آخر کاراس ڈاکٹر کو کیفرکردار تک پہنچا دیا گیا،اس انجام کا مستحق تو وہ بہت پہلے ہوگیا تھا، جب اس نے سرکاری ملازمت جوائن کی تھی اور’’پریکٹس‘‘ کے بجائے ’’علاج‘‘ کرنے لگا تھا، باقی سینئر ڈاکٹرز اس کا رویہ دیکھ کر پہلے چونکے ، پھر پریشان ہوگئے کیونکہ جن مریضوں کو مختلف لیبارٹریوں، ایکسریز اور ٹیسٹوں کے بعد دس پندرہ دوائوں کی پرسکرپشن لکھا کرتے تھے، ان مریضوں کو وہ ڈاکٹر چند سو روپوں کی دوائیوں سے اچھا کردیتا تھا۔
آخر سینئرز نے اسے سمجھانا شروع کردیا کہ یہ دور ’’پریکٹس‘‘ کا ہے، علاج کا نہیں۔ لمبے چوڑے ٹیسٹ کراؤ، لیبارٹریوں میں گھماؤ، ایکسریز کراؤ اورڈیڑھ صفحے پر دس پندرہ ہزار کی دوائیں لکھ کر دوبارہ آنے کا کہو، تم بھی خوش، لیبارٹریوں والے بھی خوش، دواساز ادارے بھی خوش۔ اورمریض بھی خوش کہ مہنگا علاج کروارہے ہیں لیکن اپنی برادری کا ’’غدار‘‘ لیکن وہ پریکٹس کے بجائے علاج کرنے سے باز نہیں آیا۔
سینئرز تو سینئرز ہوتے ہیں، اس لیے سب نے مل کر اسے فٹ بال بنایا، چھوٹے چھوٹے اسپتالوں کے حوالے کیا جاتا چنانچہ بی ایچ یوز میں اس کے تبادلے ہوتے رہے، اسے کبھی یہاں کبھی وہاں لڑھکا دیا جاتا رہا لیکن وہ ’’سدھرا‘‘ نہیں، وہ ’’میڈیکل پریکٹس‘‘ کے بجائے مریض کا علاج کرتا رہا، آخر کار وہ ریٹائر ہوگیا۔ شہر میںایک معروف جگہ جو ’’کلینک آباد‘‘ کہلاتی ہے جہاں سارے ڈاکٹرز کے کلینکس تھے، لیبارٹریاں تھیں، ایکسریز تھے اور چمک دار فیشن ایبل میڈیکل اسٹور تھے، وہاں تو اسے کوئی جگہ نہیں ملی لیکن اس سے تھوڑی دور ایک دکان مل گئی جسے اس نے اپنا کلینک بنالیا لیکن عادت وہی تھی، میڈیکل پریکٹس کی جگہ علاج کرتا، جو ڈاکٹربرادری کی نظر میں ایک طرح کی غداری تھی۔
’’کلینک آباد‘‘ میں مریضوں کی تعداد چھدری ہوگئی اور اس ڈاکٹر کی معمولی دکان گھنی ہونے لگی تو کلینک آباد کے کچھ پریکٹشنروں نے بھی ’’پریکٹس‘‘ کی جگہ ’’علاج‘‘ کرنے کی بدعت شروع کردی جو خطرے کی بہت بڑی گھنٹی بلکہ الارم تھی۔ چہ مگوئیاں ہوئیں، سرگوشیاں ہوئیں،صلاح مشورے ہوئے تو ایک تدبیر کی گئی کہ جس دکان میں وہ ڈاکٹر ’’علاج کاجرم‘‘ کر رہاتھا، اس کے مالک کو کئی گنا زیادہ کرائے کی آفردے کر آمادہ کر لیا گیا کہ وہ ڈاکٹر کو چلتا کردے۔
ڈاکٹر نے بہت منت سماجت کی، کرایہ بڑھانے کی پیش کش بھی کی لیکن مالک دکان ٹس سے مس نہیں ہوا، اس کا کہنا تھا کہ دکان اسے اپنے کاروبار کے لیے چاہیے ۔ خوش قسمتی سے کچھ ڈیلرز اور پراپرٹی مالکان کو پتہ چلا تو ان سب نے ڈاکٹر کو یقین دلایا کہ فکر ناٹ، ہمارے پاس موقع کی جگہیں موجود ہیں، ڈاکٹر نے دکان خالی کی تو حیرت انگیز طور پر وہ سارے ڈیلرز اور پراپرٹی مالکان بھی معذرت خواہ ہوئے کہ وہ فلاں دکان تو کل کرائے پر لیلی تھی لیکن وہ دکان تو اب خالی نہیں رہی، وہ دکان تو کوئی ’’چرا‘‘ کر لے گیا، اس پر تو مقدمہ دائر ہوگیا لیکن مالک نے کسی اورکودے دی۔ بڑی کوششوں کے بعد بھی جب کوئی جگہ نہیں ملی تو ڈاکٹرصاحب نے سارا سامان اٹھا کر گھر پہنچا دیا۔
قدردان تو اس کے بہت پیدا ہوئے تھے، اس لیے یہاں بھی آنے لگے تو ڈاکٹرصاحب نے اپنے گھر کاایک حصہ الگ کرکے کلینک میں تبدیل کر دیا اورکلینک چل گیا حالانکہ وہ جگہ شہر سے دور ایک مضافاتی بستی میں تھی لیکن حاجت مند تو دوردراز کے پہاڑوں میں بھی حاجات کے لیے جاتے ہیں۔
پریکٹشنرز کے دس بیس ہزار کی مارکھائے ہوئے مریضوں کے لیے دو سو روپے ٹیکسی کے کرائے کے بھی غنیمت تھے کہ تختہ مشق بننے سے یقینی علاج بہرحال بہتر بھی تھا اورسستا بھی۔ ہر کسی کو اپنے مطلب کے مطابق چلنا پڑتا ہے چنانچہ دوچار اور ڈاکٹروں نے آس پاس اپنے ٹھیئے جمالیے اورپریکٹس کی جگہ علاج کرنے لگے۔
مسئلہ گھمبیر ہوگیا تو بات دواسازوں کے ایجنٹوں تک پہنچ گئی۔ وہاں بڑے بڑے دماغ بیٹھے ہوئے تھے اورجانتے تھے کہ اگر یہ سلسلہ چل گیا تو اس علاقے میں تو ان کی دودھیل گائے مرجائے گی۔ مارکیٹ بڑھانا اور پیدا کرنا ہر کاروبار کا بنیادی اصول ہوتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، پھیلتا رہا، مریض اچھے ہوتے رہے تو عین ممکن ہے کہ ان کی مارکیٹ کم ہوتے ہوتے بند ہوجائے گی بلکہ یہ بھی خارج ازامکان نہیں کہ کچھ مہنگی اورفیش ایبل دوائیں بننا ہی بند ہوجائی اوردوا ساز ادارے سستی دوائیں بنانا شروع کردیں کہ ہرکوئی مفادات کا اسیر ہو سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ نئی کمپنیاں بھی نکل آئیں اوردواسازی کا سارا نیٹ ورک ہی ہل جائے۔
چند روز بعد خبر آئی کہ گزشتہ رات مشہورمعالج ڈاکٹر مشتاق کے کلینک پر ڈاکا پڑ گیا، ڈاکو گھر اورکلینک کاصفایا کرگئے اورشاید مزاحمت کرنے پر ڈاکٹر کو بھی گولی مارکرچلے گئے، تفتیش جاری ہے ۔