13 C
Lahore
Wednesday, December 17, 2025
ہومغزہ لہو لہوغلط وقت کے فیصلے - ایکسپریس اردو

غلط وقت کے فیصلے – ایکسپریس اردو


دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک اور سال کا اضافہ نہیں ہوتا، ایک پرانا زخم ہرا ہو جاتا ہے۔ سولہ دسمبر محض ایک تاریخ نہیں، ایک یاد دہانی ہے، اس لمحے کی ہے جب پاکستان دو لخت ہوا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کا قیام کوئی اچانک حادثہ نہیں تھا، یہ ایک طویل سیاسی، انتظامی اور اخلاقی انحراف کا منطقی انجام تھا۔ہم نے ہمیشہ اس سانحے کا الزام بیرونی دشمنوں پر رکھا اور یقیناً دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوا مگر یہ سچ بھی اتنا ہی تلخ ہے کہ اس جدائی میں اپنوں کا کردار کم نہ تھا۔

حکمرانی کی ہوس، اقتدار کی کشمکش اور ذاتی مفادات نے پاکستان کی بنیادوں کو اس حد تک کمزور کر دیا کہ دسمبر 1971 میں یہ کمزوری ایک مستقل حقیقت بن کر ہمارے سامنے آ گئی۔ اس سانحے پر بہت کچھ لکھا گیا، بہت سے چہرے بے نقاب ہوئے اور حمودالرحمن کمیشن نے ذمے داریوں کا تعین بھی کر دیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس تاریخ سے کوئی سبق سیکھا؟

سقوطِ ڈھاکاکے دن کا ذکر آتا ہے تو آنکھوں دیکھا حال سننے والوں کی آواز آج بھی کانوں میں گونجتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مغربی پاکستان میں اس روز ہر محبِ وطن کی آنکھ اشکبار تھی، گھروں میں چولہے ٹھنڈے تھے اور لوگ اپنے جسم سے جدا ہوئے بازو کا نوحہ کر رہے تھے۔ یہ وہ لمحے تھے جن کی شدت آج کی نسل پوری طرح محسوس نہیں کر سکتی۔

ہم نے یہ سب اپنے بزرگوں سے سنا، کتابوں میں پڑھا اور مضامین میں دیکھا، مگر محسوس کرنا اور بات ہے اور سہنا اور بات ہے۔ایسی جدائیاں قومیں صدیوں تک نہیں بھولتیں مگر ہم شاید وہ بدقسمت قوم ہیں جنھوں نے بہت جلد اس زخم کو قسمت کہہ کر قبول کر لیا۔ جماعت اسلامی کے وہ رہنما جنھوں نے پاکستان سے وفاداری کی قیمت جان دے کر ادا کی تاریخ کے حاشیے میں دھکیل دیے گئے۔ یہ قربانیاں صرف ماضی کا قصہ نہیں، یہ ہمارے قومی ضمیر کا امتحان ہیں۔یہ تمام پس منظر ذہن میں رکھا جائے تو آج ایک نئی بحث کا آغاز ہونا محض اتفاق نہیں لگتا۔ ایک بار پھر یہ آوازیں سنائی دینے لگی ہیں کہ باقی ماندہ پاکستان کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ خیال پہلے کتابوں اور تجزیوں کی صورت میں سامنے آیا ، اب آہستہ آہستہ نوجوان نسل کی فکری آبیاری کا ذریعہ بن رہا ہے۔

ایسی نسل جو پہلے ہی ریاست کے موجودہ حالات سے شاکی ہے جب اس کے سامنے تقسیم کو حل کے طور پر پیش کیا جائے گا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے اس کا اندازہ شاید وہی ’صاحب علم ‘لوگ لگا سکتے ہیں جو اس بیانیے کو تشکیل دے رہے ہیں۔یہاں سوال صرف نئے صوبوں کا نہیں سوال وقت کا ہے، نیت کا ہے اور حالات کا ہے۔ کیا واقعی پاکستان اس وقت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ایسے حساس اور دور رس نتائج رکھنے والے تجربات کا متحمل ہو سکے؟ صوبوںکی تقسیم بظاہر انتظامی سہولت کا تاثر دیتی ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ اس کے اثرات ہمیشہ فوری نہیں ہوتے۔ مسائل آہستہ آہستہ سر اٹھاتے ہیںاور جب تک ان کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

1973 کے آئین کے ساتھ ہونے والا مسلسل کھلواڑ، ترامیم در ترامیم اور ہر ترمیم پر اجتماعی آمین، اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے ریاستی ڈھانچے کو وقتی ضرورتوں کے تابع کر دیا ہے۔

 دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے، فتنہ الخوارج کی کارروائیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ بھارت کے ساتھ مشرقی سرحد غیر محفوظ ہے، افغانستان کے ساتھ طویل مغربی سرحد بھی مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ ایسے میں یہ تاثر کہ پاکستان ہر طرف سے گھیرے میں ہے کوئی جذباتی بات نہیں بلکہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ ان حالات میں ملک کے اندر نئے تجربات شروع کرنا وقت کا تقاضا نہیںہے۔ تاریخ ہمیں یہ سبق بار بار دیتی ہے کہ جب قومیں صحیح وقت کا تعین کرنے میں غلطی کر بیٹھیں تو فیصلے ان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔

 بات بہت سادہ ہے مگر بہت بھاری بھی ہے کہ پاکستان کو اس وقت مزید تقسیم کی نہیں، مزید مضبوطی کی ضرورت ہے۔ سرحدوں کے تحفظ کی، معیشت کے استحکام کی اور سب سے بڑھ کر قومی یکجہتی کی ہے۔ دسمبر ہمیں یہ سبق دینے آتا ہے کہ غلطیوں کی قیمت نسلیں چکاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک بار پھر وہی غلطی دہرانے کے لیے تیار ہیں یا اس بار تاریخ کو دہرانے کے بجائے اس سے سیکھنے کا حوصلہ پیدا کر سکیں گے؟



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات