28 C
Lahore
Friday, July 18, 2025
ہومغزہ لہو لہوامانت علی خاں - ایکسپریس اردو

امانت علی خاں – ایکسپریس اردو


’’ سنگ دوست ‘‘ ناول نگار، افسانہ نگار اے حمید کے دلچسپ خاکوں کا مجموعہ ہے، اس میں تیس ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے خاکے ہیں، یہ خاکے بہت دلچسپ ہیں، کسی بھی خاکے کو لیجیے، اتنی خوبصورت نثر لکھنے والا افسانہ نگار اے حمید خاکوں میں بھی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے، چونکہ وہ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں، اس لیے خاکوں میں بھی جنگل، خوشبو، ہوائیں اور بارش کا تذکرہ۔ خاکے بھی افسانوں کی طرح سے ہیں ان کا اسلوب طلسمی سا ہے، جو بھی خاکہ پڑھا کرتے ہیں، دل میں جگہ بناتا جاتا ہے اور اس شان دار اسلوب کی وجہ سے قاری ان خاکوں کو جب پڑھنا شروع کرتا ہے تو ختم کیے بغیر نہیں رہتا۔ ان خاکوں میں دو خاکوں نے مجھے بہت متاثر کیا، پہلا خاکہ ہے اخلاق احمد دہلوی کا اور دوسرا ہے استاد امانت علی خاں کا۔ سوچا اپنے قارئین کو استاد امانت علی کے خاکے سے تعارف کراؤں۔ یہ خاکہ بڑی محبت سے لکھا گیا ہے، باقی خاکوں سے بھی آپ کو روشناس کرواؤں گی۔

’’بھائی دروازے کے اندر ہم داہنے ہاتھ کی ایک گلی میں مڑ گئے، سامنے امانت علی خاں کا چار منزلہ مکان تھا، امانت مجھے اپنے خاندانی ہیرے جواہرات دکھانے لایا تھا، امانت اوپر سے ایک تاریخی قسم کا منقش لکڑی کا گول ڈبہ لے آیا، یہ ہیرے جواہرات کے ہاروں سے بھرا تھا، مجھے الف لیلیٰ کا زمانہ یاد آگیا، اسی قسم کے وہ شاہی خزانے ہوتے تھے جن کی تلاش میں شہزادے سات سمندروں کو پار کر کے نکلا کرتے تھے، ان ہاروں میں بڑے قیمتی ہیرے، جواہرات اور موتی جڑے تھے۔ امانت ایک ایک ہیرے کی تاریخ بیان کر رہا تھا۔ یہ سب کچھ اس فن کے اعتراف میں تھا جو امانت علی خاں کے گھرانے میں سورج کی طرح روشن چلا آ رہا تھا۔‘‘

’’ قیام پاکستان کے بعد خوبصورت موسیقاروں میں جو لوگ میرے دوست بنے ان میں امانت علی سر فہرست تھا، سروقد، چوڑے شانے، سرخ و سفید رنگت، سنہری گھنگھریالے بال، نشیلی بڑی بڑی آنکھیں، شاہانہ چال، گاتے وقت وہ اور بھی خوبصورت ہو جاتا تھا، چہرے کے خدوخال پر پہلے سے زیادہ روپ آ جاتا، خوش لباس و خوش گفتار، شروع ہی سے وہ ادیبوں، شاعروں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا، چینی لنچ ہوم، کافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس، یہی وہ ٹھکانے تھے جہاں امانت بیٹھا کرتا تھا، ایک مدت تک میں نے امانت کو کبھی ’’ دخت رز‘‘ کے ساتھ نہیں دیکھا۔ نہ جانے وہ کون سی منحوس ساعت تھی جب امانت نے اس آب شر کو ہاتھ لگایا تھا، یہ منحوس ساعت مجھ پر بھی گزری تھی، پھر ہم دونوں نے ’’دخت رز‘‘ کی خطرناک وادیوں میں سفر کیا، لیکن امانت علی خاں بہت آگے نکل گیا، اسے کچھ اور دوست مل گئے، ایسے دوست جو اسے کسی لالچ یا غرض کے لیے خود دخت رز کے پاس لے جاتے اور پھر سارا سارا دن اور ساری ساری رات اس کے پیچھے سفر کرتے رہتے۔‘‘

اور اب یہ اقتباس دیکھیے:

’’امانت کے ایک عشق سے میں واقف تھا، اس کے بارے میں کبھی موڈ میں آ کر وہ باتیں بھی کیا کرتا تھا، اس روز حضوری باغ میں بیٹھے بیٹھے اس نے مجھے ہندوستان کی ایک ریاست کی مہارانی سے اپنی محبت کی داستان سنائی تھی، امانت وہاں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے گیا تھا کہ مہارانی اس پر عاشق ہو گئی، اس نے امانت کو اپنے پاس رکھنے کے ہزار جتن کیے مگر امانت لاہور سے جدا نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ واپس آ گیا اور مہارانی جھروکے سے اسے دیکھتی رہ گئی۔

اس کی آنکھوں میں بڑی زبردست کشش تھی، ایسا لگتا تھا جیسے کسی ناگن کو ہرنی کی آنکھیں لگ گئی ہیں۔ ایسی خوبصورت گردن میں نے کبھی نہیں دیکھی، اس محل میں پہلی بار خود پر کسی شہزادے کا گمان ہوا تھا، لیکن میں شہزادہ نہیں تھا، میں ایک فنکار تھا اور مسلمان تھا۔ میں شاہی محل میں رہ کر سوائے اس کے کہ کسی سنگین سازش کا شکار ہو جاتا اور کچھ نہیں کر سکتا تھا۔‘‘ پھر اس نے گہرا سانس بھرا اور سگریٹ کی راکھ اندھیرے میں گھاس پر جھاڑتے ہوئے بولا: ’’مہارانی کے گرم سانسوں کی مہک آج بھی بہت یاد آتی ہے، حیرت انگیز عورت تھی، کسی وقت مجھے احساس ہوتا تھا کہ ناگن عورت بن گئی ہے اور مجھے سانپ بنا کر اپنے پاس رکھ لے گی۔

 وہ بڑا عجیب سا پرفیوم لگاتی تھی، ایسی خوشبو میں نے پہلے کبھی نہیں سونگھی تھی، یہ خوشبو اس سے پہلے میرے کمرے میں آتی تھی، میں سمجھ جاتا تھا کہ مہارانی آ رہی ہے، جب وہ جاتی تو میرا کمرہ صبح تک مہارانی کی خوشبو سے مہکتا رہتا، جس روز ہم لوگ وہاں سے چلے مہارانی اداس تھی، اس روز اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ مجھے کبھی نہیں بھلا سکے گی، مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے عشق میں مہارانیوں جیسا رکھ رکھاؤ تھا اور وقار بھی تھا۔ شاید اندر ہی اندر محبت میں سلگ رہی تھی، مگر کیا مجال جو ہونٹوں پر درد کا ہلکا سا احساس بھی ظاہر ہو جائے۔ ہماری گاڑی محل کے عقب سے ہو کر گزری تو محل کے سب سے اوپر والے جھروکے میں مجھے اس کی شکل نظر آئی، قیمتی چوکٹھے میں ایک اداس تصویر جڑی ہوئی تھی۔‘‘

’’کیا تمہیں مہارانی اب بھی یاد آتی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ظاہر ہے ایسے خوبصورت عظیم الشان عشق کو کون بھول سکتا ہے۔ یہ عشق تو ایک عظمت کا احساس بیدار کرتا ہے، شخصیت کو بلند سے بلند تر کرتا ہے، انسان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بلند ہو جاتا ہے، مگر اس میں ایک خرابی بھی ہے، آدمی اپنے ماحول سے اکھڑ جاتا ہے، مہارانیوں سے عشق کرنے کے لیے شہزادہ ہونا بہت ضروری ہے۔

میں نے مسکرا کر کہا ’’ میرا خیال ہے تم بھی شہزادے ہو۔‘‘

امانت بولا: ’’ گھر والے بھی یہی کہتے ہیں، لیکن ماں باپ کے کہنے سے کوئی شہزادہ نہیں بن جاتا، میری طرف ہی دیکھ لو، لوگ مجھے شہزادہ ضرور کہتے ہیں مگر شہزادے کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے۔‘‘

اس کی مے نوشی نے بڑے پراسرار مقامات تلاش کر رکھے تھے، ایک بار وہ مجھے آدھی رات فاروق گنج کے علاقے میں ایک ایسے مکان میں لے گیا جہاں ایک تھانیدار پوری وردی میں بیٹھا جوا کھیل رہا تھا۔‘‘ہم کافی دیر حضوری باغ میں بیٹھے باتیں کرتے رہے، واپسی میں ہم چوک میں سے گزرے تو امانت باتیں کرتے کرتے خاموش ہوگیا۔ ایک محل یہاں بھی تھا۔ ایک مہارانی یہاں بھی جھروکے میں اداس آنکھوں سے کسی کی راہ دیکھ رہی تھی، وقت گزرتا چلا گیا، امانت علی خاں ایک فنکار کی حیثیت سے مستحکم ہوتا چلا گیا، افغانستان کے ہر جشن میں وہ اپنا لوہا منوا کر آتا تھا، دونوں بھائیوں کا گانا شباب پر تھا، ایسا تیار گاتے کہ محفل تڑپ جاتی۔

خان صاحب اختر حسین کو اپنے ہونہار بیٹوں یعنی امانت علی خاں اور فتح علی خاں کا بہت خیال تھا، وہ چھڑی لے کر بیٹھ جاتے اور انھیں اپنے سامنے ریاض کراتے، اگر یہ کوئی غلط سُر لگاتے تو پھر چھڑی سے ان کی مرمت کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے، دونوں بھائی اپنے والد صاحب کا بہت احترام کرتے تھے اور ان سے ڈرتے بھی تھے۔

امانت سے یہ میری آخری ملاقات ہوگی، مجھے نہیں معلوم تھا اب اس کی صحت کافی خراب ہو چکی تھی، اس کے بعد امانت علی خاں کے انتقال کی خبر آئی، آج بھی سوچتا ہوں کہ شاید وہ کبھی اسٹوڈیو میں کسی غزل کی طرز بنانے گیا ہے۔ پہلے جب وہ ابن انشا کی غزل گاتا تھا تو ابن انشا یاد آتا تھا، اب یہی غزل جب ٹیلی وژن پر امانت کو گاتے دیکھتا ہوں تو ابن انشا کے ساتھ امانت بھی یاد آتا ہے۔

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو

اس شہر میں جی کو لگانا کیا؟

زندگی میں اچھے دوست بھی ملتے ہیں اور ایسے دوست بھی ملتے ہیں جو دوستی کے پردے میں دشمنی کرتے ہیں، پھر وہ اپنی پسند کے زہر کا انتخاب کرتا ہے، شاید امانت نے بھی اپنی پسند کے زہر کا انتخاب کر لیا تھا، قدرت اس سفر میں بھی اس کا ساتھ دے رہی تھی اور وہ اس کی مسافت کم سے کم کر رہی تھی، ہمارے پاس بس اس کی یادیں ہی رہ گئی ہیں۔ بجھتی ہوئی شمع کے دھوئیں کی طرح، تاریک اور سیاہ پوش یادیں، جس میں امانت علی خاں کا خوبصورت مسکراتا چہرہ جو چاند کی طرح چمکتا ہے اور پھر نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات