یہ خبر تو پہلے سے آ رہی تھی کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد نے اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے کئی خفیہ ٹارچر سیلز بنا رکھے ہیں مگر ان میں رکھے گئے لوگوں کو کیسی سزائیں دی جا رہی ہیں اس پر پردہ پڑا ہوا تھا مگر اب حالات واضح ہو رہے ہیں۔
بی بی سی کے ایک نمایندے نے بھی ایسے ہی ایک ٹارچر سیل میں رکھے گئے لوگوں سے انٹرویوزکیے ہیں جس کی رپورٹ ہندی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ یہ رپورٹ کافی مفصل ہے جس میں کئی متاثرین کے انٹرویوز شامل ہیں۔ بنگلہ دیش کی نئی عبوری حکومت نے بھی ان خفیہ ٹارچر سیلوں کو تلاش کرنے اور وہاں دی جانے والی سزاؤں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کئی ٹیمیں مقررکی تھیں، وہ بھی ان ٹارچر سیلوں تک پہنچ گئیں۔
انھوں نے ٹارچر سیلوں کی تفصیلی رپورٹ حکومت کو پیش کی ہے۔ بی بی سی ہندی کے ایک نمایندے نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ان ٹارچر سیلوں کا کھوج لگانے والی ان کی ٹیم ایک ٹارچر سیل تک پہنچ تو گئی مگر وہاں کچھ نظر نہیں آیا، تاہم جب سامنے کھڑی ایک عارضی دیوار کو دھکا دیا گیا تو وہ گرگئی اور پھر سامنے جو منظر تھا وہ انتہائی چونکا دینے والا تھا۔
دیوار کے پیچھے لائن سے کئی کوٹھریاں بنی ہوئی تھیں۔ ان میں کوئی کھڑکی موجود نہیں تھی۔ یہ جگہ ڈھاکہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے محض چند قدم کے فاصلے پر ہے، اگر قاسم اور کچھ دوسرے سزا یافتہ لوگوں نے اپنی یاد داشتوں کا سہارا نہ لیا ہوتا تو ان کوٹھریوں کی تلاش میں ناکامی ہوتی اورکبھی بھی ان تک نہ پہنچ پاتے۔
قاسم دراصل حسینہ کے سخت ناقد تھے اس جرم میں انھیں آٹھ سال کے لیے ان کال کوٹھریوں میں بھیج دیا گیا تھا۔ حسینہ کے بھارت فرار ہونے کے بعد اس خفیہ قید خانے کا پتا لگانے کے لیے یہاں قید کیے گئے لوگوں سے مدد لی گئی تھی۔ انھی لوگوں نے بتایا کہ کئی قیدیوں پر مقدمہ چلائے بغیر ہی ہلاک کردیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش کے کرائم ٹریبونل کے سربراہ تاج الاسلام نے بی بی سی کے نمایندے کو بتایا تھا کہ یہاں جن لوگوں کو قید کیا جاتا تھا یا ہلاک کر دیا جاتا تھا اس کی حتمی منظوری حسینہ دیتی تھیں۔ قاسم جیسے لوگ جنھیں ان خفیہ جیلوں سے اب رہائی مل چکی ہے، اب بھی خوفزدہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ ان جیلوں کو چلا رہے تھے وہ اب بھی اپنی نوکریوں پر برقرار ہیں اور انھیں کوئی سزا نہیں ملی ہے۔ قاسم کا کہنا ہے کہ ان کوٹھریوں میں رہنا زندہ درگور ہونے کے برابر تھا۔
ان کو یہاں دن رات کا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ قاسم کو جس کوٹھری میں رکھا گیا تھا وہاں صرف ٹارچ کی روشنی میں ہی کچھ دیکھا جاسکتا تھا۔ یہ اتنی چھوٹی تھی کہ مشکل سے ہی ایک شخص اس میں سو سکتا تھا چھت اتنی نیچی تھی کہ کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔
یہ صرف ایک ہی قید خانہ نہیں تھا بنگلہ دیش میں ایسے کئی قید خانے بنائے گئے تھے جہاں حسینہ اور بھارت کے مخالفین کو سزا کے طور پر رکھنے کے لیے کئی کئی کوٹھریاں بنائی گئی تھیں۔ قاسم ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ مشکل ترین دن تھے موت سے بھی بدتر تھے۔
یہی جیلیں تھیں جنھیں ’’آئینہ گھر‘‘ کہا گیا تھا۔ قاسم کا کہنا ہے کہ انھیں یہ سزا اس لیے دی گئی تھی کیونکہ وہ اور ان کا خاندان بنگلہ دیش کی سیاست میں سرگرم تھا، ان کے والد جماعت اسلامی کے سرگرم رہنما تھے۔ ان کال کوٹھریوں میں رکھے گئے ایک اور شخص عتیق الرحمن نے بتایا کہ ان پر بہت سختیاں کی گئیں۔
انھوں نے بتایا کہ وہ خالدہ ضیا کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد اوپر سے ضرور جمہوریت پسند ہے مگر اصل میں کٹر آمر ہے ۔ اس نے کتنے ہی بنگالیوں کو صرف اپنے خلاف بولنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتروا دیا۔
اس کے اس عمل میں بھارتی ’’را‘‘ لمحہ بہ لمحہ اس کے ساتھ تھی۔ ’’را‘‘ کو بھارت سرکارکا خاص حکم تھا کہ وہ کسی بھی پاکستان کی حمایت میں بولنے والے کو نہ بخشے اور بنگلہ دیش کو ایسے تمام لوگوں سے پاک کر دیں تاکہ بنگلہ دیش پھر کبھی پاکستان کے قریب نہ جا سکے مگر بنگلہ دیشی عوام کے دلوں سے پاکستان کی محبت نہ نکالی جا سکی اور انھیں خود بنگلہ دیش سے باہر کر دیا گیا۔
اب پاکستان بنگلہ دیش کے تعلقات کے روز بہ روز مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ حسینہ کو بھلے ہی پاکستان اور بنگلہ دیش کی یہ قربت پسند نہ ہو مگر اسے نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اپنے جابرانہ اقتدار کے خاتمے کے وقت ہزاروں مظاہرین کو ناحق مروا چکی ہے، اسے اس قتل عام کے علاوہ بہاریوں پر مسلسل ڈھائے جانے والے مظالم کا بھی ضرور حساب دینا ہوگا۔