مقبوضہ کشمیر میں پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے جنگی جنون میں کمی نہیں آئی ہے اور بھارتی حکام اور بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف مسلسل زہر افشانی میں مصروف ہے حالانکہ پہلگام حملے میں بھارتی سیکیورٹی حکام کی ناکامی واضح ہو چکی ہے اور بھارت میں بھی اس پر لے دے جاری ہے جب کہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے بھی سیکیورٹی لیپس کو تسلیم کر لیا ہے لیکن ان تمام تر حقائق کو جاننے کے باوجود بی جے پی اور بھارتی میڈیا مسلسل پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہے۔
ادھر پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ہماری لائف لائن ہے، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ موجودہ صورت حال کے حوالے سے پاکستان اپنے سفارتی دوستوں سے مسلسل رابطے میں ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پانی پاکستان کے لیے زندگی و موت کا مسئلہ ہے، اگر بھارت نے پانی روکنے یا رخ موڑنے کی کوشش کی تو یہ جنگی اقدام تصور ہو گا۔ بھارت کے غیر ذمے دارانہ رویے کے پیش نظر پاکستان تمام دو طرفہ معاہدے، بشمول شملہ معاہدہ، معطل کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ترجمان دفترخارجہ نے کہا ہم سندھ طاس معاہدے پر اپنی پالیسی کا اعادہ کرتے ہیں، پاکستان بھارت کے سندھ طاس معاہدے پر سفارتی نوٹ کو مسترد کرتا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنا بھارت کے لیے اتنا آسان نہیں ہے۔ بھارتی حکومت جو مرضی اعلان کرتی رہے لیکن باقاعدہ طور پر معاہدے کو منسوخ کرنے کی اس میں ہمت نہیں ہو گی کیونکہ یہ معاہدہ ورلڈ بینک کے توسط سے ہوا ہے اور اسے یکطرفہ طو رپر کوئی فریق مسترد نہیں کر سکتا۔ اس قسم کا اقدام اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔
جہاں تک پہلگام حملے کا تعلق ہے تو پاکستان کا اس پر موقف بالکل واضح ہے اور پاکستان نے اس پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے حالانکہ جعفرآباد ٹرین سانحے پر بھارت نے افسوس تک کا اظہار نہیں کیا تھا۔ پہلگام واقعے کو لے کر بھارتی میڈیا کسی بھی قابل اعتماد شواہد کے بغیر پاکستان پر الزام تراشی کر رہا ہے، بھارتی میڈیا میں موجود بی جے پی کے حامی اینکرز اور تجزیہ نگار مسلسل پاکستان کے خلاف لایعنی اور بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ حالانکہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 8 لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے، سویلین سیکیورٹی ایجنسیوں کے لوگ الگ ہیں، اس کے باوجود اگر یہ واقعہ ہوا ہے تو اس کا سارا قصور بھارتی سیکیورٹی ایجنسیوں پر عائد ہوتا ہے۔
دہشت گردی صرف جنوبی ایشیا کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ امریکا سے لے کر یورپ اور لاطینی امریکا سے لے کر افریقی ممالک اور مشرق بعید سے مشرق وسطیٰ تک کے ممالک میں کہیں نہ کہیں دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی ملک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ فوری طور پر کسی دوسرے ملک پر دہشت گردی کے واقعات کا الزام عائد کر دے۔
بھارت نے جنوبی ایشیا میں جو ماحول بنایا اس میں باہمی تجارت مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے جو عالمی معاہدوں پر اپنی ذمے داریاں ادا کر رہا ہے۔ اگلے روز پاکستان کے سینیٹ نے پہلگام معاملے پر بھارتی الزامات و اقدامات کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ اس قرارداد کی خاص بات یہ تھی کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو دوسرے ممالک بشمول پاکستان میں دہشت گردی کرانے پر قابل احتساب ٹھہرایا جائے۔ پاکستان ہر قسم کی بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کشمیر کی حمایت جاری رکھے گا۔ قرارداد میں پاکستان کو پہلگام واقعے سے جوڑنے کے الزامات مسترد کر دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت بدنیتی پر مبنی مہم چلا رہی ہے۔ بھارت کا انڈس واٹر ٹریٹی معطل کرنا جنگی اقدام کے مترادف ہے۔ پاکستانی قوم امن کی حامی ہے اور اپنی خودمختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے مل بیٹھ کر بھارت کو پیغام دیا ہے کہ پاکستانی قوم متحد ہے۔
ادھر پہلگام واقعے کی ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہے، اس ایف آئی آر نے بی جے پی حکومت کا پہلگام فالس فلیگ کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ پہلگام جائے وقوعہ پولیس اسٹیشن سے 6 کلو میٹر دوری پر ہے ، حیران کن طور پر صرف دس منٹ میں ایف آئی آر درج ہوجاتی ہے، جو پہلے سے طے منصوبے کا اشارہ دیتی ہے، ایف آئی آر میں طے شدہ منصوبے کے تحت نامعلوم افراد سرحد پار سے آنے والے دہشت گرد نامزد بھی قرار دے دیے جاتے ہیں، ایف آئی آر کے مطابق مبینہ دہشت گردوں کی طرف سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی، بھارتی حکومت اور میڈیا واقعہ کو ٹارگیٹڈ کلنگ کا جھوٹا راگ الاپتے رہے،مودی حکومت کے وزیردفاع راج ناتھ سنگھ پہلگام واقعے پر آل پارٹیز کانفرنس میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے پہلگام واقعہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، اپوزیشن رہنماؤں نے کہا اگر مودی جی شہریوں کو تحفظ نہیں دے سکتے تو استعفیٰ دیکر گھر بیٹھ جائیں۔
اس صورت حال سے واضح ہو جاتا ہے کہ بھارتی حکومت کے وزراء کس قدر بوکھلائے ہوئے ہیں۔ انھیں اس واقعے کے بارے میں پوری طرح علم بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ سوالات کے جواب نہیں دے پا رہے ہیں۔ بس وہ پاکستان پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ ادھر مقبوضہ کشمیر سے آنے والی اطلاعات کے مطابق بھارت نے گزشتہ شب بھی لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
پہلگام واقعہ کے ذمے داروں کی تلاش کے لیے جو نام نہاد سرچ آپریشن جاری رکھا ہوا ہے، اس کے تحت بے گناہ کشمیریوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ یوں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم مزید بڑھ گئے ہیں اور کئی بے گناہوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فضائی حدود کی بندش کے اثرات بھارتی ہوابازی پرپڑنا شروع ہوگئے، بھارت سے یورپ اورامریکا جانے والی پروازوں کے دورانیے میں گھنٹوں اضافے سے زائد ایندھن کے سبب ٹکٹس مہنگے ہوگئے، امریکا، لندن، یورپی ملکوں میں پہنچنے کے لیے بھارتی کپتانوں کوطویل روٹ پر فلائنگ کرنا پڑرہی ہے،نئی دلی سے امریکا کے روٹ کے لیے بھارتی ایئرلائنزلاہورسے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوتی تھی،اب 4 گھنٹے لمبا روٹ لیکربحیرہ عرب سے جانا پڑ رہا ہے،بھارتی شہر دہلی سے باکواورتبلیسی جانے والی پروازوں کے دورانیے میں 90منٹ کا اضافہ ہوگیا،سن 2019 میں بالاکوٹ حملے کے بعد فضائی حدود کی بندش کے سبب بھارتی ایئرلائنزکو700ارب روپے کا نقصان ہواتھا۔
اس صورت حال سے بھارتی ایئر لائنز انڈسٹری بھی مشکلات کا شکار ہو گئی ہے۔ اس دوران ایک اور ڈویلپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے امیدظاہرکر دی ہے کہ پاکستان اوربھارت بڑھتی ہوئی کشیدگی کا کوئی حل نکال لیں گے، ایئربیس پرصحافیوں کے سوالوں کاجواب دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ملکوں میں یہ کشیدگی رہتی ہے لیکن مجھے یقین ہے کسی نہ کسی طریقے سے اس کا حل نکل آئے گا۔
اس کے ساتھ ہی ترجمان امریکی دفترخارجہ ٹیمی بروس نے بھی جنوبی ایشیامیں بحران پرکہاکہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے جس کوامریکا بڑے قریب سے مانیٹرکررہاہے ،انھوںنے کہا فی الحال امریکا کی جموں و کشمیرکے سٹیس سے متعلق کوئی واضح پوزیشن نہیں لے رہے ۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان اور بھارت سے اپیل کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جموں وکشمیر میں مسلح حملے کے بعد ہونے والی صورتحال اور پیش رفت مزید خراب نہ ہو۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں بھی ہیں۔ بدقسمتی سے بھارت میں برسراقتدار بی جے پی کی حکومت نے حالات کو خراب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ماضی میں بھی ایک سے زائد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارت پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بھارت کا ایک پرانا منصوبہ ہے۔ اسی پر عمل پیرا ہونے کے لیے بھارت نے پہلگام واقعے کے بعد سندھ طاس معاہد یسے یکطرفہ طور پر الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے لیکن کرائن یہی نظر آ رہے ہیں کہ امریکا اور اقوام متحدہ بھارت کے حق میں نہیں ہیں۔ بھارت کے لیے عالمی سطح پر مشکلات پیدا ہو رہی ہیں جب کہ اندرونی سطح پر بھی غیرجانبدار حلقے بھارت کی بی جے پی حکومت پر زبردست تنقید کر رہے ہیں کہ وہ بھارت میں جنگی جنون کو ہوا دے کر اپنی حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔