کینیڈین وفاقی پارلیمنٹ کے انتخابات کئی لحاظ سے دنیا کے لئے دلچسپ اور نتائج توجہ باعث اس لیے ہیں کہ کینیڈا کی موجودہ حکمران لبرل پارٹی عوام میں مقبولیت کھونے اور اپنے جسٹن ٹروڈو کی لیڈر شپ سے سبکدوشی اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کی صورتحال کے بعد ایک بار پھر عوامی کشش اور مقبولیت بڑھانے میں کیسے کامیاب ہوگئی اور اپوزیشن میں بیٹھی کنزرویٹو پارٹی انتخابی مہم کے دوران لبرل پارٹی کے مقابلے میں انتخابی پول اور سروے میں پیچھے کیوں رہی ہے۔
اس سال کے آغاز میں لبرل پارٹی جو اپنی عوامی مقبولیت کھوچکی تھی ان چار ماہ کے عرصے میں کن وجوہات کی بناء پر دوبارہ کینیڈین ووٹرز کی کشش کا باعث کیسے اور کیوں بن گئی اور کن عوامل کی بناء پر تمام تر سروے کنزرویٹو پارٹی کے مقابلے میں لبرل پارٹی کی زیادہ نشستوں پر کامیابی کی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔ اس کے لئے جو عوامل کینیڈین ووٹرز پر اثر انداز ہوئے وہ کچھ یوں نظر آتے ہیں
امریکی صدر ٹرمپ کے کینیڈا کے بارے میں بیانات اور کینیڈا پر ٹیرف عائد کرنا اور لبرل پارٹی کی قیادت میں ماہر مالیات اور بینکار مارک کرنی کےہاتھ آنا۔ صدرٹرمپ نے کینیڈا کو امریکا میں بطور 51ویں ریاست ضم کرنے کے بارے میں جو اپنی خواہش پر مبنی بیان دیا تھا اس نے کینیڈین عوام کی اکثریت کو اپنی کینیڈین شناخت پر اتنی تیزی سے ابھارا کہ کینیڈا کے اسٹورز میں امریکی مصنوعات الگ کرکے ان پر ٹیرف چارج کرنے کے واقعات ہونے لگے۔
امریکی شراب اور مصنوعات کو اٹھا دیا گیا۔ بعض صورتوں میںفروخت کرنے کی بجائے اٹھاکرفروخت سے انکار کیا جانے لگا۔
کینیڈین عوام نے سیاسی، معاشی اور سماجی میدان میں اپنے ہمسایہ ملک امریکا اور ٹرمپ کے بارے میں سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ اس پر امریکا کےلیے آمدورفت، ٹورازم بھی بہت متاثر ہوئی۔ سرحدی بارڈر پر امریکی اور کینیڈین امیگریشن حکام کے رویے تک بدل گئے۔
332ملین آبادی والے امریکا کے صدر ٹرمپ سے صرف 40 ملین والے وسیع و عریض اور امریکا سےزیادہ بڑے علاقے میں آباد کینیڈین آبادی خوف کا شکار ہوگئی نیز صدر ٹرمپ کی کینیڈین مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کرنے سے کینیڈا کی معیشت پر بھی خوف طاری ہوگیا۔
اس عرصے میں جسٹن ٹروڈو کی سبکدوشی او ر ماہر مالیات جو بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں وہ لبرل پارٹی کے قائد منتخب ہوگئے، ووٹرز میں اعتما د بڑھا اور مارک کارنی نے اپنے وعدوں اور بیانات سے خوف زدہ کینڈین عوام کو امیددلائی۔
کنزرویٹو پارٹی کے قائد پیئرپولیور جو طویل عرصے سے پارلیمنٹ کے رکن بھی چلے آرہے ہیں وہ خود کو متحرک اور معاشی صورتحال کے بارے میں خود کو موثر ثابت نہ کرسکےبلکہ کنزرویٹو ٹرمپ اور کنزرویٹو پیئر پولیور کی شخصیت اور منشور میں مماثلت کی افواہیں عوام ہونے لگیں۔ لہٰذا کنزرویٹو پارٹی کو وضاحتیں دینی پڑیںکہ وہ ٹرمپ پالیسیوں کی مخالفت ہے۔
تازہ پول بتا رہےہیں کہ لبرل پرٹی عوامی مقبولیت میں آگے ہے اور 170 سے بھی زائد نشستیں حاصل کرے گی۔ لہٰذا لبرل پارٹی کو امریکی صدر کے کینیڈا مخالف بیانات اور ٹیرف پالیسی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس کےعلاوہ منشیات کی بھرمار، بڑھتے ہوئے جرائم اور تشدد کے واقعات نے بھی قدرے پرسکون کینڈین ووٹرز میں خوف سے امن کی تلاش نے بھی اپنا کام دکھایا۔
ٹرمپ کی تازہ انتخابی پولنگ کے روز ٹویٹ لبرل پارٹی کے لیے مزید مفید
صدر ٹرمپ نے کینیڈا میں پولنگ کے روز ایک بار نئی ٹوئٹ جاری کرکے لبرل پارٹی کی ٹرمپ مخالف مہم کو مزید مضبوط کردیا ہے ، ان کی تازہ ٹویٹ میں کینیڈین عوام کو مخاطب کرتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کینیڈا کو ایک بار پھر امریکا کی 51 ویں ریاست کے طور پر ضم کیے جانے کا خیرمقدم کیا ہے۔ یعنی انہوں نے پھر وہی نعرہ بلند کیا ہے جس کے خوف نے کینیڈین عوام کی قومی شناخت اور آزادی کے لیے متحد کیا ہے۔
صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ کینیڈا امریکا سے تجارت اور امریکی سرپرستی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس خوف کے باعث کینیڈین عوام آج انتخابات میں کس ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اور کیا فیصلہ دیتے ہیں؟ البتہ لبرل پارٹی آف کینیڈاکی مقبولیت عروج پر ہے 7.3 ملین ووٹرز پہلے ہی ووٹ دے چکے ہیں 28اپریل 2025 کو ہونے والے کینیڈین عوام جو بھی فیصلہ کریں گے وہ تاریخی ہوگا اور لبرل پارٹی کے لیے بھی چیلنج ہوگا اور کنزرویٹو پارٹی کو بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ٹرمپ کی حکمت عملی اور پالیسیوں کی تعمیل کرنے والی کنزرویٹو فوٹو کاپی نہیں ہے۔