زندگی میں سیاست کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، لیکن یہ ’’بہت کچھ‘‘ پاکستان میں ناپید ہے۔ یہاں تفریح کا کوئی ذریعہ نہیں، ضیا الحق نے سب کا جنازہ نکال دیا، نہ سینما ہے نہ تھیٹر ہے، نہ کوئی میوزک نہ ادبی بیٹھکیں۔ لوگوں کے پاس جو وقت ہے وہ کم بخت ٹی وی کی نذر ہو جاتا ہے، ایک زمانہ تھا جب پی ٹی وی زندہ تھا ۔ اناؤنسر پروگرام کے بارے میں بتاتی تھی، سارے گھر والے صرف ایک ہی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر پروگرام دیکھتے تھے۔
پروگرام بھی کیا لاجواب ہوتے تھے، ڈرامہ صرف ایک آتا تھا۔ ڈرامے بھی ایسے کہ آج تک بلیک اینڈ وائٹ ڈراموں کو دلچسپی سے دیکھا جاتا تھا ۔ انڈیا والے فرمائش کرکے پاکستانی ڈراموں کے کیسٹ منگواتے تھے، موسیقی کے ایسے ایسے پروگرام نشر ہوتے تھے جو آج تک یاد ہیں۔ سُرسنگھار، سُر ساگر، ایک فنکار، اور بھی بہت کچھ، ہفتے میں ایک موسیقی کا پروگرام ضرور ہوتا تھا، لیکن جوں ہی چینلوں کی بھرمار ہوئی ہے معیار خودبخود گر گیا، لاتعداد چینلوں اور 24/7 کے طرز عمل کی بنا پر سب کچھ ختم ہو گیا۔
اب کیا ہے انڈین ڈراموں کی نقل کی بھرمار۔ اچھے لکھنے والوں سے کوئی رابطہ نہیں کرتا، ڈائجسٹ رائٹر کا دور ہے، جس چینل کو بھی دیکھو صرف رومانس، احمقانہ محبت کی کہانیاں ہر ڈرامے میں انڈین ڈراموں کی طرح ایک عورت سارا نظام چلا رہی ہے، کہیں وہ ظالم ساس ہے، کہیں مظلوم ماں، کہیں چکر چلانے والی لڑکی، کہیں چال بازی جیٹھانی، کہیں دیورانی، کہیں پھپھو، کہیں خالہ، کہیں باس کی سیکریٹری، ہر عورت لوگوں کو انگلیوں پر نچا رہی ہے، سازشیں کر رہی ہے گھریلو نظام کو درہم برہم کر رہی ہے، شوہر کو، سسر کو، بھائی کو، بہنوئی کو باپ کو الو بنا رہی ہے، اور مرد بے چارے ان خونخوار عورتوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں۔
پہلے ہفتے میں ایک قسط آتی تھی، اب روزانہ کی بنیاد پر ڈھیروں ڈرامے، لیکن عقل سے خالی۔ حماقتوں سے لبریز، ملتی جلتی کہانیاں، یکساں کردار، بس ڈراموں کے نام الگ الگ ہیں، کہانیاں اور کردار ایک جیسے، انسان تفریح کے لیے ڈرامے دیکھتا ہے نہ کہ ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے لیے۔ لیکن وہ چال بازیاں اور سازشیں دکھائی جاتی ہیں کہ انسان چینل بدل لیتا ہے، دوسری اور تیسری بار بھی ریموٹ کا بٹن دبانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جہاں تک لباس کا تعلق ہے دوپٹے غائب ہو چکے ہیں، لڑکیوں سے لے کر ادھیڑ عمر خواتین تک دوپٹوں سے آزاد ہو گئی ہیں، جسم کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے کا فن ڈرامہ آرٹسٹ کو بہت اچھی طرح سے آ گیا ہے، بعض اوقات لباس بہت مختصر ہوتا ہے ۔
پہلے کبھی جب ٹاک شوز نئے نئے چلے تھے تو تھوڑا بہت دم تھا ان میں، لوگ شوق سے دیکھتے تھے، اس وقت بھی لفافہ جرنلزم عروج پر تھا لیکن عام لوگوں کو اتنا پتا نہ تھا، اپنی مرضی کا چینل اپنی مرضی کا اینکر پرسن اور اپنی پسند کے مہمان، جو وہی کہتے تھے جس کا معاوضہ انھوں نے ٹی وی چینل کو ادا کیا ہوتا تھا، لیکن جاننے والے سب جانتے تھے، صحافت کا جنازہ جیسا موجودہ دور میں نکلا ہے اس کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں ملتی، پھر بھی اس حبس زدہ موسم میں بعض صحافی اور کالم نگار سچ کا ساتھ دے رہے تھے۔
پاکستان میں جمہوریت کا پودا مرجھا رہا ہے، پتا نہیں کن بقراطوں کو یہاں ’’جمہوریت‘‘ کا بندر ناچتا نظر آتا ہے، حالاں کہ قائد اعظم کی ایمبولینس خراب ہونے سے لے کر فاطمہ جناح کے الیکشن ہارنے تک سب ایک تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں، الیکشن کا بندر بھی ایک مخصوص ڈگڈگی پر خوب ناچتا ہے، ضیا الحق کا ریفرنڈم لوگ ابھی بھولے نہیں ہیں، کیسے ووٹوں سے ڈبے بھرے گئے؟ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کو جمہوریت راست نہیں۔ اسی لیے متعدد بار غیر جمہوری حکومتیں یہاںرہیں، لیکن اب صورت حال بہت مختلف ہے کیا فائدہ کہ کام تو تمام غرمرئی قوت کرے اور نام ہو کسی اور کا، وہی بات ہے کہ:
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
لیکن اب صورت حال بہت واضح ہے آپ صبح کا اخبار پڑھ لیجیے، کالم پڑھ لیجیے، سب صاف سمجھ میں آتا ہے، حسینہ واجد نے جو کیا اس کا خمیازہ وہ بھگت رہی ہیں، بنگلہ دیش کے عوام بہت بہادر ہیں کہ انھوں نے حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، انھوں نے اپنے دور حکومت میں جماعت اسلامی کے سرکردہ لیڈروں کو مروا دیا، جب بولنے لکھنے اور کہنے پر پابندی لگ جائے تو ملک پریشر ککر بن جاتا ہے۔ زیادہ دباؤ بڑھنے پر پریشر ککر پھٹ جاتا ہے اور تباہی لاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد نے عوام پر اتنی پابندیاں لگائیں کہ لوگ پھٹ پڑے۔ ان کے بینک لاکرز سے دس کلو گرام سونا ضبط کر لیا گیا ہے۔
اس سونے کی قیمت تقریباً تیرہ لاکھ ڈالر ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ حسینہ واجد نے اقتدار کے دوران کچھ تحائف ریاستی خزانے میں جمع نہیں کرائے تھے۔ گزشتہ سال طلبا کے مظاہروں کے دوران دس ہزار افراد جاں بحق ہوئے جس کے بعد وہ بھارت چلی گئیں، البتہ بنگلہ دیش میں ان پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔بات ہو رہی تھی کہ پاکستان میں دیگر مہذب ملکوں کی طرح عام آدمی کے لیے تفریح کے ذرائع نہیں ہیں، موسیقی کا کوئی ڈھنگ کا پروگرام نہیں۔ کسی چینل سے کوئی معیاری میوزک کا پروگرام نہیں آتا۔ ٹی وی مالکان کو چاہیے کہ ہفتے میں ایک دن ضرور موسیقی کا پروگرام نشر کیا جائے۔
بہت سارے نوجوان بڑا سریلا گاتے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں۔ اسی لیے نوجوان نسل نے موبائل فون کو آنکھوں سے لگا لیا ہے۔ موبائل فون کے استعمال میں کوئی قدغن نہیں ہے تمام جرائم اسی موبائل فونز کے ذریعے کیے جا رہے ہیں، لڑکیوں کو بلیک میل کرنا ان کی نازیبا ویڈیوز بنانا وغیرہ۔ سب اسی موبائل فون کے ذریعے ہو رہا ہے۔ ٹی وی چینلز اگر اس طرف توجہ دیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے، نوجوان نسل کو صحت مند تفریح اگر موسیقی کے ذریعے مہیا کی جائے تو اس کے بہتر نتائج نکل سکتے ہیں، لیکن ایسا کرے گا کون؟ رہ گئے ٹاک شوز تو لوگ اب انھیں دیکھتے نہیں ہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ کس کے منہ میں کس کی زبان ہے؟
ایک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
کراچی میں ملیر کے علاقے سے قائد آباد جاتے ہوئے ایک اسپتال قائم ہوا ہے جس کا نام ہے ’’کوہی گوٹھ اسپتال‘‘ جو فلاحی بنیادوں پر چل رہا ہے۔ یہاں تمام مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے، یہ اسپتال بھی عطیات و صدقات پر چل رہا ہے۔ اس کے روح و رواں ہیں ڈاکٹر ٹیپو سلطان۔ اس کا پتا ہے دیہہ لانڈھی، بن قاسم ٹاؤن کراچی، فون نمبر 021-34508638۔ واٹس ایپ نمبر 0317-2525005۔ آپ اپنے عطیات و صدقات اس اسپتال کو دیجیے۔ یہاں ماؤں اور بچوں کا خصوصی علاج ہوتا ہے۔
کراچی میں اور دیگر بڑے شہروں میں بھکاریوں کی تعداد تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ہٹی کٹی عورتیں بھیک مانگتی نظر آتی ہیں، آپ کے پیچھے لگ جائیں گی اور جب تک آپ انھیں کچھ دے نہ دیں وہ پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ بہتر ہے کہ آپ اپنے عطیات ان اسپتالوں کو دیں جو مفت علاج کر رہے ہیں۔ گداگری ایک لعنت ہے جس کی اسلام نے بھی مذمت کی ہے۔ بجائے بھکاریوں کی تعداد بڑھانے کے اپنے عطیات کسی نیک کام میں لگائیں۔
