33 C
Lahore
Thursday, May 1, 2025
ہومغزہ لہو لہوقومی لباس - ایکسپریس اردو

قومی لباس – ایکسپریس اردو


نئی نسل کو شاید پتا نہ ہوکہ شلوار قمیص اور شیروانی کبھی ہمارا قومی لباس اور ہاکی ہمارا قومی کھیل ہوتا تھا۔ ہمارے بزرگوں نے قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو قومی لباس ہی میں دیکھا مگر وہ بدقسمتی سے علالت کا شکار رہ کر قوم سے جدا ہو گئے جن کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان اور سرکاری زعما بھی اپنے قائد کی تقلید میں قومی لباس ہی میں نظر آتے رہے اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان جب راولپنڈی میں شہید ہوئے وہ قومی لباس ہی میں تھے۔

قائد کی رحلت کے بعد آنے والے حکمرانوں کی حالت بھی نئے ملک کی حالت کی طرح پس ماندگی جیسی ہی تھی کیونکہ قیام پاکستان کے بعد ملک چلانا اور ملک کے سرکاری فرائض ادا کرنے والوں کو تنخواہوں کی ادائیگی بڑا مسئلہ بنا مگر ملک سے حقیقی محبت رکھنے والے رہنماؤں نے اپنے پاس سے ادائیگی کر کے وہ مسائل حل کرائے کیونکہ ملک کو چلانا تھا اور ملک نے چلنا شروع کیا جب کہ بھارت بھی ہمارے لیے مالی مسائل پیدا کرتا رہا مگر ملک کے خیر خواہ حکمرانوں اور سرکاری عہدیداروں نے آہستہ آہستہ ملک سنبھال لیا تھا۔ جب قومی خزانہ خالی، دفاتر ندارد تھے تو ملک سے محبت کرنے والوں نے درختوں تلے گرمی سردی میں فرائض ادا کیے اور کاغذات میں استعمال کے لیے آل پن کی جگہ جھاڑیوں کے کانٹوں سے بھی کام چلا لیا تھا۔

شہید ملت کے بعد بیورو کریسی کے اعلیٰ مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں اقتدار آیا تھا تو شلوار قمیص اور شیروانی پہننے والے وزرائے اعظم کی برطرفیوں کی بیوروکریٹس سازشیں شروع ہوئیں اور سوٹ پہننے والے حکمرانوں کا دور شروع ہوا کہ جنھوں نے سیاسی لوگوں کی جگہ اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کیے کہ جنرل ایوب کو ہی قوم کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے وزیر دفاع بنایا اور اسکندر مرزا نے ان کے ذریعے ملک میں پہلا مارشل لا لگوانے سے بھی گریز نہیں کیا۔

پھر ان اقتدار پرستوں کی جگہ 27 اکتوبرکو جنرل ایوب نے خود اقتدار سنبھالا اور پھر ان کی حکومت میں 27 اکتوبر 1958 کا اقدام یوم انقلاب کے طور پر منایا جاتا رہا، جو پہلے آمر کے اقتدار کے ساتھ ہی رخصت ہوا، جس کے بعد 1971 تک صدر جنرل یحییٰ کی حکومت قائم رہی مگر ملک کو دولخت ہونے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ ملک دولخت ہونے کے بعد پاکستان آدھے سے کم رہ گیا تھا مگر وزیر اعظم نے 1973 کا آئین تو بنوایا مگر عمل نہ ہوا، ملک میں نام نہاد جمہوریت بھی نہ رہی اور بھٹو صاحب نے بھی چین سے متاثر ہو کر چینی طرز کا لباس پہننا شروع کیا تو ان کی کابینہ نے بھی وہی لباس اپنا لیا جس کے بعد ایک نئے صدر جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھال لیا اور بھٹو دور کا لباس ختم ہوا جس کے بعد صدر نے بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے فوجی وردی اور شیروانی پہننا شروع کی اور سرکاری دفاتر کو اسلامی بنانے کے لیے وہاں نمازیں شروع کرائیں کیونکہ جنرل ایوب کے بھٹو صاحب تک حکمران بھی مذہبی تھے مگر کچھ مختلف نوعیت کے، جس کے بعد تمام سرکاری دفاتر میں نماز ادائیگی کی جگہیں مختص ہوئیں جن کی حکومت میں شیروانی پہننے والے وزیر اعظم جونیجو آئے جن کا ماضی مثالی اور ذاتی کردار بعد میں آنے والے حکمرانوں سے کہیں بہتر تھا۔

 1988 میں پہلی بار ایک خاتون بے نظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم بنیں ۔ اس دوران لاہور سے نواز شریف پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب اور بعد میں 1999 تک دو بار وزیر اعظم منتخب ہوئے جنھوں نے اپنے ذاتی لباسوں پر موٹرویز، سڑکوں اور ملکی ترقی کے لیے بیرونی قرضوں سے نجات کو ترجیح دی اور ملک کو ایٹمی قوت بھی بنایا۔ وزیر اعظم نواز شریف سوٹوں کے شوقین نہیں تھے اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتے تھے مگر اپنی مختلف سوچ رکھتے تھے جو جنرل پرویز مشرف کو پسند نہ تھی انھوں نے بارہ اکتوبر 1999 میں صدر کو گھر بھیج کر خود صدارت سنبھال لی اور وردی کی جہاں ضرورت نہ ہوتی وہ سوٹ پہنتے تھے۔

اس لیے بھارت کے دورے پر سوٹ میں گئے جہاں اپنے قومی لباس میں بھارتی حکمران انھیں نظر آئے کیونکہ بھارتی وزیر اعظم نہرو سے موجودہ وزیر اعظم مودی تک کوئی سوٹوں کا شوقین نہیں، اس لیے وہاں ہر وزیر اعظم بھارت کے مقررہ کردہ کرتا، پاجامہ، واسکٹ اور شیروانی کو اپنائے ہوئے ہے اور تمام سادگی پسند تھے اور اپنے انتہائی غریب عوام کو انھوں نے اپنے جیسا سمجھا اور کبھی سوٹ پہن کر عوام سے جدا نظر آنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ 1999 کے پاکستانی حکمران جنرل مشرف نے صدارتی حلف برداری ہی میں قومی لباس پہنا اور دنیا بھر کے دورے سوٹوں میں ہی کرتے رہے۔

2008 میں پی پی دور میں صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی بھی قیمتی سوٹ پہنتے تھے۔ 2018 میں ملک چیئرمین پی ٹی آئی وزیر اعظم تو وہ عوام کو کہیں سوٹ میں نظر نہیں آئے اور ہر جگہ بلکہ بیرونی دوروں میں بھی وہ قومی لباس میں نظر آئے جس کی تقلید ان کے وزرا بھی کر لیا کرتے تھے۔

2022 میں پنجاب کا خادم اعلیٰ کہلانے اور ملک میں سادہ نظر آنے والا وزیر اعظم بنا جو وفاق میں آ کر ہر جگہ سوٹ ہی میں نظر آیا جس کی تقلید ان کی کابینہ بھی کر رہی ہے جہاں شاذ و نادر ہی کسی نے سوٹ پہنا ہو۔ ملک میں ہر حکمران کی طرح اس کے وزیروں کا پہناوا بدلتا رہا اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک کے حکمران قیمتی لباسوں کا شوق پورا کرتے رہے جب کہ ملک کے عوام کو سادے کپڑے بھی میسر نہیں رہے، اس لیے منفرد نظر آنے کے لیے اب قومی لباس بھی تبدیل ہونا چاہیے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات