18 C
Lahore
Thursday, December 18, 2025
ہومغزہ لہو لہوسلیم الزماں صدیقی کا وژن

سلیم الزماں صدیقی کا وژن


عظیم سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو ملک کے سائنسی اداروں کے قیام کا سہرا جاتا ہے ان اداروں میں لطیف ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ بھی شامل ہے۔ یہ ادارہ کراچی یونیورسٹی میں قائم ہوا تھا۔ پھر اس انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ مزید تحقیقی ادارے قائم ہوئے، یوں Institute for Chemical and Biological Sciences کا ادارہ قائم ہوا۔ حکومت سندھ اس ادارے کو کراچی یونیورسٹی سے علیحدہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی 19، اکتوبر 1897 کو ہندوستان کے صوبہ یو پی کے ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی چوہدری خلیق الزماں کا شمار آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ چوہدری خلیق الزماں قیام پاکستان کے بعد مختلف سیاسی اور انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ سلیم الزماں صدیقی نے ابتدائی تعلیم لکھنو میں حاصل کی تھی، پھر علی گڑھ آگئے۔ اس وقت علی گڑھ یونیورسٹی قائم نہیں ہوئی تھی، یہ ایم اے او کالج کہلاتی تھی۔ انھوں نے اس کالج سے 1919میں گریجویشن کیا، وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے مگر لندن میں کچھ دن گزارنے کے بعد جرمنی کے شہر فرینکفرٹ چلے گئے۔

سلیم الزماں صاحب نے 1927میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور وہ ہندوستان واپس آئے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں انڈین کونسل آف سانئٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ میں کام کرنے لگے۔ 1950 میں اپنا آبائی وطن چھوڑ کر پاکستان آگئے اور کونسل آف انڈسٹریل اینڈ سائنٹیفک ریسرچ قائم کی۔ 1966 میں اس ادارے سے ریٹائر ہوئے اور کراچی یونیورسٹی آئے جہاں انھوں نے تحقیق کے عالمی معیار کے مطابق حاجی ابراہیم انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ریسرچ کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے نے ڈاکٹر صدیقی کی قیادت میں زبردست ترقی کی۔ اس ادارہ سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر عطاء الرحمن، کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر زیدی اور ڈاکٹر اقبال چوہدری جیسے نامور سائنس دان وابستہ رہے۔

ریسرچ کے اس ادارہ نے طالب علموں کو تحقیق کے نئے کاریڈور کی طرف متوجہ کیا، یوں اس ادارہ سے پی ایچ ڈی کرنے والے بہت سے نوجوانوں نے پاکستان کے علاوہ امریکا، کینیڈا اور یورپی ممالک میں کارنامے انجام دیے ہیں اور دے رہے ہیں۔ پنجوانی سینٹر فار مولی کیولر میڈیسن اور National Institute of Virology کا قیام عمل میں آیا اور ان اداروں کو Institute of Chemical and Bilogical Sciences کی نگرانی میں دے دیا گیا۔ ان اداروں کے اخراجات ہائر ایجوکیشن کمیشن اور حکومت سندھ کی گرانٹ سے پورے ہوتے ہیں اور بڑے عطیہ کنندگان ان اداروں کو فعال رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر غیر سرکاری اداروں کے عطیات کل اخراجات کا 2 فیصد حصہ پورا کررہے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں اس وقت تک 20 ریسرچ سینٹر اور انسٹی ٹیوٹ قائم ہیں۔ ان میں سے کچھ ادارے وفاقی حکومت نے قائم کیے تھے جب کہ دیگر کراچی یونیورسٹی کی نگرانی میں کام کررہے ہیں۔

جو ادارے وفاقی حکومت نے قائم کیے ہیں ان کا تعلیمی کنٹرول کراچی یونیورسٹی کے پاس ہے اور ان انسٹی ٹیوٹ میں کراچی یونیورسٹی کے مختلف اداروں اکیڈمک کونسل، سنڈیکیٹ اور سینیٹ کے طے کردہ قوانین کا اطلاق ہوتا ہے ۔ کراچی یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ ان اداروں کے بورڈ آف گورنر میں اپنے اساتذہ کو بطور رکن نامزد کرتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ان اداروں کے بورڈ آف گورنر کے اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں اور ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ کو کراچی یونیورسٹی کے محکمہ امتحانات ڈگری جاری کرتا ہے۔ ملک کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اسی طرح کام کرتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کی نگرانی میں کام کرنے والے ان اداروں کے معیار کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار کیمیکل اینڈ بیالوجیکل سائنس میں بیماریوں کے بارے میں خصوصی تحقیق ہوتی ہے۔ کسی بھی ناگہانی حادثہ کی صورت میں متاثرہ افرادکی شناخت کے لیے سائنس کے جدید طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے DNA کیا جاتا ہے۔

 کراچی یونیورسٹی کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا بیانیہ ہے کہ DNAاور دیگر ضروری ٹیسٹوں کے لیے خاصی رقم ادا کی جاتی ہے ،ملک کے دیگر اداروں کی طرح اس ادارہ میں بھی سیاست نے بالادستی اختیار کرلی ہے۔ طویل عرصے سے مختلف عہدوں پر فائز رہنے والے افراد ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اہم عہدوں پر برقرار رہنا چاہتے ہیں جس کے خلاف اس انسٹی ٹیوٹ کے سینئر سائنس دانوں نے آواز اٹھائی۔ کچھ معاملات کو عدالتوں تک لے گئے۔ کراچی یونیورسٹی میں اساتذہ کی انجمن کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی مکمل طور پر فعال ہے۔ اس سوسائٹی کے ہر سال باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں، یوں چند برسوں بعد نئی قیادت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ٹیچرز سوسائٹی نے ہمیشہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کے جدوجہد کی ہے۔

جب اس ادارہ کے معاملات سنڈیکیٹ اور سینیٹ وغیرہ میں جاتے ہیں تو سرکاری اور غیر سرکاری اراکین اپنے مضمون کے ماہر اساتذہ انتہائی دلچسپی سے ہر معاملہ پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں، یوں سنڈیکیٹ اور سینیٹ میں بہت سے ایسے فیصلے ہوجاتے ہیں جو بعض اعلیٰ شخصیتوں کے مفادات کے خلاف ہوتے ہیں۔ ان شخصیات نے عطیہ دینے والے خاندانوں کو اس بات پر قائل کیا کہ اگر اس ادارہ کو کراچی یونیورسٹی سے علیحدہ کردیا جائے تو یونیورسٹی کے اداروں اور انجمن اساتذہ کے دباؤ سے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا۔ ان بااثر خاندانوں کے نمایندہ افراد نے حکومت سندھ کے فیصلے کرنے والوں کو اس بات پر قائل کیا کہ اس ادارہ کو مکمل طور پر خودمختار ادارہ بنادیا جائے۔

جب یہ خبر ذرایع ابلاغ میں آئی تو کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ نے ایک احتجاجی مہم شروع کردی۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کا کہنا ہے کہ اتنا بڑا ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی حکومت کی گرانٹ سے چلتا ہے۔ مخیر حضرات سے تو اس ادارہ کے بجٹ میں سے صرف ایک فیصد حصہ کے برابر امداد ملتی ہے، اس بناء پر ان مخیر حضرات کے سپرد یہ ادارہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا بیانیہ ہے کہ اس ادارہ کو کراچی یونیورسٹی سے علیحدہ کیا گیا تو کراچی یونیورسٹی کا ڈھانچہ کمزور ہو جائے گا۔ ایک استاد نے فیس بک پر لکھا ہے کہ عطیہ دینے والے مخیر حضرات کا کردار ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔

سائنس کی ترقی کے لیے اسلام آباد میں قائم سائنس فاؤنڈیشن نے بھی اس ادارہ کو کراچی یونیورسٹی سے علیحدہ کرنے کی تجویز کو مسترد کیا ہے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے یہ ادارہ کراچی یونیورسٹی کے تحت قائم کیا تھا۔ اس ادارہ کو یونیورسٹی سے علیحدہ کرنے کا مطلب ڈاکٹر صدیقی کے وژن سے انحراف ہوگا۔ کراچی کی مخصوص صورتحال میں اس انسٹی ٹیوٹ کا مسئلہ خاصا سنجیدہ ہوتاجارہا ہے۔ حکومت سندھ کو حالات کی نزاکت کو محسوس کرنا چاہیے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات