مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خرم دستگیر نے کہا ہے کہ ہم تو سیاست میں رواداری ہی چاہتے ہیں، اپوزیشن کو گفت و شنید سے اپنے معاملات حل کرنے چاہئیں تو ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ (ن) میں رواداری پر کہا تھا کہ کے پی میں مخصوص نشست کے لیے (ن) لیگ نے جے یو آئی کے خلاف کیس کیا ہے، ایسی اپوزیشن کا میں کیا کروں؟ واضح رہے کہ کے پی اسمبلی میں (ن) لیگ بھی جے یو آئی کی طرح اپوزیشن میں ہے اور جے یو آئی کو ایک نشست زیادہ اور (ن) لیگ کو ایک کم ملنے پر (ن) لیگ نے کیس کیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے نیا فیصلہ جاری کرکے (ن) لیگ کو ایک نشست اور دے دی جس کے بعد کے پی اسمبلی میں (ن) لیگ اور جے یو آئی کی 17,17 برابر نشستیں ہو گئی ہیں۔
ویسے سیاست میں رواداری جتنی پی ٹی آئی میں اب ہے پہلے نہیں تھی جس کا اعتراف اس کے رہنما علی محمد خان نے کیا ہے کہ گرفتاری سے قبل بانی کا کہنا حتمی ہوتا تھا اور ملک میں اس کے خلاف کوئی پی ٹی آئی میں بات نہیں کرتا تھا مگر اب واقعی ایسا نہیں ہو رہا۔ پی ٹی آئی کے رہنما رواداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جب لاہور میں وزیر اعلیٰ کے پی کی پریس کانفرنس میں ساتھ بیٹھے ہوئے ہونے کے بعد ایک پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور جب انھوں نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو علی امین نے اپنے مرکزی سیکریٹری جنرل کو بولنے سے روک دیا اور کہا کہ مجھے بات کرنے دیں۔
یہ وہ موقعہ تھا جب وزیر اعلیٰ اپنے قید بانی کی ہدایت کے برعکس کہہ رہے تھے کہ میں حکومت کو نوے روز کا وقت دے رہا ہوں کہ وہ بانی کو رہا کر دے ورنہ میں بانی کی رہائی کی تحریک شروع کر دوں گا۔ مرکزی سیکریٹری جنرل نے اس موقع پر اتنی رواداری دکھائی کہ اس اعلان کی انھوں نے تردید نہیں کی کہ بانی نے پانچ اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔ سلمان اکرم کو مرکزی سیکریٹری جنرل کی حیثیت وزیر اعلیٰ کے پی کی پریس کانفرنس میں دکھانی اور انھیں روکنا تھا کہ نوے روز کے بعد نہیں تحریک پانچ اگست سے شروع ہوگی مگر سلمان اکرم نے رواداری دکھائی ، وہ ٹھنڈے مزاج کے وکیل ہیں ، وہ اپنے وزیر اعلیٰ کا غصہ ایک رپورٹر کے سوال کرنے پر دیکھ چکے تھے اور رواداری کے تحت خاموش رہے تھے مگر اس وقت کچھ بولے نہیں تھے۔
جے یو آئی کے سربراہ فضل الرحمن سینئر سیاستدان اور ٹھنڈے مزاج کے ہمیشہ رواداری کا مظاہرہ کرنے والے قومی رہنما ہیں ۔ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے لیے 2022 میں آصف زرداری اور میاں شہباز شریف نے انھیں تحریک عدم اعتماد کے لیے استعمال کیا تھا اور پی ڈی ایم بنانے میں پیپلز پارٹی کا اہم کردار بھی تھا مگر وہ مقصد کے حصول سے قبل ہی پی ڈی ایم سے نکل گئی تھی مگر آصف زرداری نے اپنی رواداری ضرور برقرار رکھی تھی اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی اور کیسے ہوئی تھی اس کا مولانا کو بھی پتا تھا مگر رواداری کے ساتھ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا جن کی کابینہ میں بلاول بھٹو وزیر خارجہ، مولانا کے صاحبزادے وزیر مواصلات اور تینوں پارٹیوں کے رہنما حکومت میں شامل تھے۔
اس حکومت کے 16 ماہ بعد نگراں حکومت بنی تھی اور مولانا کے سمدھی گورنر کے پی اور پی ٹی آئی کے بقول کے پی کے کی نگران حکومت جے یو آئی کی تھی جس میں 8 فروری کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمن پی ٹی آئی کے علی امین سے دوسری بار ہارے تھے اور کے پی میں جے یو آئی کو شکست ہوئی تھی۔ جب فروری 2022 میں حکومت سازی کے لیے اجلاس چوہدری شجاعت کے گھر ہوا تھا تو اس وقت بھی مولانا سیاسی رواداری کے لیے بلائے جا سکتے تھے مگر مولانا کو پی پی اور (ن) لیگ نے وہاں بلوانے کی بھی زحمت نہیں کی تھی کیونکہ پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کو خوف تھا کہ مولانا ملک کی صدارت نہ مانگ لیں۔ دونوں بڑی پارٹیوں نے اس وقت مولانا کے ساتھ رواداری نہیں دکھائی تھی اور مولانا کو اپوزیشن میں دھکیل دیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن کی رواداری ہے کہ وہ اب بھی پی ٹی آئی کے ساتھ اختلافات ختم نہیں کر رہے کیونکہ دونوں بڑی حکومتی پارٹیاں اب بھی مولانا کی رواداری کی قدر نہیں کر رہیں اور صدر مملکت اور وزیر اعظم مولانا کے در دولت پر جا بھی چکے ہیں مگر دونوں پارٹیاں اب بھی مولانا جیسی رواداری نہیں دکھا رہیں اور دونوں چاہتیں تو بلوچستان حکومت جے یو آئی کو دے سکتی تھیں کیونکہ وہاں تینوں کی نشستیں تقریباً برابر تھیں مگر مولانا کو چھوڑ کر دونوں نے حکومت بنا لی تھی۔
اب کے پی میں نئی حکومت کے لیے سیاسی رواداری کا پھر مظاہرہ ہوگا جہاں دونوں حکومتی پارٹیوں کو مولانا کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور مولانا بھی علی امین سے ناراض ہیں جو مولانا سے اپنا رویہ بدلنے کو تیار نہیں مگر اصل بات کے پی میں سیاسی مفادات کے حصول کی ہے رواداری کی نہیں۔