27 C
Lahore
Thursday, July 17, 2025
ہومغزہ لہو لہودہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن معرکہ ناگزیر

دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن معرکہ ناگزیر


ہمارا کھلا دشمن بھارت مکار بھی ہے، عیار بھی ہے، کم ظرف بھی ہے اور سفاک بھی ہے۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں کا خون بہانا اس کا مشغلہ ہے۔ معرکہ حق میں عبرتناک شکست کے بعد وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے سفاکیت میں حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس ذلت بھری شکست کے بعد وہ اپنے زخم چاٹ رہا ہے، بدلے کی آگ اس کے اندر سلگ رہی ہے، مگر پاکستانی جنگی جہازوں اور میزائلوں کی آوازیں بھارتی حکمرانوں کو سونے نہیں دیتی۔ میدان جنگ ہو یا سفارتی محاذہر جگہ دشمن کو خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس خفت کو مٹانے کے لیے بھارت نے اپنی پراکسیز کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی تیز کردی ہے جس کے نتیجے میں فتنہ خوارج بھارت کے اسلامی جمہوریہ پاکستان پر حملوں میں منظم منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ اس گٹھ جوڑ کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ حضور ﷺ نے غیر مسلموں سے معاہدہ کیا تھا لیکن وہ آدھا سچ چھپاتے ہیں کیونکہ کہ رسول اللہﷺ نے کافروں پر حملوں کے لیے دوسرے غیر مسلموں سے معاہدہ کیا تھا جب کہ فتنہ الخوارج نے پاکستان کے 25 کروڑ مسلمانوں کے خلاف ہندوستان کے مشرکوں سے معاہدہ کیا ہے جو ناجائز اور حرام ہے بلکہ اس بیان کے بعد وہ حضور ﷺ کی اس حدیث مبارکہ کا واضح مصداق بن گیا “جو مسلمانوں کو قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میں نے ان کا دور پایا توانھیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کردوں گا”۔ (بخاری شریف :7432)

حضور اکرم ﷺ نے ساری زندگی جو بھی معاہدے کیے وہ اس مقصد کے لیے تھے کہ مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ حضور اکرم ﷺ نے نعوذباللہ کبھی کسی بھی مسلمان کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی سے کوئی معاہدہ نہیں کیا جب کہ یہ لوگ تو مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں سے معاہدے کر رہے ہیں۔

پاکستان کے ہزاروں مفتیان کرام فتویٰ دے چکے ہیں کہ فتنہ الخوارج سے تعلق رکھنے والے اور پاکستان پر حملہ کرنے والے لوگ باغی ہیں اور ان کے خلاف جہاد واجب ہے۔ جب کہ فتنہ الخوارج نے ریاست پاکستان اور پاکستانی قوم کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ہے یہ اعلان ایک ایسا سنگین جرم ہے جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے، نہ اخلاقی طور پر درست ہے، نہ ہی دنیا کے رائج قوانین اسے درست سمجھتے ہیں۔ اس اعلان کے بعد فتنہ خوارج نے سیکیورٹی فورسز‘ علماء اور نہتے عوام پر حملے تیز کر دیے ہیں۔ 11 جولائی کو ضلع باجوڑ میں فتنہ خوارج نے خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما مولانا خان زیب پر حملہ کیا جس میں مولانا خان زیب موقع پر ہی شہید ہوگئے۔

فائرنگ سے گاڑی میں موجود ان کا ایک ساتھی بھی جان کی بازی ہار گیا جب کہ تین افراد زخمی ہوئے۔ پتہ نہیں ان ظالموں نے مولانا خان زیب کے بچوں کی دل خراش اور عرش کو لرزانے والی چیخیں سنی بھی کہ نہیں، مگر اس نے پوری امت کو رولایا ہوگا۔ حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے، دن دیہاڑے دیدہ دلیری سے باجوڑ کے مصروف علاقے میں انھوں نے یہ دہشت گردی کی اندوہناک واردات انجام دی اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

مولانا خان زیب عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری برائے مذہبی اموراور گزشتہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی سیٹ کے لیے امیدوار تھے۔ وہ سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ مصنف اور پشتو کے شاعر بھی تھے۔ مولانا خان زیب امن کے داعی تھے ان کی شہادت سے صرف اے این پی کو نقصان نہیں ہوا بلکہ پورے صوبے کو نقصان ہوا ہے، کیونکہ یہ حملہ مولانا پر نہیں بلکہ امن پر حملہ تھا۔ مولانا علمی اور دینی دلائل سے دہشت گردی کا مقابلہ کرتے تھے۔ نامساعد حالات کے باوجود وہ دہشت گردوں کے آگے چٹان کی طرح کھڑے ہوئے تھے لیکن دہشت گردوں نے مولانا خان زیب جیسی توانا آواز کو خاموش کر دیا۔

11 جولائی کو بھارتی سپانسرڈ دہشت گردوں نے خیبر پختونخوا کے بعد بلوچستان کو بھی خون میں نہلایا۔ ضلع ژوب میں فتنہ الہندوستان کے درندوں نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا۔ ان مسافروں کو بلوچستان سے پنجاب جانے والی دو مسافر بسوں سے اتارا گیا اور یہ واقعہ سرہ ڈاکئی نامی علاقے میں کوئٹہ کو ڈیرہ غازی خان سے ملانے والی قومی شاہراہ پر پیش آیا، جہاں مسلح دہشت گردوں نے ناکہ بندی کر رکھی تھی۔شہید ہونے والے مسافروں میں عثمان نذیر اور جابر نذیر نامی دو سگے بھائی بھی شامل ہیں، یہ دونوں اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لیے دنیا پور آرہے تھے کہ راستے میں انھیں بھی بے دردی سے شہید کردیا گیا۔

اس اندوہناک سانحہ میں ایک اور شہید غلام سعید کا تعلق میاں چنوں سے تھا، جس کا جسد خاکی اس کے گھر پہنچا تو بیٹے کی لاش دیکھ کر والدہ بھی دم توڑ گئی۔ اسلام، پاکستان اور انسانیت کے دشمن درندوں نے کتنے خاندانوں کو جیتے جی مار دیا۔ فتنہ الہندوستان کے درندے ذرا سوچیں! اس ماں نے اپنے پروردگار کے دربار میں اپنی بے بسی کا مقدمہ کتنے دردناک انداز میں پیش کیا ہوگا اور منتقم اللہ ان ظالموں کا کیا حشر کرے گا۔

ان دونوں واقعات سے قبل 10 جون کو جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بیٹے مولانا اسجد محمود کے ساتھ بھی ایک گھناؤنی واردات کی کوشش کی گئی، مولانا اسجد محمود ڈیرہ اسماعیل خان سے لکی مروت جارہے تھے کہ موٹر وے پر 40 سے 50 دہشت گردوں نے انھیں اغوا کرنے کی کوشش کی۔ دہشت گرد مسلح تھے، جب مولانا اسجد محمود کے محافظوں نے بھی بندوقیں نکالیں تو اغوا کرنے والوں نے راکٹ لانچر نکال لیا۔

اللہ کریم نے خاص فضل کیا اور اس واردات میں مولانا اسجد محمود محفوظ رہے۔ اس واقعہ پر مولانا نے جب بھی لب کشائی کی صرف اتنا کہا کہ اس ملک کا ہر بچہ میرے لیے اسجد ہے اور ہر اسجد کو اس ملک میں آزاد رہنے کا حق دلانا ریاست کی ذمے داری ہے مگر افسوس کہ ریاست اس معاملے میں بے بس نظر آرہی ہے۔ اس واقعہ کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پر گئے اور مولانا اسجد محمود پر ہونے والے حملے پر تشویش کا اظہار کیا، انھوں نے دہشت گردوں کی فوری گرفتاری کے لیے احکامات بھی جاری کیے مگر ہوا کچھ نہیں، اب وہ وزیراعظم ہاؤس میں دہشت گردی کے اگلے واقعہ پر مذمتی بیان جاری کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوںگے مگر کیا ان کا حل صرف مذمتی بیانات ہیں؟

معرکہ حق کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آئی ہے، بھارتی سپانسرڈ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور اس قماش کی دیگر دہشت گرد تنظیمیں آگ اور خون کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ معصوم اور بے گناہ شہری ان کی دہشت گردی کا شکار بن رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بھارت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول اور جنرل بکرم سنگھ کے بیانات خود اقرار جرم ہیں اور اسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ بھارت کی دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اجیت دوول بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کاکار خاص اور پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کا منصوبہ ساز ہے جب کہ جنرل بکرم سنگھ بھارت کا سابق چیف آف آرمی اسٹاف رہا ہے۔ بھارت کا فتنہ خوارج اور فتنہ الہندوستان سے یہ گٹھ جوڑ یقیناً اجیت دوول کی سوچ کا شاہکار ہوگا۔ امریکا میں مقیم سکھ لیڈر گرپت سنگھ نے جعفر ایکسپریس حملے کا ذمے دار بھارت اور خصوصاً اجیت دوول کو قرار دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں مودی کی”موذی” حکومت کی اندرونی گھناؤنی سیاست کا ذمے دار امیت شا ہے اور بیرونی دہشت گردانہ کارروائیوں کا انچارج اجیت دوول ہے۔ پاکستان کو اپنے ان کھلے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی کو موثر اور جاندار بنانا ہوگا۔ چاہے ایک بارپھر ان کے گھر میں گھس کر ان کو مارنا پڑے، کیونکہ ہم مزید سانحات برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمارے عوام محفوظ ہیں نہ علماء، اس لیے دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن معرکہ ناگزیر ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات