38 C
Lahore
Thursday, April 24, 2025
ہومغزہ لہو لہوپاک ترکیہ اقتصادی و اسٹرٹیجک تعاون

پاک ترکیہ اقتصادی و اسٹرٹیجک تعاون


پاکستان اور ترکیہ نے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے اور مختلف شعبوں میں باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان زراعت، توانائی، آئی ٹی، انفرا اسٹرکچر، معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں اسلام آباد میں طے پانے والے 25 معاہدوں پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔

دفاعی تعاون پاک ترکیہ تعلقات میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، ان خیالات کا اظہار وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

 بلاشبہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان باہمی تجارت کے وسیع مواقعے موجود ہیں؛ زمینی، فضائی اور سمندری تینوں ذرائع سے تجارت ممکن ہے۔ پاکستان، ترکیہ اور ایران تینوں ممالک نے سامان لانے اور لے جانے کے لیے ریل سروس بھی بحال کردی ہے۔ کئی برس سے ترکیہ اور پاکستان کے درمیان اقتصادی بالخصوص توانائی کے پیداواری شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون اور شراکت داری جاری ہے۔

توانائی کے پیداواری شعبے میں تعلقات و تعاون پہلے سے کہیں زیادہ گہرا ہوچکا ہے جس میں وقت کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، سمندروں میں کھدائی اور زلزلے کی تحقیق سے لے کر اہم معدنیات اور بجلی کی پیداوار کے لیے تکنیکی معلومات کا تبادلہ ہو رہا ہے، دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کی کئی یاد داشتوں پر دستخط ہوئے جو غیر معمولی پیشرفت اور شاندار تجربہ تھا۔ ترکیہ ایک عرصے سے اس قسم کے تعاون اور موقعے کا منتظر تھا جو درحقیقت دہائیوں پر محیط شراکت داری کا نتیجہ ہے اور پاکستان و ترکیہ کے تعلقات وقت کے ساتھ مزید گہرے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ترکیہ اور پاکستان کی دوستی صرف تیل اور گیس کے شعبوں میں شراکت داری یا تعاون تک محدود نہیں، ترکیہ اور پاکستان اہم معدنیات کی کھوج اور ترقی کے لیے بھی تکنیکی معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے پاس قابل ذکر ذخائر ہیں، جن کی ترقی دونوں ممالک کو فائدہ پہنچانے والی اسٹرٹیجک ویلیو چین پیش کرے گی۔

انیسویں صدی کے وسط میں جب کہ سونے (gold) کی مانگ بڑھ گئی ہے اور اسے اہم معدنیات قرار دیا جاتا ہے، دونوں ممالک کئی ایک دیگر اہم معدنیات کی فراہمی کنٹرول کر سکتے ہیں۔ ترکیہ پاکستان کی ضروریات کو سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، ترکیہ نے اصلاحات کا احساس کیا ہے جس نے اپنی بجلی کے شعبے میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ نتیجتاً ترکیہ اب ایک ایسی منڈی بن گیا ہے جہاں نئی سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور عوام کو سستی بجلی دستیاب ہے۔ آج پاکستان کو بھی اسی طرح کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

 ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان مظلوم مسلمانوں کی طاقت اور ان کے حقوق کی ایک مضبوط آواز تصور کیے جاتے ہیں، مسلسل تین بار صدارتی انتخابات جیتنے والے طیب اردوان کی مثبت خارجہ پالیسیوں نے ترکیہ کو عالمِ اسلام میں کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، علاقائی تنازعات ہوں یا عالمی معاملات، انھوں نے ہمیشہ مثبت اور قائدانہ رویہ اختیار کیا۔

دونوں ممالک ایک دوسرے کے مزید قریب آئے ہیں کیونکہ دفاع، معیشت انفارمیشن ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت اور مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاقِ کرتے ہوئے دو طرفہ تجارتی حجم کو پانچ ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے اور 24 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے جن کا مقصد باہمی تجارت کا فروغ بتایا جا رہا ہے۔ تجارتی تعلقات کے فروغ کے علاوہ ترکیہ نے کشمیر کے موقف پر ہمیشہ کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہے۔

ترکیہ کے عالمی کردار کی بات کی جائے تو ترکیہ نہ صرف غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو امداد پہنچا رہا ہے بلکہ مشکل کی اس گھڑی میں غزہ کے باسیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہان نہ صرف سات اکتوبر 2023 سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کُشی کے خلاف کھڑے ہیں بلکہ فلسطینیوں کو امداد کی فراہمی میں بھی پیش پیش ہیں۔

 2005میں آزاد کشمیر کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے صدر اردوان کی جانب سے، جو تب ترکیہ کے وزیراعظم تھے، 15کروڑ امریکی ڈالر دیے گئے تھے۔ چھ فروری 2023 کو ترکی میں آنے والے زلزلے کے بعد پاکستان نے بھی حقِ دوستی ادا کیا۔ 2018 میں پاکستان میں ترکیہ کی سرمایہ کاری 2.7ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔

پاکستان نے ترکیہ کو ویزا فری ٹریول لسٹ میں شامل کر لیا۔ 2015 کے بعد سے دونوں ملکوں کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون کی تاریخ بھی عشروں پر محیط ہے۔ 1988میں دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون کو بڑھانے اور فوجی تربیت کے لیے پاک ترکیہ فوجی مشاورتی گروپ تشکیل پایا تھا۔ 2003 میں طیب اردوان کے دورہ پاکستان کے موقعے پر دونوں ملکوں میں ہائی لیول ملٹری ڈائیلاگ گروپ کی تشکیل بھی مضبوط تعلقات کا بڑا ثبوت ہے۔ 2004میں دہشت گردی اور منظم جرائم کا مقابلہ کرنے کے مقصد سے اس اہم معاہدے کی توثیق کی گئی جس سے انسدادِ دہشت گردی میں معاونت ملی۔

2018 میں پاک بحریہ نے ترکیہ کے ایک اہم دفاعی مینو فیکچرز کے ساتھ شراکت داری سے ایک فلیٹ ٹینکر متعارف کروایا۔ 2018میں ہی ترکیہ کے ساتھ پاک بحریہ کو 30 ٹی 129لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کے لیے 1.5ارب ڈالرکا معاہدہ ہوا جو بعد ازاں امریکی پابندیوں کی وجہ سے معطل ہوگیا۔ 2021 میں پہلی اَپ گریڈڈ آبدوز کی فراہمی کے بعد 2023میں ترکیہ نے پاک بحریہ کے لیے دوسر ی اے جی او ایس ٹی اے 90جی کلاس آبدوز کو جدید بنانے کا کام کیا۔ اب ایک اور آبدوزکو جدید بنانے پر کام جاری ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان اور ترکیہ کا ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ جوائنٹ منصوبہ بھی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

دفاعی میدان کے علاوہ دونوں ممالک ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی تعاون کرتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک مشترکہ جنگی مشقیں بھی کرتے ہیں جس میں اتا ترک اور جناح سیریز مشقیں شامل ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی پر تعاون کے حوالے سے بھی دونوں ملکوں کے مابین کئی معاہدات موجود ہیں۔ رجب طیب اردوان نے ہمیشہ پہلے بطور وزیراعظم اور اب بطور صدر، پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط اور پائیدار بنائے ہیں۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ رجب طیب اردوان کے اسٹرٹیجک وژن اور پالیسی اقدامات نے پاکستان اور ترکیہ کے مابین دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

 پاکستان اور ترکیہ کے درمیان ایک آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے) ممکنہ طور پر صدر اردوان کی خواہش کے مطابق دو طرفہ تجارت کو 584 ملین ڈالر کی موجودہ سطح سے 5000 ملین ڈالر تک بڑھا سکتا ہے۔ پاکستان کی 20 ٰ ممکنہ برآمدات 391 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2400 ملین ڈالر تک جا سکتی ہیں جب کہ ترکیہ کی پاکستان کو 20 اشیاکی برآمدات 193 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2500 ملین ڈالر تک جا سکتی ہیں۔ تاہم، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف ٹیرف کے خاتمے سے اس مقصد کو حاصل کرنے میں مدد نہیں مل سکتی، پاکستان کو ایک بھرپور منصوبہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

ترکیہ کو برآمدات کی سب سے زیادہ ممکنہ مصنوعات میں سے کچھ کو پہلے ہی کم ٹیرف کا سامنا ہے۔ پاکستان کی مذاکراتی ٹیم کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ترکیہ کی نان ٹیرف رکاوٹوں اور خاص طور پر ترکیہ کی جانب سے اینٹی ڈمپنگ قوانین کے آزادانہ استعمال سے متعلق خدشات کو ایف ٹی اے میں دور کیا جائے۔ پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کے مفادات کو مدنظر رکھے بغیر ایک بار پھر مذاکرات میں ناکامی ممکنہ طور پر ایک اور ایف ٹی اے کی طرف لے جا سکتی ہے جس سے پاکستان کی مقامی منڈیوں کو ترکیہ کی برآمدات میں یکساں اضافے کے بغیر ترک درآمدات کے لیے کھول دیا جائے گا۔

 ترکیہ پاکستان کے ساتھ اپنے تجربات کا تبادلہ کرنے کے لیے تیار ہے اور پاکستانی قیادت کے عزم کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ترکیہ اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت سے نہ صرف دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا بلکہ مقامی معیشتوں اور مجموعی طور پر خطے کے استحکام اور خوشحالی میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ ترکیہ اور پاکستان کے درمیان فعال مضبوط اور کثیرالجہتی شراکت داری کے مواقعے موجود ہیں جن سے مستقبل قریب میں استفادہ کرتے ہوئے دوستی و تعاون کے رشتوں کو مزید گہرا بنایا جائے گا۔

حکومت کو اسپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کی طرح برآمد کنندگان کے مسائل کو ایک دفتر میں حل کرنے کا فوری انتظام کرنا چاہیے۔ جو حکام، اہلکار یا طریقہ کار پاکستان کی بین الاقوامی تجارت میں رکاوٹ پیدا کرے اسے تبدیل کردینا ضروری ہے۔ یہ صورتحال برق رفتار فیصلوں اور عمل درآمد کی صلاحیت پیدا کیے بنا بہتر نہیں ہو سکتی۔ حکومت معاشی بحالی کی خاطر برآمدی شعبے کا ہاتھ تھام لے تو مقصد کا حصول مشکل نہیں ہوگا۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات