33 C
Lahore
Thursday, May 1, 2025
ہومغزہ لہو لہوزندہ لاش ہے مزدور۔۔۔۔ !

زندہ لاش ہے مزدور۔۔۔۔ !


 ہر سال یکم مئی کو جب ہم یوم مزدور مناتے ہیں تو میں اکثر یہ دیکھتا ہوں کہ جو کسان اور کاشت کار شدید گرمی کے اس موسم میں گندم کی کٹائی اور سنبھالنے میں دن رات ایک کئی ہوتے ہیں، بعد ازآں آٹے کے پانچ کلو تھیلے کے لیے طویل قطار میں سراپا انتظار ہوتے ہیں۔ یہ پانچ کلو کا تھیلا سستا بھی ہو تو اس کے لیے کافی مہنگا ثابت ہوتا ہے، وجہ یہ ہے کہ ایک مزدور اور غریب گھرانے کے پانچ سات سے آٹھ دس افراد ایک یا دو تھیلوں پر آخر کتنے دن بسر کریں گے۔۔۔ ؟

ستم بالائے ستم یہ کہ جس دن آٹا لینے کا معرکہ درپیش ہو اس دن دیہاڑی بھی تو نہیں لگتی۔ جب تین سے چار گھنٹے پانچ سو میٹر کی قطار میں تُوتکار، مارو مار اور ذلیل و خوار ہونے میں صرف ہو جائیں تو پھر ساری دیہاڑی یوں ہی ہی بے کار چلی جاتی ہے۔

ستّر فی صد زراعت سے متعلقہ پیداواری ملک میں ستّر فی صد محنت کشوں اور ملازمین کے پاس اپنا مکان ہوتا ہے نہ کھیت و کھلیان۔ ایک آٹے اور روٹی کا مسئلہ تو نہیں بل کہ پرائے مکان کے کرائے، اپنے خستہ مکان کی پختگی اور نہ اپنے نہ پرائے بہلاوے کے تین مرلہ پلاٹ کی قسط کا مسئلہ الگ سے ہے۔ روزہ ہے تو محنت کش روز کا روز پریشان، نہ سحری کے پراٹھوں اور ناشتے کے لیے سودا سلف ہے تو نہ افطار کے لیے خورونوش کا سامان، چاند رات ہے تو مزدور کی شب غم اور عید ہے تو کوئی مبارک باد اور نہ کسی کی دید۔

ایک ہزار سے پندرہ سو دو ہزار دیہاڑی کی اجرت میں روٹی سالن کا انتظام کیا جائے یا پھر بال بچوں کے جوتوں اور چیتھڑوں کا۔ دکھ دردوں سے چُور زور زور سے کھانسنے والے بوڑھے اور ناتواں باپ کی دوائی بھی تو ہفتہ عشرہ سے ختم ہے۔ ماں بے چاری پچھلے سال کم خوراکی اور جاڑے کی شدید ٹھنڈ کے سبب خاموشی سے بغیر کھانسنے کھنکھارنے کے چل بسی تھی، اس لیے کہ اسے اپنے بیٹے کی لاچاری و بے بسی کا بہ خوبی اندازہ تھا۔

زردی مائل دبلی پتلی گھر والی بھی اکثر شاکی رہتی ہے کہ جس دن سے اس کی ڈولی اس گھر اتری ہے ہمیشہ اس کے ارمانوں کا خون ہی ہُوا ہے۔ کبھی ڈھنگ کے کپڑے پہنے ہیں اور نہ کبھی کانوں اور بالوں میں پھول گجرے سجائے ہیں۔ نکاح نامے میں درج مبلغ پانچ سو روپے ماہانہ پاکستانی بھی تو اسے کبھی نصیب نہ ہوئے تھے۔ گھر میں موجود خاطر خواہ جہیز میسر نہ ہونے سے بیٹھی ہوئی کنواری نند اپنے رشتے کی تاخیر اور بالوں میں چاندی اتر آنے پر منحوس بھابھی کو صبح شام جلی کٹی سنانے سے باز نہیں آتی۔

سرکاری اسکول میں ٹیچرز کی کمی تھی دوسرا گھر سے دور بھی تھا لہٰذا ننھے اور گڑیا کو چند ماہ پہلے ایک گلی کے ایک بہلاوے کے پرائیویٹ اسکول میں داخل کروایا گیا جس کی دو ماہ کی فیس بقایا تھی۔ گیس کا بل تو پیڈ تھا مگر بجلی والوں نے شوکاز بھیجا ہُوا تھا۔ عید پر ادھر ادھر سے کچھ ادھار سدھار کرکے اہل خانہ کو کسی قدر راضی کر لیا تھا لیکن اس کے بعد اب دو مہینوں سے گھر میں گوشت پکنے کی نوبت نہ آئی تھی، کبھی دال دلیہ تو کبھی چٹنی اچار اور کبھی روکھی سوکھی۔ پیٹ کے دوزخ کو ٹھنڈا کرنا مقصود تھا جیسے تیسے کر لیا جاتا، اﷲ اﷲ خیر صلا!

کرایہ مکان، یوٹیلٹی بل، آٹا، چاول، دالیں، سبزیاں، کپڑا لتہ، بچوں کی فیسیں، ادویات اور دیگر کی ایک اخراجات کے علاوہ روز بہ روز بڑھتے ہوئے قرض کے چکانے کی فکر محنت کش کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹتی چاٹتی ایک دن قبر میں جا اُتارتی ہے اور یہ ہر دوسرے محنت کش اور اس کی خاندانی زندگی کی روح فرسا اور جاں گسل کتھا ہے۔

بنیادی مسئلہ خوشۃٔ گندم اور روٹی کے لقمہ کا ہے۔ یہی سب سے بڑا سچ اور مسئلہ ہے اور باقی سارے اس کے سامنے نان ایشوز ہیں یا اس ’’اُم المسائل‘‘ سے پھوٹنے والی شاخیں۔ یہ سرطان کا پھوڑا ہے اور پھر باقی سب اسی پھوڑے کی دکھتی رگیں۔

بندۂ مزدور کے اوقات کی تلخی کی کسی سرمایہ دار اور جاگیردار کو کیا خبر جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہُوا ہو اور پھر اپنے آس پاس کی ننگ اور بھوک کو ایک غریب مزدور اور کسان کی قسمت اور اپنی بے حساب دولت و زمین کو خدا کی عطا سمجھ بیٹھا ہو، ہاں البتہ کبھی کبھار انسانی ضمیر کی ہلکی سی دستک محسوس کرکے قرب و جوار کے چند غریبوں میں خیرات کے چند سکے بانٹنا نہیں بھولتا کیوں کہ مولوی صاحب نے غریب محنت کش پر اس جُود و سخا کے بدلے اس کے لیے خدا سے جنّت کی ضمانت جو لے رکھی ہے۔

کشتگان غرور کی باتیں صاحبان غرور کیا جانیں

اور غفورے پہ جو گزرتی ہے سیٹھ عبدالغفور کیا جانیں

یہ طبقاتی جنگ ہے، یہ ظالم و مظلوم کے مابین کش مکش ہے، یہ سرمایہ دار اور مزدور کا جھگڑا ہے، یہ ایک جاگیردار اور کاشت کار کا تنازعہ ہے مگر ایک استحصالی اقتصادی نظام کی شکل میں مزدوروں، مجبوروں اور معذوروں پر زبردستی ٹھونس دیا گیا ہے۔ اس ظلم و جبر کے نظام میں ایک فریق تعداد میں کم ترین مگر سیاسی و معاشی طاقت میں زبردست ہے جب کہ دوسرا تعداد کے لحاظ سے تو نوے فی صد 90% سہی مگر انقلابی و اجتماعی شعور سے عاری، نظریہ و نصب العین سے خالی، ڈسپلن اور تنظیمی قوت سے ماوراء و بے کار،، ظلم تو سہتا ہے مگر نہ اسے اس ستم ظریفیٔ حالات پر رونے کی فرصت ہے اور نہ اس کے اسباب پر سوچنے سمجھنے کا وقت۔

بس اتنا سارا قصور ہی تو ہے کہ جس کے سبب گدھے اور کولھو کے بیل کی طرح ایک عام آدمی اور مزدور محنت و مشقت میں شب و روز جتا ہُوا ہے مگر اس کی ساری زندگی میں کام کی صبح تو ضرور آتی ہے لیکن آرام کی شام کبھی نہیں آتی۔

سارے محنت کشوں کے ان گنت مسائل کا حل ایک خالص غیر متعصب سماجی انقلاب میں مضمر ہے جس کی راہ برصغیر پاک و ہند کے باسیوں کو امام شاہ ولی اﷲ اور امام عبیداﷲ سندھی نے دکھائی ہے۔ بہ قول ڈاکٹر اقبال

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو!

اور یہ کیسا ہے جی۔۔۔۔۔ !

اس شخص پر بھی شہر کے کتے جھپٹ پڑے

روٹی اُٹھا رہا تھا جو کچرے کے ڈھیر سے



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات