29 C
Lahore
Monday, July 21, 2025
ہومغزہ لہو لہو26ویں آئینی ترمیم کے بعدڈیمولیشن اسکواڈ لایا گیا، جج اسلام آباد ہائیکورٹ...

26ویں آئینی ترمیم کے بعدڈیمولیشن اسکواڈ لایا گیا، جج اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس


اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سے “ڈیمولیشن اسکواڈ” کو اس ہائیکورٹ میں لایا گیا، ہم نے انصاف کے ستونوں پر ایک کے بعد ایک حملہ دیکھا، ان حملوں نے انصاف کے نظام کو بار بار زخمی کیا اور اسے تقریباً آخری سانسوں تک پہنچا دیا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، صحت اور وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس سردار اعجاز اسحاق  نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی کابینہ کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں رپورٹ پیش نہ کرنے پر نوٹس جاری کیا۔

جسٹس سردار اسحاق نے کہا کہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر کیس کی آئندہ سماعت ہوگی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کا روسٹر چیف جسٹس آفس ہینڈل کرتا ہے، حکومت نے سپریم کورٹ میں میرے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہوئی ہے،  جج اگر چاہے بھی تو چھٹیوں میں کام نہیں کرسکتا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ میری چھٹیاں آج سے شروع ہونی تھیں، میں نے فوزیہ صدیقی کیس دیگر کیسز کے ساتھ آج مقرر کیا تھا، مجھے جمعرات کو بتایا گیا کہ کازلسٹ جاری نہیں ہوگی جب تک کازلسٹ میں تبدیلی نہیں کی جاتی، میں نے پرسنل سیکرٹری سے کہا کہ کازلسٹ کے حوالے سے چیف جسٹس کو درخواست لکھو۔

جج نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کو تیس سیکنڈ بھی درخواست پر دستخط کرنے کے لیے نہیں ملے، ماضی میں ججز کا روسٹر مخصوص کیسز کے فیصلوں کے لیے استعمال ہو چکا ہے، فوزیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہیں، اپیل سپریم کورٹ میں مقرر ہے، جج چھٹی کے دن عدالت میں انصاف فراہم کرنے کے لیے بیٹھنا چاہتا ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ ایک بار پھر ایڈمنسٹریٹیو پاور کو جوڈیشل پاور کے لیے استعمال کیا گیا، میں انصاف کو شکست کا سامنا نہیں کرنے دوں گا، ہائی کورٹ کی عزت کو برقرار رکھنے کے لیے  میں اپنی جوڈیشل پاورز کا استعمال کروں گا، روسٹر تبدیل کرنے کے حوالے سے پرسنل سیکرٹری نے بتایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے پرسنل سیکرٹری کو کہا چیف جسٹس کو خط بھیج دو کیونکہ آج چند کیسز مقرر تھے، فوزیہ صدیقی کا کیس الگ نوعیت کاہے، میں نے کہا تھا رپورٹ نہ آئی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کروں گا۔

وکیل عمران شفیق نے کہا کہ اگرحکومت نے اسٹے لینا ہوتا تو ابھی بینچ بھی بن جاتا، ہمیں معلوم ہے کہ کیسے ہائیکورٹ چل رہی ہے،  آپ کا آرڈر موجود ہے، کیس آپ کی عدالت میں آج مقرر ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ معلوم نہیں ابھی تک آپ کا کیس کیسے سپریم کورٹ میں نہیں لگا، وکیل عمران شفیق نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس نہیں لگےگا کیونکہ وہاں جسٹس منصور علی شاہ موجود ہیں، کیس تب لگے گا جب ججز کا روسٹر تبدیل ہوجائے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا، اس کے علاوہ وفاقی کابینہ کے اراکین کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت نے دو ہفتوں میں نوٹس پر جواب طلب کرلیا۔

 جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے تحریری حکم جاری کر دیا جس میں کہا کہ  وفاقی حکومت نے عدالتی حکم کے باوجود وجوہات عدالت میں جمع نہیں کرائیں،عدالت کے پاس وفاقی حکومت کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔

انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سے “ڈیمولیشن اسکواڈ” کو اس ہائیکورٹ میں لایا گیا، ہم نے انصاف کے ستونوں پر ایک کے بعد ایک حملہ دیکھا، ان حملوں نے انصاف کے نظام کو بار بار زخمی کیا اور اسے تقریباً آخری سانسوں تک پہنچا دیا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ نظام انصاف پر حملوں کی آج ایک اور مثال سامنے آئی، ہائیکورٹ کے ایک جج کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو چیف جسٹس کے دفتر کے زیرِ انتظام ہفتہ وار روسٹر کے ذریعے کنٹرول کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورتحال بیک وقت دل دہلا دینے والی اور مزاحیہ بھی ہے، ایک ایسا تضاد جو اب اس ہائیکورٹ کی پہچان بن چکا ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق  نے کہا کہ عدالت نے حکومت کو موقع دیا تھا کہ وہ اپنی رپورٹ پیش کرے،اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کو متنبہ کیا تھا کہ اگر رپورٹ پیش نہ کی گئی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنی پڑے گی، حکومت نے ترمیمی درخواست دائر کرنے کے آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی، کسی بھی وجہ سے حکومت کا کیس سپریم کورٹ نے نہیں سنا۔

عدالت  نے کہا کہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ ایگزیکٹو کی چالاکیاں کہیں اور ظاہر ہوئیں، اس عدالت کی کارروائی کو روسٹر کے ذریعے کنٹرول کیا گیا، اگر کوئی جج انصاف کی فراہمی کیلئے عدالت لگانا چاہے تو ہائیکورٹ انتظامیہ اسے چھٹی کے دوران اجازت نہیں دے گی۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات