ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر پر خطے میں سب سے زیادہ ٹیکسز پاکستان میں ہیں۔
اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ پاکستان فور جی کی ترویج اور فائیو جی اسپیکٹرم کے اجرا میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر پر خطے میں سب سے زیادہ ٹیکسز پاکستان میں ہیں۔ فائبر آپٹک انفرا اسٹرکچر میں فوری توسیع درکار ہے جب کہ خواتین اور غریب طبقے کے لیے انٹرنیٹ ڈیوائسز خریدنا اب بھی بڑا چیلنج ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان میں ڈیجیٹل ایکو سسٹم پر تجزیاتی رپورٹ جاری کردی ہےجس میں بتایا گیا ہے کہ رپورٹ کے اجرا کا مقصد پاکستان کے ڈیجیٹل شعبے کا جامع تجزیہ فراہم کرنا ہے تاکہ پالیسی سازوں اور اسٹیک ہولڈرز کو مؤثر فیصلے کرنے میں مدد ملے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ٹیلی کمیونیکیشن مارکیٹ کا حجم 4 ارب 52 کروڑ ڈالر ہے جو 2029 تک بڑھ کر 5ارب 32 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گا، مگر گزشتہ 5 سال کے دوران ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر اور نیٹ ورک اپ گریڈ میں سرمایہ کاری کم ترین رہی،جس کی وجہ مسلسل سیاسی عدم استحکام تھی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیاہے کہ حکومت نے تھری جی اسپیکٹرم میں کوئی اخراجات نہیں کیے جب کہ دنیا کے 101 ملکوں میں کمرشل فائیو جی سروسز شروع ہو چکی ہے اور پاکستان فور جی کی ترویج اور فائیو جی اسپیکٹرم کے اجرا میں بہت پیچھے ہے۔
اے ڈی بھی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ڈیجیٹل سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ صرف 1.5 فیصد ہے۔ اس سیکٹر میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں فکسڈ براڈ بینڈ رسائی صرف 1.3 فیصد ہے۔ پاکستان میں اس وقت فائبر نیٹ ورک کی رسائی بہت کم ہے۔ فائبر آپٹک انفراسٹرکچر میں فوری توسیع درکار ہے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین اور غریب طبقے کے لیے انٹرنیٹ ڈیوائسز خریدنا اب بھی بڑا چیلنج ہے۔ 80 فیصد آبادی کو موبائل انٹرنیٹ کی رسائی ہے مگر استعمال کم ہے۔ پاکستان میں 86 فیصد مردوں اور 53 فیصد خواتین کے پاس موبائل ہیں، 53 فیصد مردوں اور 33 فیصد خواتین کو انٹرنیٹ تک رسائی ہے۔