جون کے پہلے ہفتے میں پشاور یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ کا گروپ سیر و سیاحت کے لیے نتھیا گلی گیا۔ رات کے کھانے پر دو ذہین طلباء نے پروفیسر صاحب سے پوچھا’’سر،اس بار پھر ہمارے ہیرو ارشد ندیم نے گولڈ میڈل جیتا ہے مگر اسے اتنی پذیرائی نہیں ملی۔
عوام نے بھی اتنی excitement کا مظاہرہ نہیں کیا۔اس کی کیا وجہ ہے؟’’ پروفیسر صاحب نے تھوڑے سے توقف کے بعد جواب دیا ’’وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں قوم ایک بہت بڑی کامیابی اور فتح سے سرشار ہوئی ہے جس کے سامنے کھیل میں کامیابی کی کوئی وقعت نہیں۔جب ارشد ورلڈ چیمپئین بنا تھا، اُس وقت قوم کو بڑی مدّت کے بعد ایک اچھی خبر ملی تھی، ورنہ پاکستان کے بارے میں ہر طرف سے منفی خبریں ہی سننے کو مل رہی تھیں۔اس وقت پوری قوم کسی ایسی خبر کے لیے ترسی ہوئی تھی جس سے ملک کے وقار میں اضافہ ہو اور وہ موقع ارشد ندیم کی جیت نے فراہم کردیا، جسے پوری قوم نے جی بھر کر Celebrateکیا۔ مگر اب ہندوستان کے ساتھ چار روزہ جنگ نے صورتحال یکسر تبدیل کردی ہے۔
پاکستان کی افواج خصوصاً ائیر فورس نے پانچ گنا بڑے ملک کو واضح شکست دے کر قوم کو جس فتح سے ہمکنار کیا ہے، اس کا تو صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا تھا۔قوم کے خواب کو حقیقت میں بدلنے والے اصل ہیروز کا کارنامہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے سامنے کسی کھیل کی کامیابی کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کارنامے سے نہ صرف پاکستان کا امیج اور مقام بہت بلند ہوا ہے بلکہ ہر اہم ملک کا ہمارے ساتھ طرزِ عمل تبدیل ہوگیا ہے۔
کھیلوں میں تو بہت چھوٹے ملک بھی ورلڈ چیمپئن بن جاتے ہیں۔اس سے عالمی برادری میں اس ملک کی عزت اور وقار میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔پھر جو ملک ایک بار جیتے وہ اگلی بار ہار بھی جاتا ہے۔لہٰذا کھیل میں ہار جیت کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یاد رکھیں اصل ہیرو وہ ہوتے ہیں جو قوموں کو آزادی جیسی نعمت اور جو اپنی آزادی کی، اپنے ملک کی، اپنے نظرئیے اور اپنے دین کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنی جانیں تک قربان کردیتے ہیں‘‘۔
پروفیسر صاحب کی بات درست ہے۔ بلاشبہ قوم کے اصلی تے وڈے ہیرو وہی ہوتے ہیں جو وطن کا دفاع کرتے ہوئے جانیں دیتے ہیں یا پھروہ جو شہریوں کی جان اور مال کا تحفظ کرتے ہیںہوئے جاں سے گزر جاتے ہیں۔کھیل تو ایکentertainment ہے اور کھلاڑی اور فلمی اداکار ہیرو نہیں entertainers ہوتے ہیں۔ اب چونکہ قوم اصلی ہیروز کے تاریخی کارنامے سے سرشار ہے،اس لیے کھیلوں کی کامیابی کو زیادہ اہمیت نہیں مل سکتی۔
کہنے کو تو فلمی اداکاروں کو بھی ہیرو اور ہیروئن کہا جاتا ہے، مگر وہ نقلی اور جعلی ہیرو ہوتے ہیں۔ وہ ڈرامے میں ہیرو کا کردار ادا کرنے کی اداکاری کرتے ہیں اس کے لیے وہ رائٹر کے لکھے ہوئے ڈائیلاگ رٹ لیتے ہیں اور کئی بار ریہرسل کرنے کے بعد ان کی ایکٹنگ کو فلمایا جاتا ہے۔ اگر ان اداکاروں میں سے کچھ کی اداکاری، ناظرین کو بھا جائے تو وہ بھی پسندیدہ سیلبریٹی بن جاتے ہیں مگر ان کا اصلی ہیروز سے کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
کچھ سال پہلے مجھے ہندوستان جانے کا اتفاق ہوا، بھارت میں قیام کے دوران ایک دن ہمیں میزبانوں کی جانب سے پیشکش ہوئی کہ ’’اگر آپ چاہیں تو آپ کی ملاقات مشہور فلمی ہیروز شاہ رُخ خان ، سلمان خان یا امیتابھ بچن سے کرائی جاسکتی ہے‘‘ ہم نے کہا’’بچوں کو اداکاروں سے ملنے کا شوق ہوتا ہے، ہمیں تو بالکل بھی نہیں۔ فلمی اداکار کوئی زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے، مکالمے رَٹ کر بول دیتے ہیں، اس لیے ان کی گفتگو جعلی اور سطحی قسم کی ہوتی ہے۔
ان کی نسبت ہم کسی دانشور، رائٹر، دیانتدار سول سرونٹ، سوشل ریفارمر، کسی بہادر پولیس افسر یا باضمیر صحافی سے ملنے کو ترجیح دیں گے۔ ایسے لوگوں کے پاس علم بھی ہوتا ہے، فلسفہ بھی اور پیغام بھی‘‘۔ فلمی اداکار انڈیا کے ہوں یا پاکستان کے وہ صرف entertainer ہیں۔ انسان ذہنی طور پر تھکا ہوا ہو تو entertainmnent کے لیے انھیں اسکرین پر دیکھ سکتا ہے، اس سے زیادہ ان کے ساتھ رابطے کی ہرگز خواہش نہیں ہوتی ہے۔
کئی سال پہلے جب میں لاہور میں تعیّنات تھا اسی طرح کے ایک ’’دبنگ ہیرو‘‘ کو کسی کیس کے سلسلے میں لاہور پولیس نے بلالیا تو ایس پی آفس میں آتے ہی اس نے زاروقطار رونا شروع کردیا۔ ایک پولیس افسر نے کہا ’’تم تو اکیلے درجنوں پولیس والوں کو ماردیتے ہو، مگر یہاں تمہارا یہ حال ہے؟‘‘ ہاتھ باندھ کر کہنے لگا’’ سر جی وہ سب نقلی ہوتا ہے، میں تو چڑیا بھی نہیں مارسکتا‘‘ایسے ’’دبنگ ہیرو‘‘ جن ’’ کارناموں‘‘ کی وجہ سے عوام میں مقبول ہوجاتے ہیں،وہ سب نقلی اور جعلی ہوتے ہیں۔
آرٹ کی اہمیّت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، مگر جو لوگ آرٹ کو ایک پیشے کے طور پر اختیار کرتے ہیں، وہ یہ کام مالی مفاد کی خاطر کرتے ہیں، جو پروڈیوسر زیادہ پیسوں کی پیشکش کرے یہ اس کے ساتھ معاہدہ کرلیتے ہیں۔ اگر دشمن ملک کے کسی فلمساز کی طرف سے اور زیادہ پیسوں کی آفر آجائے تو یہ اُدھر بھاگ جاتے ہیں۔
جس طرح پاکستان کے بہت سے اداکار اور اداکارائیں بھارت جاکر کام کرتی رہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ بڑی تقریبات میں ایسے فقرے بھی بولتے رہے کہ ’’فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی‘‘ یعنی کہ ہم پر صرف ایک ملک کا لیبل نہ لگائیں، ہم سب کے لیے ایک جیسے ہیں اور ہمارے لیے بھی سارے ملک ایک جیسے ہیں۔ ایک بار بھار ت میں جب اسی قسم کے فقروں کی تکرار ہوتی رہی تو پاکستان سے گئے ہوئے معروف شاعر سیّد ضمیر جعفری کھڑے ہوگئے اور انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ’’فن کی سرحد نہیں ہوتی مگر فنکار کی سرحد بھی ہوتی ہے اور ملک بھی ہوتا ہے۔ جو فنکار ملک کا وفادار نہیں وہ دھوبی کے کتّے کی طرح نہ گھر کا رہتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔‘‘
پاکستان کے بہت سے اداکار اور گلوکار بھارت جاتے رہے، اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا انھیں پورا حق ہے مگر وہ چند ٹکوں کی خاطر ایسی باتیں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے رہے جو ان کے ملک کے قیام اور اس کے نظریات کے خلاف ہوتی تھیں۔ ان میں کئی لوگ ہندو توا کے پیروکاروں کے ہاتھوں ذلیل بھی ہوئے اور تشدّد کا نشانہ بھی بنتے رہے۔ کیا ایسے افراد کو قومی ہیرو کہا جاسکتا ہے؟ ھرگز نہیں۔
بانیٔ پاکستان کی یہ بات سو فیصد درست ثابت ہوئی ہے کہ ’’ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان ساری عمر اپنی وفاداری ثابت کرنے میں ہی لگے رہیں گے‘‘ ہندوستان میں وہ اداکار جن کے نام مسلمانوں جیسے ہیں، وہ اب اپنا مسلم تشخّص کھوچکے ہیں، وہ اپنی بقاء کے لیے ہر وقت اپنے آپ کو اسلام سے لاتعلّق اور پاکستان کا دشمن ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ وہاں ٹی وی کے پروگرام ’آپ کی عدالت میں‘ کا میزبان چونکہ ہندتوا کا کٹّر کارکن ہے، اس لیے وہ ایسے اداکاروں کو اپنی ’عدالت‘ میں بار بار بلا کر ان کی وفاداری پر سوال کرتا رہتا ہے کہ جنگ کے دوران آپ نے پاکستان کو گالیاں نہیں دیں۔ اس لیے عوام آپ کی وفاداری پر شک کرتے ہیں۔
عدنان سمیع کو اس پروگرام میں مادرِ وطن کے خلاف جھوٹ بولتے ہوئے شرم آنی چاہیے تھی۔ کھلاڑیوں کا تو اداکاروں سے بھی برا حال ہے، وہ تو پیسوں کی خاطر میچ تک ہار جاتے ہیں۔ آجکل پیشہ ور کھلاڑی ملک کے لیے نہیں صرف پیسوں کے لیے کھیلتے ہیں۔ جو ملک اور جو تنظیم انھیں زیادہ پیسے دے دے یہ ’’ملک سے محبّت‘‘ کا چوغا پھینک کر اور پاکستانی پرچم والی ٹوپی اتار کر ان کی ٹیم میں جا شامل ہوتے ہیں۔ اگر ہم کرکٹ کی بات کریں تو ڈھائی سو ملکوں میں کرکٹ کھیلنے والے ملکوں کی تعداد بارہ تیرہ سے زیادہ نہیں ہے۔ بارہ ملکوں میں سے کبھی کوئی ایک ملک جیت جاتا ہے اور کبھی کوئی دوسرا ملک ٹرافی لے اڑتا ہے، مگر اس سے چیمئین ملک کی اسٹینڈنگ میں یا دنیا میں اس کی عزّت و احترام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہم نے ایک سونے کا تمغہ جیتنے پر ارشد ندیم پر کروڑوں روپے کے انعامات نچھاور کردیے اور کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے پر کپتان صاحب کے پورے ملک میں جلوس نکالے۔ بہت سے بڑے ملک سونے کے درجنوں تمغے جیتتے ہیں مگر وہاں ہماری طرح یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ اس ٹیم نے کپ جیت لیا ہے لہٰذا اب اس ٹیم کے کپتان کو پوری قوم کا راہنما قرار دیکر ملک کا انتظام و انصرام ہی اس کے حوالے کردیا جائے۔ ایسی حرکتیں صرف ہماری جیسی جذباتی قومیں ہی کرتی ہیں اور پھر سالہا سال تک اس کے خوفناک نتائج بھگتتی رہتی ہیں۔
دنیا بھر میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ملک کا دفاع کرنے کے مقدّس مشن کی تکمیل میں جان قربان کرنے والے سب سے بڑے ہیرو سمجھے جاتے ہیں۔ وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے یا شہریوں کی جان اور مال کا تخفّظ کرتے ہوئے اپنی جان دینے والے قوم کے اصلی ہیرو ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ مشنری جذبے کے ساتھ طلباء کی کردار سازی کرنے والے استاد، قوم کو آزادی اور خودداری کے جذبوں سے سرشار کرنے والے شاعر، ملک کا دفاع مضبوط کرنے والے سائنسدان، ایماندار سول سرونٹس، حقائق کو بے نقاب کرنے والے باضمیر صحافی، لوگوں کو پیغام اِلہٰی سے روشناس کرانے والے باعمل علماء اور اپنے ہاتھوں سے رزقِ حلال کمانے والے کسان اور مزدور بھی قومی ہیرو ہیں۔ کھیلوں میں تمغے جیتنے والے صرف اسپورٹس ہیرو کہلاتے ہیں اور فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے والے تو نقلی اور جعلی ہیرو ہوتے ہیں۔