معاملہ سچ بولنے یا جھوٹ کو چھپانے کا نہیں ہے۔ حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ فہمیدہ طبقہ کی حقائق پر گہری نظر ہو۔ عرض کرتا چلوں کہ ملک سے شدید محبت ہماری تیسری نسل کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے۔ تمہید اس لیے ضروری ہے کہ معاملات کو سنجیدگی سے پرکھنا اور اپنا نقطہ نظر پیش کرنا حددرجہ بہترین بات ہے۔
یہ تو اکثر بتایا جاتا ہے کہ ملک شدید سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہے۔ ویسے اس کو کم کرنے کے بجائے چند سیاسی جماعتیں زلزلے کو مزید بڑھاوا دے رہی ہیں۔ شاید انھیں ادراک نہیں کہ زمین جب کروٹ لیتی ہے تو مکان تو دور کی بات ہے، بڑے بڑے مضبوط قلعے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ سیاسی عدمِ استحکام تو خیر ہمارے ملک کی قسمت میں شروع ہی سے کاتب تقدیر نے لکھ ڈالاہے۔ مگر اس سے منسلک نقصان کو اب بہت غیرمعیاری طریقے سے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دراصل ملک معاشی طور پر مکمل گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ صنعت وحرفت کا پہیہ جمود کا شکار ہے۔ معیشت کی شرح نمو، صرف اور صرف 2.7 فیصد بتائی جاتی ہے۔ اس میں سے اگر بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح جو تقریباً 2 فیصد کے لگ بھگ ہے، نکال دی جائے تو یہ ترقی محض ایک فیصد سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ قیامت خیز سچ ہے کہ اگر ہماری معیشت محض ایک فیصد پر ترقی کرنے کی جستجو کر رہی ہے تو جان لیجیے کہ اقتصادی طور پر ہم دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ گھمبیر نکتہ یہ بھی ہے کہ 2.7 فیصد کی نمو، بین الاقوامی مالیاتی ادارے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ گروتھ ریٹ منفی ہو جو کہ ملکی حالات دیکھ کر صائب معلوم ہوتے ہیں۔
مختلف صنعتی اور تجارتی شعبوں کی بابت بات نہیں کر رہا۔ زبوں حالی ہر طرف سے ہمیں گھیر چکی ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں ٹیکسٹائل ملیں اور کارخانے بند ہونا، اب کوئی خبر نہیں رہی۔ قصہ کوتاہ یہ کہ دم توڑتی معیشت کو بہتر کرنے کے بجائے ہماری حکومت نے ایک ایسا بیانیہ ترتیب دینے کی کوشش کی ہے کہ تمام بربادی، پروپیگنڈے کی دھول میں چھپ جائے مگر موجودہ ذرایع ابلاغ میں ایسا کرنا اور ہونا ناممکن ہے۔
دلیل پر بات کرنی ضروری ہے۔ ماضی پر نظر ڈالیں۔ تو 1970-71 اور موجودہ حالات میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ ناکام ترین اقتصادی پالیسیاں نقصان پہنچا چکی تھیں۔ پرانے دور میں یحییٰ خان اور ان کی ٹیم کے پاس ملک کو سنوارنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ موجود نہیں تھا۔ الیکشن کا نتیجہ کیا ہوا، کس ادارے نے طاقت، سیاست دانوں کو منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ سب کو معلوم ہے۔ مگر یحییٰ خان اور ان کی ٹیم نے اس ناکامی کو چھپانے کے لیے ایک ایسا وطیرہ استعمال کیا جس کے نتائج کا ان کو بالکل ادراک نہیں تھا۔ وہ تھا کہ ہندوستان ہمارا دشمن ہے اور ہماری بربادی میں صرف اور صرف اسی کا ہاتھ ہے۔
لہٰذا ہندوستان کو نیست ونابود کرنا ہو گا۔ Crush India کے پوسٹرز اور سٹیکرز بنوا کر، مذہبی سیاسی جماعتوں سے ہر جگہ لگوائے جاتے تھے۔ اچھی طرح یاد ہے کہ میں اپنے والد محترم کے ہمراہ لاہور آیا تھا۔ سرخ بتی پر کار چیئرنگ کراس پر رکی ہوئی تھی، دو بندے آئے اور گاڑی کے پچھلے شیشے پر کرش انڈیا کا سٹیکر لگا کر چلتے بنے۔ مگر یہ تمام لفاظی تھی۔ جس بری طرح سیاسی معاملات کو ہینڈل کیا گیا، اس سے صرف اور صرف ملک ٹوٹا اور ہم پوری دنیا میں رسوا ہو گئے۔ ہمارے پیدا کردہ جنگی جنون نے ہندوستان کو وہ موقع دیا کہ پاکستان کے گھٹنے ٹکوا دیے گئے۔ اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ دل دکھتا ہے۔ ویسے سچ یہ بھی ہے کہ ایوب خان کی اقتصادی پالیسیوں سے ملک بہرحال ترقی کر رہا تھا۔ مگر اس ترقی نے مشرقی پاکستان کو کسی بھی طریقے سے ثمرآور نہیں کیا۔
یہاں یہ کہنا درست سمجھتا ہوں کہ ہندوستان ہمارا دشمن ہے۔ اور ہمیں ہر طرز سے نقصان دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ مگر 1970 کی غیردانشمندی کو2025میں دوبارہ اپنانا پہلے سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ کھوکھلے نعروں سے نہ جنگیں جیتی جاتی ہیں اور نہ ہی قومیں ترقی کر پاتی ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ ہم اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے بجائے، لوگوں کو ایک ایسے جنگی جنون میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں جس سے مجموعی طور پر کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس عالم میں، امن کی بات کرنے والا بڑی آسانی سے ملک دشمن اور غدار قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر صرف امن وہ راستہ ہے جس پر گامزن ہو کر ملک ترقی کر سکتا ہے۔
چین ایک بین الاقوامی معاشی طاقت ہے۔ اس کی جنگی صلاحیت warfare index 2025 کے حساب سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ چین نے دنیا یا اپنا کوئی معاملہ، طاقت کے بل بوتے پر حل کرنے کی کوشش کی ہو۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہندوستان کے ساتھ چین کا سرحدی تنازعہ موجود ہے مگراس علاقے کے لیے کبھی بھی، اس نے ریاستی قوت کا استعمال نہیں کیا۔ شاید آپ کے لیے یہ نکتہ اجنبی سا ہو کہ ہندوستان انڈکس کے حساب سے چوتھے نمبر پر ہے۔ یعنی چین کے فوراً بعد۔ مگر دونوں ملک اپنے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی دانش مندی ہے۔ مگر اس کے بالکل متضاد ہم لوگ، ہر معاملہ کو جنگ کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔
پاکستان، انڈکس کے حساب سے بارہویں نمبر پر ہے۔ کوئی جذباتی بات نہیں کر رہا۔ ٹھوس حقائق کے مطابق، اپنے ملکی مفاد میں گزارش کرنا عین صائب ہے۔ ذرا اپنے مالی ذخائر تو دیکھیے۔ ہمارے ذخائر شرمناک حد تک کم ہیں۔ انیس بلین ڈالر، وہ رقم ہے جو اسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں میں موجود ہے۔ ہمسایہ ملک کے مالیاتی ریزرو 692 بلین ڈالر ہیں۔ انیس اور 692 بلین ڈالر میں کتنی خلیج ہے، فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔ جذباتیت کے بغیر تمام قارئین سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا واقعی اتنی نحیف معیشت کے ساتھ ہمیں جنگ کی باتیں کرنا زیب دیتا ہے؟ کیا ہمیں امن کا راستہ اختیار کر کے، اپنی معیشت کو اوپر نہیں اٹھانا چاہیے؟ کیا واقعی جنگ ہماری دم توڑتی معیشت کے لیے زہر قاتل نہیں ہو گی؟
کسی بھی سیاسی جماعت کا خوشہ چین نہیں ہوں۔ اقتصادی بدحالی کے عروج میں ہمارے موجودہ وزیراعظم نے گزشتہ تین برس میں 57 بیرونی دورے کیے۔ بڑی دیدہ زیب تصاویر میڈیا کی زینت بنیں۔ بیرونی دوروں کا مقصد کیا تھا اور ان سے کیا حاصل ہوا؟ یہ توجہ طلب بات ہے۔ وزیراعظم اور ان کی اقتصادی ٹیم ملک میں کسی بھی طرح کی بیرونی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ریکوڈک کا چورن بیچتے ہمیں بیس پچیس برس ہو چکے ہیں۔
ملکی ترقی تو چھوڑیئے، کیا اس سے بلوچستان میں خوشحالی کی لہر امڈ آئی ہے؟ بالکل نہیں۔ بلوچستان کا تو گلہ بھی یہی ہے کہ ان کے معدنیاتی ذخائر سے وصول شدہ رقم ان کی فلاح وبہبود پر خرچ نہیں ہو رہی۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان کی اقتصادی ٹیم، صرف اور صرف امریکا کی آشیرباد سے بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ یا ہمارے ناگفتہ بہ ملکی قومی ذخائر میں رول اوور کروا پا رہی ہے۔ دو چار ملک ہماری پریشانی کو دیکھتے ہوئے اپنے ڈالروں کو مزید عرصے کے لیے رکھوا دیتے ہیں۔اس بے عزتی پر بھی ہم شادیانے بجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سب کچھ فسانہ ہے، کہانی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ لکھنے کو تو بہت کچھ ہے۔ حل کی طرف آنا اصل کام ہے۔ اور حل اب قطعاً آسان نہیں ہے۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ دنیا میں سب سے طاقتور ملک اسرائیل ہے۔ امریکا بھرپور طریقے سے اس کا طفیلی پارٹنر ہے۔ ابراہیمک معاہدہ، متعدد مسلمان ممالک تسلیم کر چکے ہیں۔ سعودی عرب کے اسرائیل سے قریبی روابط ہیں۔ چار دن کی ہندوستان سے لڑائی میں اسرائیل، اس کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ پارلیمنٹ میں اِن کیمرہ بحث ہو کہ ہمیں ابراہیمک معاہدے کو تسلیم کرنا چاہیے؟ اور اگر نہیں توان کی وجوہات کیا ہوں گی؟ صرف دعائیں کرنے سے تو فلسطین کی کوئی مدد نہیں ہو سکتی۔ دوسرا، ہمیں ہندوستان اور افغانستان سے بھرپور تجارت کا ڈول ڈالنا چاہیے۔
کاروبار تو آج بھی تیسرے ملکوں کے ذریعے ہو رہا ہے۔ پھر اپنے بارڈر، تجارت کے لیے کھولنے میں کیا حرج ہے؟ یہ فیصلہ سیاسی اور عسکری سطح، دونوں پر ہونا چاہیے۔ ایک ڈیبٹ ہونی چاہیے کہ ہمارے قومی مفادات کیا ہیں؟ اور ہم ان کو کس طرح محفوظ اور توانا کر سکتے ہیں۔ دہشت گردی، دوصوبوں میں تو خیر عروج پر ہے۔ کیا اسے ختم کرنا ہمارے لیے بہتر نہیں ہے؟ ہمسایہ ممالک سے تجارت، دہشت گردی کے کھیل کو بھی کنٹرول کر سکتی ہے۔
جزئیات میں جائے بغیر عرض کروں گا کہ موجودہ حالات ملک کے لیے قطعاً سازگار نہیں ہیں۔ ہمارے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ لوگ، ملک چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان کو خداحافظ کہہ کر واپس جا رہی ہیںمگر ہندوستان میں یہی تجارتی ادارے، بڑے آرام سے کام کر رہے ہیں۔ حددرجہ خلوص سے بات کروں گا اپنا اقتصادی قد کاٹھ دیکھ کر بات کریں۔ ملک میں چناؤ کے ذریعے تبدیلی لے کر آئیں۔ بازی گروں سے نجات حاصل کریں اور اپنی اقتصادی حالت پر توجہ دیں، شاید اس سے حالات ٹھیک ہو جائیں؟
