہوا کہ ہمارے ملک میں حد درجہ اعلیٰ معیار کے صحافی موجود ہیں۔ مگر وہ معدودے چند لوگ ہی ہیں ۔
ان بلند پایہ لوگوں کی قدر کرنی چاہیے۔ بلکہ طالب علم تو انھیں قومی اثاثہ گردانتا ہے اور ان کا جائز مقام بھی یہ ہے۔ اب ذرا ان کی نئی کتاب دانش ِگفتگو کے متعلق بھی گزارش کرتا چلوں۔ قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں‘ جناب علامہ عبدالستار عاصم صاحب نے اس نسخہ کو کتاب کی شکل دی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ کسی دن علامہ صاحب پر ایک کالم لکھوں کیونکہ معاشرہ میں جس قدر مثبت کام عاصم صاحب کر رہے ہیں۔ وہ نایاب ہے۔
محترم قریشی صاحب نے 1961سے 1964 تک جتنے بھی اہم شخصیات کے انٹرویو کیے ہیں وہ تمام اس نسخے میں شامل ہیں۔ تقریباً تیس کے لگ بھگ زمانہ ساز قائدین سے یہ گفتگو‘ اب تو ایک تدریسی سبق کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جسٹس ایس اے رحمن سے لے کر مولانا احتشام الحق تھانوی جیسے نابغہ روزگار اس فہرست میں شامل ہیں۔ طالب علم حقیقت میں قاصر ہے کہ اس کتاب میں موجود تمام اکابرین کو کالم کی زینت بن سکے۔ مگر پھر بھی معدودے چند چیدہ چیدہ اشخاص کے انٹرویو کا تھوڑا سا حصہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
مولوی تمیز الدین: اردو زبان میں ہمارا خیر مقدم کرتے ہوئے مولوی صاحب نے ہمیں اپنے قریب بٹھایا۔ میں نے بیٹھتے ہی سوال کیا:
’’آپ نے یہ اردو زبان کہاں سے سیکھی؟‘‘
’’اتنی اردو تو مشرقی پاکستان میں رہنے والا تقریباً ہر فرد جانتا ہے‘‘۔ انھوںنے سنجیدگی میں مسکراہٹ کی آمیزش کرتے ہوئے جواب دیا۔
میں نے سوچا کاش‘ مغربی پاکستان میں رہنے والے بھی بنگلہ زبان سیکھنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم ایک دوسرے کی زبان سمجھنے اور بولنے لگ جائیں‘ تو محبت و یگانگت کے رشتے اور بھی مضبوط ہو جائیں۔
میرے ایک ساتھی نے خاں صاحب سے قدرے بے تکلفی کے عالم میں سوال کیا:
’’ایسا معلوم ہوتا ہے مشرقی پاکستان میں ’’مولوی‘‘ کا لفظ عام طور پر مستعمل ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘
تمیز الدین خاں صاحب نے سادگی سے جواب دیتے ہوئے کہا:
’’ہمارے ہاں ’مولوی‘ کا لفظ احترام کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ ’مسٹر‘ کے ہم معنی ہے۔ یہ لفظ عام طور پر دین دار طبقے کے لیے احتراماً استعمال کیا جاتا ہے‘‘۔
چوہدری محمد علی: سابق وزیراعظم پاکستان اس انٹرویو میں رقم ہے:بے تکلفی کے ماحول میں باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ الفاظ کی قوسیں اور دائرے بنتے رہے‘ اور ان دائروں میں نئے دائرے ابھرتے اور گم ہوتے رہے۔ میں نے انٹرویو کی طرف آتے ہوئے سب سے پہلا سوال کیا:
’’اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتایے‘‘۔چوہدری صاحب مسکرا دیے اور پھر متانت کے لہجے میں بولے:
’’آپ یہ سوال بڑے آدمیوں سے پوچھا کیجیے۔ انھیں ہی اس سوال کا جواب دینا زیب دیتا ہے۔ میں اس بارے میں ایک دوسرا ہی نقطۂ نظر رکھتا ہوں۔ ہماری قوم کے مزاج میں شخصیت پرستی اس طرح داخل ہو گئی ہے کہ وہ زندگی کا ہر کام اس زاویے سے دیکھتی ہے اور اسی پیمانے سے ناپتی ہے۔ ہر عملی قدم اٹھاتے وقت ہماری نظریں کسی ایسی شخصیت کی متلاشی ہوتی ہیں جس میں معجزوں کی غیر معمولی قوت موجود ہو۔ مجھے ڈر ہے اگر اس رجحان کی روک تھام نہ کی گئی‘ تو یہ زہر ہمارے رگ و ریشے میں اس حد تک سرایت کر جائے گا کہ ہماری ذہنی اور عملی قوتیں ہمیشہ کے لیے مفلوج ہو جائیں گی‘‘۔
میں نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت میں کہا:
’’چوہدری صاحب ! میں آپ کی زندگی کے حالات اس لیے نہیں پوچھ رہا ہوں کہ میں ان سے شخصیت کے اصناف تراش لوں گا۔ میرے پیش نظر یہ مقصد ہے کہ شاید آپ کی زندگی میں کوئی ایسی بات ہو جسے پڑھ کر کسی کے نیم مردہ سینے میں جذبہ و عمل کی امنگیں کروٹیں لینے لگیں‘‘۔
چوہدری صاحب نے ایک شریف آدمی کی طرح ہتھیار ڈال دیے اور اپنی زندگی کے جستہ جستہ واقعات بیان کرنا شروع کر دیے:
’’میں 1905میں جالند ھر کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا۔ میرے والد بزرگوار چوہدری خیر الدین صاحب ایک معمولی سے زمیندار تھے۔ اگرچہ وہ خودپڑھے لکھے نہ تھے‘ لیکن سرسید کی تحریک کے زیر اثر اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا بے حد شوق تھا۔ وہ اس معاملے میں اتنے محتاط تھے کہ وہ سارا سارا دن ہمارے مدرسے ہی میں بیٹھے رہتے ۔ میں جس مدرسے میں پڑھتا‘ اس میں دینی ماحول کارفرما تھا۔ استاد مکرم عالم باعمل تھے۔ ان کی شفقت اور محنت نے مجھ میں علم کی پیاس پیدا کر دی۔ کتنے اچھے تھے وہ دن!‘‘
حکیم محمد سعید دہلوی: حکیم صاحب نے میرے شوق فراواں کے پیش نظر 4ستمبر 1963کا دن انٹرویو کے لیے خاص کر دیا۔ ہم تقریباً پانچ گھنٹے محو گفتگو رہے۔ دل کی باتیں عجیب ہوتی ہیں اور اس بات سے ڈھارس سی بندھی کہ ابھی دل کی بات کہنے والے موجود ہیں اور ابھی وہ جنوں زندہ ہے جو منفعت کا گریباں چاک کرتا رہتا ہے۔
جناب حافظ حکیم محمد سعید سے میں نے انٹرویو کا آغاز بالکل نئے انداز سے کیا۔ یہی وجہ تھی حکیم صاحب میرے پہلے سوال پہ چونک اٹھے:
’’ہمارے ملک میں مرد زیادہ بیمار ہوتے ہیں یا خواتین؟‘‘…حکیم صاحب نے سوال کی گہرائی پہ ایک منٹ غور کرنے کے بعد کہا:
’’خواتین‘‘
’’اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘ میںنے سادگی سے پوچھا۔
حکیم صاحب نے اعتماد کے لہجے میں جواب دیا:
’’ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیں‘ ان کی وجہ سے خواتین کو اپنی صحت برقرار رکھنے کے مواقع کم میسر ہیں۔ مثال کے طور پہ وہ بہت ہی کم صبح کے وقت ہوا خوری کے لیے نکل سکتی ہیں۔ ہمارے ملک کے بیشتر علاقوں میں مکانات حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں بنے ہوئے‘ اس لیے ان مکانوں میں تازہ اور صاف ہوا بہت ہی کم آتی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری خواتین صحت و صفائی کے اصولوں سے بڑی حد تک ناواقف ہیں اور اس وجہ سے خود بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں اور بچے بھی مختلف امراض کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں‘‘۔
’’لیکن حکیم صاحب!‘‘ میں نے تفصیل حاصل کرنے کے لیے پوچھا۔’’پچاس ساٹھ سال پہلے مکانات کی حالت آج سے بھی بدتر تھی اور خواتین اصول صحت سے بھی کچھ زیادہ واقف نہیں تھیں‘ مگر اس وقت عورتوں کی صحت آج کے مقابلے میں یقیناً بہتر تھی‘‘۔
’’یقیناً کا لفظ تو آپ یوں استعمال کر رہے ہی جیسے آپ اس زمانے میں حکیم رہ چکے ہوں۔‘‘ انھوںنے مسکراتے ہوئے چٹکی لی۔
بڑی لطیف اور پر معنی طنز تھی۔ سنبھلتے ہوئے کہا:
’’اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں اس زمانے میں صحتیں اچھی ہوتی تھیں‘‘۔
چیف جسٹس ‘ اے آر کارنیلیئس:انھوںنے سب سے پہلے اس بات کا شکریہ ادا کیا کہ اردو ڈائجسٹ باقاعدگی سے مل رہا ہے۔
’’کیا آپ اسے پورا پڑھتے ہیں؟‘‘ میںنے یونہی پوچھا۔
’’نہیں ‘ کبھی کبھار کوئی مضمون پڑھ لیتا ہو‘ دراصل اردو پڑھتے وقت میرے ذہن پہ بہت زیادہ بوجھ بڑتا ہے۔‘‘
’’لیکن آپ نے تو زندگی کا بیشتر حصہ برصغیر پاک و ہند میں گزارا ہے۔ آپ پھر بھی اردو رسم الخط کے عادی نہیں ہوئے؟‘‘
’’قریشی صاحب! بلاشبہ میری زندگی کا بڑا حصہ اسی برصغیر میں گزرا‘ لیکن تعلیم انگریزی اسکولوں اور کالجوں میں پائی۔ ساری ملازمت صرف انگریزی لکھتے بولتے گزری۔ جو کوئی ملنے آتا‘ انگریزی میں بات کرتا ۔ آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ میں ایسے حالات میں اردو زیادہ کیسے سیکھ سکتا تھا۔‘‘
’’ اب تو ہم بتدریج اردو کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘
’’قریشی صاحب!آپ کے نظام تعلیم میں بنیادی نقص یہ ہے کہ اب بھی اردو کو محض ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ کسی زبان میں چند جواب مضمون لکھوا دینے سے وہ زبان نہیں آتی۔ زبان اسی وقت آ سکتی ہے جب اس میں دوسرے مضامین بھی پڑھائے جائیں۔ جب تک اردو کو ذریعہ ٔ تعلیم نہیں بنایا جائے گا‘ موجودہ صورت حال میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی۔ میں سمجھتا ہوں علوم انسانیHumanities بڑی آسانی سے اردو میں پڑھائے جا سکتے ہیں‘‘۔
محترم الطاف حسن قریشی کی یہ کتاب سچ کے قافلے میں شامل‘ افراد کے لیے زاد راہ بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی! کس بلندی سے کیسی پستی ‘ حیرت ہوتی ہے۔مجھے تو اب کسی بات پر بھی حیرت نہیں ہوتی!