ڈائناسورز کے حوالے سے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ کافی سست جانور تھے۔
تاہم لائیو سائنس کی رپورٹ کے مطابق 1964ء کے موسم گرما میں جب جان آسٹروم کی سربراہی میں ماہرین حیاتیات کی ایک ٹیم نے ’ڈائنونیکس‘ نسل کے ایک ڈائناسور کی باقیات دریافت کیں جس نے لوگوں کے ڈائناسورز کے بارے میں عام خیال کو غلط ثابت کردیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’ڈائنونیکس‘ کی باقیات کے تجزیے سے یہ پتہ چلا کہ یہ جانور تیز اور چست تھا۔
رپورٹ کے مطابق 1964ء میں ہونے والی اس دریافت ایک بڑی سائنسی تبدیلی تھی جس نے ڈائناسورز کے بارے میں انسان کی سوچ کو نئے سرے سے متعین کیا۔
رپورٹ میں لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی ماہر حیاتیات سوسنہ میڈمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ’اورنیتھومیموسوریا‘ نسل کے ڈائناسورز ممکنہ طور پر سب سے تیز رفتار ڈائنوسار تھے۔
رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ کچھ ماہرین نے ڈائناسورز کی اس نسل کو ان کی میں موجود ایسی خوصیات کی وجہ سے جو ان کے تیز رفتار ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، انہیں شتر مرغ جیسا کہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عام طور پر اگر کسی جاندار کے لمبے، پتلے اعضاء ہیں اور پٹھے ان اعضاء کے اوپری حصے کے قریب واقع ہیں تو اس کی ٹانگ بنیادی طور پر پینڈولم کی طرح کام کرتی ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ نسبتاً تیزی سے حرکت کر سکتا ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا اہم ہے کہ 1970ء کی دہائی کے آغاز میں حیوانیات کے پروفیسر رابرٹ میک نیل الیگزینڈر نے جانوروں کی نقل و حرکت کا مطالعہ کرنے کےلیے فزکس اور انجینئرنگ کو لاگو کرکے بائیو مکینکس کے شعبے کا آغاز کیا۔
اُنہوں نے کرہ ارض پر موجود جانوروں کا مشاہدہ کرکے ان کی ٹانگوں اور قدموں کی لمبائی کے درمیان ایک تعلق دریافت کیا جس سے جانور کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
رابرٹ میک نیل الیگزینڈر نے بتایا کہ جانور ٹانگیں جتنی لمنی ہوتی ہیں وہ انتی ہی تیزی سے چلتا یا دوڑتا ہے۔