14 C
Lahore
Wednesday, December 17, 2025
ہومغزہ لہو لہوممتا کی آغوش سے قبرکی آغوش تک

ممتا کی آغوش سے قبرکی آغوش تک


16 دسمبر کا دن کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا، سرد اوریخ بستہ صبح کومامتا کی گرم آغوش سے مادر علمی کی گود میں آنے والے کب جانتے تھے کہ آج انہیں واپس جانا نصیب نہیں ہو گا اور چوکھٹ پر منتظرنگاہیں تاقیامت بے خواب ہی رہیں گی۔

اگرچہ سانحہ آرمی پبلک سکول کوگیارہ سال بیت گئے لیکن چھلنی دلوں کو آج بھی قرار نہ مل پایا اور کیسے مل پاتا یہ تو زندگی بھر کا ایسا گھاؤ ہے جو ہوا کی ہلکی سی سرسراہٹ پر پھر سے ہرا ہو جاتا ہے۔ اس اندوہناک سانحے نے ناصرف ان بچوں کے والدین کوگھائل کر رکھا ہے بل کہ ہر پاکستانی کو خون کے آنسو رلایا ہے۔

اس الم ناک سانحے نے اگر ایک طرف پاکستانی قوم کے دل چھلنی کردیئے ہیں تودوسری جانب ہمیں یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا، لازوال قربانی دے دی لیکن اے ہم وطنوہماری ان قربانیوں کو آپس کی اختلافات میں ضائع نہ کرنا اور آئندہ نسلوں کی سلامتی اور بقاء کے لیے اپنے دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا۔

دوسری بات یہ بھی کہ ان شہداء کے والدین یا عزیز و اقارب کو تب تک چین نہ آسکے گا جب تک من الحیث القوم ہم دہشت گردی کے اس ناسور کوجڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکتے۔ حقیقیت میں یہ پھول جیسے بچے ہی ہمارے ہیرو ہیں اور ان کے والدین کی ہمت وحوصلے سے ہمیں اتحاد و اتفاق کا سبق ملناچاہیے، کیوں کہ ان شہداء کے والدین آج عزم و حوصلے اور عظمت و استقلال کااستعارہ بن چکے ہیں، بچوں کی جدائی کا غم، ان کی پرنم آنکھوں اور افسردہ مگر پرعزم چہروں نے پوری قوم کوجگا دیا ہے، شہداء کے ناموں سے پہچان والدین کے لیے باعث فخر بن چکی ہے، خاص کر شہداؤں کی ماؤں کے حوصلے قابل دید ہیں،ہر دن ہر پل یاد ستانے کے باوجود شہید کی ماں اور شہید کا والد کہلوانا والدین کے لیے قابل فخر بن گیا ہے۔

اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا کہ ان کے بچوں نے تو وطن کے لیے قربانی دے دی اب عسکریت پسندوں کا مکمل قلع قمع اور ہر سو امن کے شادیانے بجنے چاہیے۔ اس سانحے کے نتیجے میں پوری قوم، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی،فوجی قیادت کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی، نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر سب متفق ہوئے اور پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے اس ناسورکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ایک پرامن معاشرے کے قیام کے لیے راہیں متعین کیں، آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا۔

 شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا ہونے لگا، اس سانحہ نے پوری قوم کومتحد کیا اور قوم ایک بحرانی کیفیت سے نکل آئی لیکن اسی پر اکتفا کر کے ہمیں مطمئن ہو جانے کی بجائے دہشت گردی کے اس عفریت کا مکمل طور پر قلع قمع کرنے کے لیے ابھی مزید آگے جانا ہے، اب بھی کچھ سوالات تشنہ ہیں جن کے مکمل جوابات ملنے تک شہداء اور غازیوں کے والدین سمیت پوری قوم منتظر رہے گی،جب کہ یہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ اس سارے عرصے میں ان شہداء کے والدین اور پوری قوم پر کیا بیتی اور 16 دسمبر 2014ء کے بعد پوری قوم نے جس یک جہتی کامظاہرہ کیا اور جو اہداف رکھے گئے تھے کیا ہم اس جانب اسی رفتار سے آگے بڑھے ہیں اور اسے حاصل کیاہے؟

جب سانحہ اے پی ایس میں شہید بچوں کے والدین سے بات کی جاتی ہے تو وہ یہی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ یہ گیارہ سال تو جیسے انگاروں پر لوٹتے گزر گئے، ہر لمحہ ہر گھڑی ہمیں بے گناہ اور بے قصور ننھے کلیوں کی یاد تڑپاتی رہی اور تڑپاتی رہے گی، کون سا گھر نہیں جوان گیارہ سال میں ماتم کدہ نہ بنا رہا ہو، ہم توگریہ و زاری کرتے ہوئے روز و شب بتا رہے ہیں،کچھ سمجھ اور نہ سجھائی دے رہا ہے کہ آخر کیوں ان معصوم اور بے گناہوں کا خون بہایا گیا اب تو صرف اپنے رب سے یہی التجا ہے کہ خون کی ندیاں بہانے والوں کا ایسا بھیانک انجام ہو کہ تاقیامت ان کی نسلیں بھی تڑپتی رہیں۔

ان کے مطابق اس سانحے نے ہمیں اندر سے توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہم خود زندہ لاش ہیں، ہماری صرف سانسیں رواں ہیں باقی اندرسے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجودبھی ہماری تشفی اورہمارے زخموں پر مرہم اسی صورت رکھا جائے گا جب دہشت گعدی کے پیچھے کار فرما ہاتھ بے نقاب ہوں اور انہیں اپنے کئے کی سزا بھگتنا پڑے۔ دریدہ دل والدین کی تشفی تب ہوگی جب ہرایک کے زبان پر مچلتے سوالات کا تسلی بخش جواب دیا جائے گا تب تک ہمارے دلوں کو قرار ملنا مشکل ہے۔ ہم یوں ہی بے چین اورمضطرب رہیں گے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات