32 C
Lahore
Monday, April 28, 2025
ہومغزہ لہو لہوڈیجیٹل دنیا کا دل…زیرسمندر تاریں

ڈیجیٹل دنیا کا دل…زیرسمندر تاریں


ماہرین کا کہنا ہے، اقوام عالم کی معیشت رفتہ رفتہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی پر استوار ہو رہی ہے۔ گویا زرعی اور صنعتی انقلاب کے بعد دنیا ایک اور انقلابی دور میں داخل ہونے کو تیار ہے۔ مگر ماہرین یہ اشارہ بھی کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے جنم لینے والی اس عالمی معیشت کو ایک شے کافی نقصان پہنچا سکتی ہے اور وہ ہے … سمندر۔

دراصل آج کی ڈیجیٹل دنیا سمندروں کے نیچے بچھی تاروں کے ذریعے جڑی ہوئی ہے۔ ان تاروں کی لمبائی تقریباًساڑھے سات لاکھ میل ہے۔ کیبلز کا یہ نیٹ ورک تیس بار دنیا کا چکر لگا سکتا ہے۔ سطح سمندر سے نیچے پانچ میل تک گہرائی میں ڈالی گئی یہ تاریں روزمرہ کی زندگی اور عالمی کاروبار کو ممکن بناتی ہیں۔ حجم کے لحاظ سے بین الاقوامی تجارت کا’’ 80 فیصد ‘‘ حصہ سمندروں کی وساطت سے ہوتا ہے تویہی تاریں’’ 95 فیصد‘‘ بین الاقوامی ڈیٹا کی نقل وحمل کرتی ہیں جس میں فوری نیٹ و موبائل پیغامات اور روزانہ کا مالیاتی لین دین شامل ہے۔ اس لین دین کی مالیت کا تخمینہ دس ٹریلین ڈالر ہے۔ یہی کیبلز سبھی ممالک کے لیے قومی سلامتی کے راز بھی پوشیدہ رکھتی ہیں۔ سمندروں میں پیدا ہونے والی بجلی بھی جو عالمی توانائی کا بڑھتا ہوا حصہ ہے، اکثر زیر سمندر کیبلز کے ذریعے منتقل کی جاتی ہے۔

غرض جدید دنیا میں یہ دو عناصر … ڈیٹا اور بجلی اے آئی معیشت کی بنیادیں بن چکے۔ لیکن زیر سمندر کیبلز جن کے ذریعے یہ عناصر نشوونما پا رہے ہیں، انھیں کئی خطرات کا سامنا ہے اور پچھلے چند مہینوں میں متعدد واقعات نے ان خطروں کو اجاگر کیا ہے۔حالیہ نومبر میں ایک چینی جہاز نے مبینہ طور پر اپنے لنگر کو بحیرہ بالٹک کی تہہ کے ساتھ سو میل سے زیادہ فاصلے تک گھسیٹ لیا جس سے سویڈن اور لیتھونیا کے ساتھ ساتھ فن لینڈ اور جرمنی کے درمیان بچھی ڈیٹا کیبلز بھی ٹوٹ گئیں۔مسئلے کو مزید سنگینی سے بچانے کے لیے نیٹو کے جہازوں کو مداخلت کرنا پڑی۔ ایک ماہ بعد ایک روسی آئل ٹینکر نے جسے ماسکو کے “بھوت بیڑے” کا حصہ سمجھا جاتا ہے، فن لینڈ اور اسٹونیا کے درمیان بجلی لے جانے والی ایک کیبل کاٹ دی۔ جہاز کو فن لینڈ کے حکام نے پکڑ لیا۔

جرمن وزیر خارجہ نے ان واقعات کو یورپ کے لیے ’’ویک اپ کال‘‘ قرار دیا۔ نیٹو نے اس کے بعد بحیرہ بالٹک میں زیر سمندر بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے لیے ایک نیا مشن قائم کیا ہے۔ لیکن زیر سمندر بچھی تاروں کو تحفظ دینے کا چیلنج عالمی اور مستقل ہے اوراس طرح کے واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں۔ تائیوان کے شمال میں واقع ایک اور زیر سمندر کیبل کو جو 15 کیبلز کے ذریعے بیرونی ڈیجیٹل دنیا سے جڑی ہوئی ہے ، جنوری کے اوائل میں ممکنہ طور پر ایک چینی جہاز کے ذریعے نقصان پہنچا۔ کچھ عرصے بعد تائیوان کے زیر انتظام ماتسو جزائر کی دو کیبلز سمندری طوفان کے سبب منقطع ہوگئیں۔ جزائر کے چودہ ہزار باشندوں کو آن لائن رکھنے کے لیے بیک اپ مائکروویو مواصلات نظام چالو کیا گیا ۔

کچھ واقعات میں رکاوٹیں حادثاتی تھیں۔ بیک اپ سسٹم اکثر منفی اثرات محدود کر سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے ماتسو جزائر کے حالیہ واقعہ کے دوران کیا ۔ تاہم وجوہ کچھ بھی ہوں، ایک سال میں تقریباً 150 کیبل ٹوٹنے کے واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔ان کے تانے بانے انٹرنیٹ کی بندش، ممالک کی جاسوسی،کیبلوں کی مہنگی مرمت اور تاخیر سے جا ملتے ہیں۔2008 ء میں ایک خوفناک واقعے میں بحیرہ روم کی دو تاروں کے منقطع ہونے سے چودہ ممالک میں انٹرنیٹ تک رسائی بند ہو گئی، جس میں مالدیپ میں 100 فیصد کنکشن اور بھارت میں 82 فیصد رابطے شامل ہیں .متاثرہ ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا جہاں آئے دن زیر سمندر تاریں ٹوٹ جانے کی وجہ سے نیٹ کی بندش کا بحران رہتا ہے۔

یہ تاریں ٹوٹنے کے واقعات کو اس امر نے کہیں زیادہ پریشان کن بنا دیا ہے کہ ان کو ڈیٹا کی نقل و حمل میں وسیع پیمانے پر استمعال کیا جانے لگا ہے۔ لہذا ان سمندری کیبلز کی اہمیت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھ چکی۔ کہیں ایک کیبل ٹوٹ جائے تو اسے ٹھیک کرنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی۔مگر اب سبھی تاریں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔اس لیے کسی تار میں خرابی جنم لے تو عموماً کئی ممالک میں روزمرہ کے کام کاج متاثر ہوتے ہیں۔

زیر سمندر کیبلز روزمرہ زندگی کے لیے اور بھی ضروری ہو رہی ہیں کیونکہ مصنوعی ذہانت نے عالمی ڈیٹا کی ترسیل کے مطالبات کو بڑھا دیا ہے اور مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔ ہر سال اے آئی انفراسٹرکچر میں سیکڑوں بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنم لیتا یہ نیا ڈھانچہ زمین پر سب سے پتلے اور ممکنہ طور پر سب سے زیادہ کمزور جسمانی نیٹ ورکس کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔

انفرادی فائبر آپٹک دھاگے جو مل کر زیر سمندر کیبلز بناتے ہیں اور جن کے ذریعے دنیا کی معلومات کا بہاو جاری و ساری رہتا ہے، انسانی بال سے کچھ ہی موٹے ہیں۔ اور یہ نازک انفراسٹرکچر ڈیجیٹل دور سے پہلے کا ہے۔ پہلی زیر سمندر کیبلز نے 1850 ء کی دہائی میں ٹرانس اٹلانٹک ٹیلی گراف مواصلات کو ممکن بنایا۔اس کے بعد تکنیکی انقلابات کے ذریعے انہوں نے ٹیلی فون، جدید ٹیلی کمیونیکیشن آلات اور اب عالمی اے آئی انفراسٹرکچر کو جوڑ دیا ۔حالیہ دہائیوں میں قومی چیمپئنز کے مشابہ تین اہم کھلاڑیوں نے عالمی زیر سمندر کیبل مارکیٹ پر غلبہ حاصل کیا ہے: ریاستہائے متحدہ میں سب کام(SubCom)، جاپان میں این ای سی کارپوریشن، اور فرانس میں الکاٹیل سب میرین نیٹ ورکس۔ 2021 ء تک ان تینوں کمپنیوں کا زیر سمندر کیبلز کی عالمی مارکیٹ میں 87 فیصد حصہ تھا۔

تاہم حالیہ برسوں میں چین نے زیر سمندر کیبلز کے کاروبار میں دخل اندازی کی ہے۔ ہواوے میرین نیٹ ورکس( اب  HMN Tech ) کی بنیاد 2008 ء میں رکھی گئی اور یہ جلد ہی سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرتا سب سی کیبل فراہم کرنے والا اور صنعت میں چوتھا بڑا کھلاڑی بن گیا۔ 2018 ء سے 2022 ء تک کمپنی نے کل لمبائی کی بنیاد پر 18 فیصد نئی کیبلز فراہم کیں۔ کمپنی کی کامیابی نے بہت سے چینی ٹکنالوجی کمپنیوں کو آگے آنے پر اکسایا۔ چینی حکومت نے ان کو سبسڈیز دیں جس کی مدد سے کمپنیوں نے مارکیٹ میں حریفوں کی نسبت کم بولیاں دیں اور یوں کئی منصوبے حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔

زیر سنمدر تاروں کی صنعت و کاروبار میں تازہ ترین اور شاید سب سے زیادہ نتیجہ خیز مارکیٹ کی تبدیلی اب ہو رہی ہے اور وہ ہے مصنوعی ذہانت کا پھیلاؤ۔ پچھلی دہائی میں ڈیٹا ڈیجیٹل اکانومی اور ابھرتی ہوئی اے آئی انڈسٹری ،دونوں کی بنیاد بن گیا ہے ۔اسی لیے ہائپر اسکیلرز یا کمپیوٹنگ اور کلاؤڈ سروسز فراہم کرنے والے بڑے پلئیر جیسے گوگل، میٹا، مائیکروسافٹ اور ایمیزون اس کیبل مارکیٹ میں بڑے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ اس باعث زیادہ تر سمندری کیبلز اب ہائپر اسکیلر اور ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے کنسورشیم کے ذریعے بنائی اور بچھائی جا رہی ہیں۔ چونکہ ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنی کلاؤڈ اور اے آئی صلاحیتوں کو بڑھاتی اور عالمی سطح پر مزید ڈیٹا سینٹر بناتی ہیں لہذا وہ مزید سمندری کیبلز میں بھی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔مثال کے طور پر آج گوگل تقریباً 33 کیبلز کا حصے دار یا واحد مالک ہے۔

یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اب مستحکم بین الاقوامی ماحول میں بھی ان زیر سمندر کیبلز کو جغرافیائی سیاست سے الگ کرنا ناممکن ہوگا۔ تخریب کاری یا جاسوسی ہونے کے خطرات ہمیشہ رہتے ہیں لہذا ہر ملک میں یہ ضرورت رہتی ہے کہ وہ خود کو قومی اور بین الاقوامی صورت حال کے مطابق ڈھال لے۔ ہر بین الاقوامی کیبل پروجیکٹ کو اپنے راستے بنانے کی خاطر حکومتوں کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن عالمی معاملات میں زیادہ مسابقت حتیٰ کہ جنگیں ہونے کی وجہ سے زیر سمندر کیبل مارکیٹ زیادہ مقابلہ کرنے والی میدان بن گئی ہے۔

2023 ء میںامریکی کالم نگار الزبتھ براؤ نے دلیل دی تھی’’ انسان زیرِ سمندر لوہے سے بنے پردے کے دور میں داخل ہو رہا ہے۔” 2022 ء کے آخر میں چیٹ جی پی ٹی کا عوامی آغاز ہوا۔ اس کے بعد اے آئی سے چلنے والے ٹولز کا پھیلاؤ بیسویں صدی کی ٹکنالوجی دنیا میں جنم لینے والے تمام تنازعات کو ایک نئے دور میں لے آیا ہے۔ اے آئی کے عروج کی وجہ سے خاص طور پر زیرسمندر کیبلز ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہیں۔زیر سمندر کیبلز اپنے قبضے میں رکھنے کی جنگ میں ریاست کے پرانے ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں، جیسے ڈیٹرنس اور مراعات۔ حالیہ برسوں میں یہ مقابلہ ہر بڑے جیو پولیٹیکل تھیٹر میں رونما ہوا ہے ۔اس باعث عالمی صارفین اور دنیا کی کئی معروف کمپنیاں متاثر ہوئی ہیں۔

یورپ میں چینی پرچم والے ایک جہاز پر شبہ ہے کہ اس نے اکتوبر 2023 ء میں بالٹک سمندری کیبل کو نقصان پہنچایا تھا۔ یہ بالٹک سمندر کی حالیہ تخریب کاری سے ایک سال پہلے کا واقعہ ہے جس نے چند ہفتے قبل نیٹو کے ردعمل کو متحرک کیا تھا۔اوائل 2023ء میں ایک اور واقعے میں ایک چینی جہاز نے مبینہ طور پر تائیوان کو اس کے امٹسو جزائر سے جوڑنے والی کیبلز کو نقصان پہنچایا جس سے ہزارہا لوگ ہفتوں تک انٹرنیٹ کے بغیر رہ گئے۔

2024 ء میں انتباہی نشانیاں اور بھی نمایاں ہوئیں۔ مشرق وسطیٰ میں پچھلے سال کے شروع میں بحیرہ احمر میں تین کیبلز کو جن کی وساطت سے 90 فیصد یورپ و ایشیا مواصلات کا بہاؤ ہوتا ہے، اس وقت نقصان پہنچا جب حوثی میزائلوں سے ڈوبنے والے تجارتی جہاز کا لنگر سمندر کے فرش کے ساتھ گھسٹتا چلا گیا۔اسی طرح امریکی حکام نے گزشتہ موسم خزاں میں سی این این کو بتایا تھا کہ روس گہرے سمندر میں تعینات ہونے والا فوجی یونٹ تیار کر رہا ہے۔ اس کی مدد سے روس پھر زیرسمندر واقع کسی بھی کیبل کو نشانہ بنانے کے قابل ہو جائے گا اور اس کی یہ حرکت جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔

زیر سمندر کیبلز کے بارے میں ریاستہائے متحدہ کی تشویش بڑھ رہی ہے اور یہ دو طرفہ ہے۔ 2019 ء میں چین کے سول ملٹری ملاپ، جاسوسی اور سائبر تھریٹس کے بارے میں فکر مند پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے چینی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہواوے پر مختلف اقسام کی پابندیاں لگا دی تھیں۔ ٹرمپ دور کے محکمہ خارجہ کے کثیر الجہتی کلین نیٹ ورک اقدام میں “کلین کیبل” کا ستون شامل تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے، امریکہ کو عالمی انٹرنیٹ سے جوڑنے والی زیر سمندر کیبلز کو عوامی جمہوریہ چین کی طرف سے انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔

2024 ء میں بائیڈن انتظامیہ کے تحت امریکی محکمہ خارجہ نے اسی لیے “نیویارک جوائنٹ سٹیٹمنٹ آن دی سیکوریٹی اینڈ ریسیلینس آف دی سمندری کیبلز” جاری کیا جس کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 30ممالک نے توثیق کی ۔ ریاستہائے متحدہ کیبل کنیکٹیویٹی اور لچک کے لیے کواڈ پارٹنرشپ کا بھی رکن ہے، جس کا اعلان 2023 ء میں کیا گیا تھا۔چونکہ عالمی طاقتیں علاقائی اثر و رسوخ اور شراکت داری کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں، زیر سمندر کیبل کے بنیادی ڈھانچے کے معاہدے جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کے شعبوں کے لیے تجارتی مقابلے بن گئے ہیں۔ 2021 ء میںچینی کمپنی، HMN Tech کو بحرالکاہل میں تین جزیرے ملانے والے منصوبے سے باہر دھکیل دیا گیا، بشمول فیڈریٹڈ اسٹیٹس آف مائیکرونیشیا جس کا امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہے۔ اس منصوبے کو ختم کر دیا گیا اور بعد میں اس کی جگہ ایسٹ مائیکرونیشیا کیبل پراجیکٹ نے لے لی، جس کی مشترکہ مالی اعانت ریاستہائے متحدہ، آسٹریلیا اور جاپان نے کی۔

دریں اثنا ویتنام جس کے پاس پانچ پرانے زیر آب کیبلز ہیں ،اپنے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کر رہا ہے، جس سے بین الاقوامی تعلقات کے لیے نئی شروعات ہو رہی ہے۔ امریکی حکام اور ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں نے ویتنام کے حکام کے ساتھ متعدد میٹنگیں کی ہیں تاکہ انہیں جغرافیائی طور پر مسائل کا شکار چینی و روسی کمپنیوں کے استعمال سے روکا جا سکے۔ حکام نے مبینہ طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ بنیادی ڈھانچے کے فراہم کنندگان کا انتخاب ویتنام کو بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے کم و بیش پُرکشش بنا سکتا ہے۔

بہت سے ممالک کے لیے چینی کیبلز کے ذریعے رابطوں کو حساس اور انتباہی طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ریاستہائے متحدہ کی حکومت نے 2020ء میں ٹیم ٹیلی کام قائم کیا، ایک انٹرایجنسی گروپ جسے امریکہ میں ٹیلی کمیونیکیشن کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت اور امریکہ اور مین لینڈ چین یا ہانگ کانگ کے درمیان براہ راست کیبل رابطے روکنے کا کام سونپا گیا ہے۔ ٹیم ٹیلی کام نے سفارش کی کہ فیڈرل کمیونیکیشن کمیشن ہانگ کانگ کے چار زیرتکمیل زیر سمندر کیبل راستوں کو بلاک کر دے۔ ان کیبلز کے امریکی ہائپر اسکیلرپروجیکٹ مالکان نے ہانگ کانگ کے بجائے فلپائن اور تائیوان میں اپنے ٹرمینیشن پوائنٹس کو تبدیل کر دیا۔اس منصوبے پر دسیوں ملین ڈالرز کی لاگت آئی۔

زیر سمندر کیبلز پر قبضہ جمانے کا مقابلہ صرف حکومتوں کے درمیان ہی نہیں چل رہا ہے ،یہ اس بات کو بھی تبدیل کر رہا ہے کہ کمپنیاں کیسے چلائی جاتی ہیں اور دنیا کیسے چلتی ہے۔ امریکی دباؤ کی وجہ سے ہی ہواوے نے 2020 ء میں ہواوے میرین نیٹ ورکس سے علیحدگی اختیار کر لی جب کمپنی نے خود کو HMN Tech کا نیا نام دے ڈالا۔نام یا ڈھانچے میں تبدیلی سے زیادہ نمایاں طور پر امر یہ ہے کہ کئی چینی کمپنیاں امریکہ و یورپ میں جاری منصوبوں سے خارج کر دی گئی ہیں۔ SeaMeWe-6 کیبل، جو اب زیر تعمیر ہے، جنوب مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور مغربی یورپ کے ایک درجن سے زائد ممالک کو جوڑ دے گی۔ 2020 ء میں HMN Tech ایک بولی کے ساتھ یہ معاہدہ جیتنے کے لیے تیار تھی جو حریفوں کے مقابلے میں تقریباً ایک تہائی کم تھی۔ لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے پانچ غیر ملکی ٹیلی کام کمپنیوں کو مجموعی طور پر 3.8 ملین ڈالر کے ٹریننگ گرانٹس کی پیشکش کی، اگر وہ اس کے بجائے امریکی کمپنی ،سب کام کو منتخب کریں۔ جبکہ کنسورشیم کے اراکین کو HMN Tech کے خلاف ممکنہ پابندیوں کی وارننگ بھی دی گئی۔ چناں چہ سب کام نے بالآخر SeaMeWe-6 معاہدہ جیت لیا اور چینی کمپنیوں نے کنسورشیم چھوڑ دیا۔ان کی جگہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے کاروباری اداروں نے لے لی۔

اس طرح کی تجارتی اور سفارتی چالوں کے نتائج واضح ہیں: چینی کمپنیاں بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی جگہ کھو رہی ہیں۔ ہانگ کانگ میں اب صرف تین نئی کیبلز کے منصوبے چل رہے ہیں جو اس سال ختم ہو جائیں گے۔اس کے مقابلے میں سنگاپورکے پاس ، جو تاریخی طور پر ہانگ کانگ کے مقابلے میں ایک چھوٹی مارکیٹ والا حریف ہے، ذیلی سمندری کیبلز کے26منصوبوں پر کام کر رہا ہے جو تین لینڈنگ سائٹس پر اتر رہی ہیں۔ 2033 ء تک ان سائٹس کی تعداد کو دوگنا کرنے کا منصوبہ ہے۔ سمندر کے نیچے اور اس کے اوپر بھی دنیا مزید تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔

زیر سمندر کنکشن کا جغرافیہ جغرافیائی سیاسی تقسیم کا آئینہ دار ہے۔ مثال کے طور پر متنازع جنوبی بحیرہ چین میں نئی تاریں بچھانے کے منصوبے شروع کرنے کے بجائے مغربی کنسورشیم اب اکثر کم براہ راست راستوں کا پیچھا کرتے ہیں، جیسے بحیرہ جاوا کے ذریعے۔ وہ زیادہ قیمت پر زیادہ فاصلہ طے کرتے ہیںلیکن کم جغرافیائی سیاسی خطرے کے ساتھ۔ گوام، جاپان، فلپائن اور سنگاپور نئے راستوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، خاص طور پر جب وہ ڈیٹا سینٹر کے بڑے مرکز بن جاتے ہیں۔ دریں اثنا چین نے عالمی جنوب اور دنیا کے ان حصوں کے لیے جو اس کے ڈیجیٹل سلک روڈ پہل سے جڑے ہں اور جہاں مغربی مفادات کم اثر انداز ہوتے ہیں، نئے زیر سمندر کیبل پراجیکٹس شروع کرنے کی خاطر اپنا دباؤ بڑھا دیا ہے۔

ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے ذریعے گروہوں میں بٹی دنیا زیادہ لچکدار ہو سکتی ہے، لیکن سلامتی تجارت کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے۔زیر سمندر تار بچھانے پر فی کلومیٹر چالیس سے ساٹھ ہزار ڈالر خرچ آتا ہے جو کافی مہنگا عمل ہے۔ اور ایک بار جب تاریں سیٹ اور ڈیٹا سینٹرز جیسی سہولیات سے منسلک ہو جاتی ہیں، تو انہیں آسانی سے توڑ کر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ منصوبے میں تاخیر، منسوخی یا دوبارہ روٹ شدہ ذیلی کیبلز غیر یقینی صورتحال کو بڑھاتی اور مارکیٹ کی حرکیات پیچیدہ بناتی ہیں۔ کم موثر راستوں پر بچھائی گئی لمبی کیبلز کا مطلب بھی زیادہ تاخیر ہے، کیونکہ ڈیٹا کو زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔گو آرام دہ اور پُرسکون ماحول میں بیٹھے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے لوگ سست رفتار کو نہیں پہچان سکتے ، بہت سی صنعتوں میں فوری ڈیٹا کی منتقلی کا وقت بہت اہم ہے ۔ یہاں تک کہ جب مالی لین دین کو انجام دینے کی بات آتی ہے تو ملی سیکنڈ بھی اہمیت رکھتا ہے، فوجی ایپلی کیشنز کی تو بات ہی الگ ہے۔

زیر سمندر کیبلز پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے مقابلے میں شامل ممالک اپنے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت بڑھانے کے لیے کام کر سکتے ہیں، لیکن یہ واضح نہیں کہ فتح کیسی نظر آئے گی۔ جب مصنوعی ذہانت کی بات ہو تو ریاستہائے متحدہ کا مقصد اُسے برقرار رکھنا اور تیار کرنا ہے جسے قومی سلامتی کے سابق مشیر جیک سلیوان نے “ممکن حد تک بڑی برتری” کے طور پر بیان کیا ہے۔خاص طور پر چپ ایکسپورٹ کنٹرول اور حریف کی پیشرفت روکنے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ جدید منطق اور میموری چپس کے شعبوں میں اپنی برتری قائم رکھنا ضروری ہے۔

زیرسمندر کیبلز کے شعبے میں ہر کمپنی کی طرف سے تیار کردہ مصنوعات میں فرق ملتا ہے۔اس کے باوجود چینی کمپنیوں اور چین کی حکومت نے بڑے پیمانے پر زیر سمندر کیبلز میں خود انحصاری حاصل کر لی ہے اور جن کی صلاحیتیں معیار میں مغربی کمپنیوں کے ہم پلّہ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف برآمدی کنٹرول تنہا مغربی اجارہ داری کو یقینی نہیں بنا سکتے۔

امریکہ نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے چین کی بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کو کم کر دیا ہے مگر چینی کمپنیوں کے پاس ٹکنالوجی اور صلاحیتیں موجود ہیں کہ وہ اپنے گھر زیر سمندر کیبلز کے تمام اجزا تیار کر سکیں۔ چین کی کیبل انڈسٹری کو حکومت کی جانب سے بھاری سبسڈی ملنے کی بھی ایک تاریخ ہے۔یہ رجحان شمسی توانائی سے لے کر الیکٹرک گاڑیوں تک کئی دوسری صنعتوں میں لے ملتا ہے ۔ یہ انھیں غیر متناسب فوائد دیتا ہے جو منڈیوں کو بگاڑ سکتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر دباؤ کے باوجود HMN Tech کمپنی مسابقتی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اپنی مصنوعات کم قیمتوں میں پیش کر رہا ہے ۔نیز پانچ سو ملین ڈالر مالیت والا اپنا یورپ-مڈل ایسٹ-ایشیا کیبل منصوبہ بنا رہا ہے جو مغرب کے SeaMeWe-6 کیبل منصوبے کا حریف ہے۔

چین زیرسمندر بچھی تاروں کی دیکھ بھال اور مرمت کے شعبوں میں بھی مضبوط قدم رکھتا ہے جو بنیادی کیبل ڈھانچے کے لائف سائیکل کے اہم اور پیچیدہ اجزا ہیں۔ کیبل کی دیکھ بھال کی صنعت سمندر کو زونز میں تقسیم کرتی ہے جس میں ہر کھلاڑی کو کام کرنے کے لیے مخصوص مرمت والے جہاز نامزد کیے گئے ہیں۔ نتیجے کے طور پر امریکی ملکیتی کیبلز بعض جگہوں پر چینی مرمت کے جہازوں پر انحصار کرتی ہیں۔مگر چین مخالف امریکیوں کا کہنا ہے، یہ حالت انہیں چینی اسپائی ویئر کے خطرے سے دوچار کر سکتی ہیں، چاہے ان کی ملکیت کچھ بھی ہو۔

وال سٹریٹ جرنل کی طرف سے جائزہ لیے گئے شپنگ ڈیٹا کے مطابق ایک متعلقہ واقعے میں ایک چینی مرمت کرنے والی کمپنی جو امریکی ہائپر سکیلرز کی ملکیت میں کیبلز پر کام کرتی تھی، تائیوان اور انڈونیشیا کے قریب اپنے جہازوں کے مقامات کو چھپاتی دکھائی دی۔ اس غیر معمولی اور غیر وضاحتی رویّے نے خطرے کی یہ گھنٹی بجا دی کہ جہاز کیا کر رہا تھا اور کہاں کر رہا تھا۔ تنازعات والے علاقوں میں مرمت اور بھی زیادہ پیچیدہ اور مہنگی ہے، جیسا کہ پچھلے سال بحیرہ احمر میں جھڑپوں کے دوران دیکھا گیا۔یہاں تک کہ تنازع کی غیر موجودگی میں بھی اہم سمندری راستوں میں مقابلے کے دعوی زیر سمندر کیبل مارکیٹ کو بگاڑ سکتے ہیں۔ اس دوران کہ امریکہ نے چینی کمپنیوں کو بعض منصوبوں سے باہر کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے، چین بھی مزید آگے بڑھ گیا ہے۔وہ امریکی مداخلت کے باعث کئی علاقوں بشمول جنوبی بحیرہ چین میں کیبلز کے اجازت نامے دینے میں تاخیر یا ان کو بلاک کر رہا ہے۔

زیر سمندر کیبل نیٹ ورکس کو لاحق بڑھتے ہوئے خطرات سطح سے اوپر کے بحرانوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی جہاز رانی پر ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے حملوں سے بحیرہ احمر میں زیر سمندر کیبلز کو نقصان پہنچا ہے۔ تائیوان کے زیر سمندر رابطے جزیرے کے خلاف چین کی مہموں میں ممکنہ اہداف ہیں۔ اور یہاں تک کہ اگر مغربی یورپ ابھی تک ماسکو کے ساتھ براہ راست فوجی تنازع میں ملوث نہیں ہے، اس کے بنیادی ڈھانچے کو توسیع پسند روس سے خطرہ ہے اور نیٹو اس حقیقی خطرے کا جواب دے رہا ہے۔

کچھ بڑا واقعہ ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے زیر سمندر کیبلز کی حفاظت اور برے اداکاروں کو روکنے کے لیے فعال حکمت عملی موجود ہے۔ سمندروں کی نگرانی اور انتظام میں بہتر تعاون مدد کر سکتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات میں گشت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر مشکوک بحری جہازوں میں سوار ہونا اور ان کا معائنہ کرنا شامل ہو سکتا ہے، خاص طور پر کیبلز کی نمایاں ارتکاز والے علاقوں میں۔ یہ نقطہ نظر حملوں کو روک اور ان کے ہونے پر انتساب کو بہتر بنا سکتا ہے۔ دریں اثنامصنوعی ذہانت کا استعمال اب خود ہی ذیلی کیبلز کی سب سے بڑی کمزوریوں کو حل کر سکتا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا ہے کہ اے آئی سے چلنے والے زیر آب نظام جیسے ڈرون پہلے ہی سمندر کی تہہ میں خطرات کی شناخت اور ان سے نمٹنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

جہاں اس طرح کے فارورڈ ڈیفنسز کامیاب نہیں ہوتے اور کیبل کی مرمت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، خاص طور پر متنازع پانیوں میں، تو شراکت دار قلیل مدت میں مرمت کے جہازوں کی حفاظت کر سکتے ہیں۔وہ اور خطرات پیدا ہوتے ہی انھیں روک کر ختم کر سکتے ہیں۔امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ وہ سمندروں میں زیرزمین تاریں بچھانے سے لے کر ان کی دیکھ بھال تک میں چین پر انحصار کم سے کم کر دے۔ اسی لیے وہ تاریں بچھانے والے جہازوں کی تعداد مسلسل بڑھا رہا ہے۔اور ایسے جہاز بھی بنا رہا ہے جو تاروں کی مرمت کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔یوں وہ زیرسمندر کیبلوں کا نظام کلی طور پہ اپنی دسترس میں چاہتا ہے۔

دریں اثنا ہموار اجازت دینے کے عمل سے تاروں کی مرمت اور تعمیر کو تیز کیا جا سکتا ہے جس میں کبھی بارہ ماہ سے کم وقت لگتا تھا، لیکن اب یہ ایک پیچیدہ ریگولیٹری ماحول کی وجہ سے تین سال سے زیادہ عرصے تک چل سکتا ہے ۔وجہ یہ ہے کہ زیرسمندر تاریں بچھانے کے لیے مختلف حکومتیں منظوری دیتی ہیں اور ان کی بیوروکریسی قوانین بناتے اور ان کی منظوری دیتے ہوئے کافی وقت لیتی ہے۔اور حکومتوں کے مابین ٹکراؤ موجود ہو تو اکثر منصوبہ کئی سال بعد مکمل ہوتا ہے۔

ایک بہتر ریگولیٹری ماحول بھی جدت کو تیز کر سکتا ہے، جس سے زیادہ لچکدار اور متنوع کیبل نیٹ ورکس بنانے میں مدد ملے گی۔ اگلے چند برسوں میں زیر سمندر کیبلز کے متبادل جیسے سیٹلائٹس اور دیگر خلائی بنیادوں پر مبنی نظام جیسے کہ کم زمین کے مدار میں سیٹلائٹس نے خوش آئند روپ دکھایا ہے۔ فی الحال ان کی صلاحیت زیر سمندر کیبل نیٹ ورکس سے کم ہے اور وہ اب بھی قدرتی اور انسانی ساختہ آفات کا شکار ہیں۔ پھر بھی نجی شعبے کی بڑھتی خلائی صنعت کے ذریعے تقویت پانے والے ایسے اختیارات بعض شعبوں میں ڈیٹا ٹرانسمیشن کے نئے اختیارات اور بیک اپ فراہم کر سکتے ہیں۔

درحقیقت جولائی 2024 ء میں نیٹو کی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبے کا مقصد زمین پر انفراسٹرکچر میں خلل پڑنے کی صورت میں مزید انٹرنیٹ ٹریفک کو خلا میں منتقل کرنا ہے۔ اور جب جنوری میں تائیوان کو ماتسو جزائر سے ملانے والی دو ذیلی سمندری کیبلز منقطع ہوگئیں تو بیک اپ مائکروویو سسٹم تقریباً فوری طور پر چالو ہوگئے۔ پھر بھی اس طرح کے اقدامات فی الحال صرف محدود بینڈوتھ فراہم کرتے ہیں۔ یہ کسی ملک کے بہت کم آبادی والے دور دراز جزیروں کے لیے تو مناسب ہو سکتا ہے لیکن شہری علاقوں میں یا جب اعلیٰ حجم اور کم تاخیر والے ڈیٹا سینٹرز کی بات آتی ہے تو یہ زیادہ کام نہیں دے گا۔دنیا کے سمندروں میں بچھے کیبل نیٹ ورک کے لیے کوئی جامع بیک اپ موجود نہیں جو تشویس ناک بات ہے۔کیونکہ اب سمندروں کی تہہ بھی سطح کی طرح پُرامن نہیں رہی۔پچھلے چند برسوں سے یہ سبق ملا ہے کہ جب ڈیٹرنس … چاہے انکار، سزا، یا الجھاؤ میں ہو، ایک علاقے میں ناکام ہو جائے تو یہ جلد ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ یہ نکتہ سمندری لہروں کے نیچے بھی سچ ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات