ہر ایک کو اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے لیکن ایک مخصوص طبقے کی جانب سے سوشل میڈیا پر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا لوگوں کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے اور جاری تاریخ کو متنازع بنانے کی مذموم کوشش ہے جو ان کے بھونڈے نظریات کا عکاس ہے۔
یہی کچھ پاکستان پر بھارتی جنگ مسلط کرتے وقت اور پاکستان کی جیت کے وقت کیا گیا اور اسی طرح جب ایران پر اسرائیل نے جنگ مسلط کی تو ایران کی جیت پر بھی نامناسب تبصرے کیے۔ یعنی پاکستان اور ایران کی جیت ان کو ہضم نہیں ہورہی ہے، ان کے پیٹ میں شدید مروڑ ہو رہا ہے، جس کا علاج حکیم لقمان کے بھی پاس نہیں۔
ان دنوں سوشل میڈیا پر ایران کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے، لیکن برطانیہ اور امریکا کے لاڈلے اسرائیل کے متعلق یہ طبقے اندھے، بہرے اورگونگے نظر آتے ہیں۔ اسرائیل کتنا شریف ہے ؟ کتنا معصوم ہے ؟ اس پر رائے زنی ضرورت نہیں؟
آخر اسرائیل کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ایران پر جنگ مسلط کرے ؟ اس کی حکومت میں تبدیلی لانے کی کوشش کرے؟ اس کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرے ؟ دنیا جانتی ہے اسرائیل نے امریکی اشارے پر ایران پر جنگ مسلط کی تاکہ ایران جنگ سے گھبرا کر اپنا نیوکلئیر پروگرام ختم کرے اور ایران ہارے ہوئے جواری کی طرح مذاکرات کی میز پر بیٹھے، تاکہ اس سے من پسند فیصلے کرائے جائیں۔ سوچو، جب کہ ایک طرف امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات جاری تھے تو دوسری طرف اسرائیل نے ایران پر جنگ مسلط کردی۔
امن بھی ہو اور جنگ بھی رہے
کیا یہ ممکن ہے تمہی کہو
اور اسی دوران ایران میں خانہ جنگی کرا کر اسے غیر مستحکم کرتے ہوئے وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت بنانے کا منصوبہ بھی تھا لیکن ایرانی میزائلوں نے اسرائیل کا بیڑا غرق کر دیا اور تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اب دنیا تبدیل ہوچکی ہے۔ پہ در پے امریکا کا جنگی فارمولا ناکام ہو رہا ہے۔ اس کا سپر پاور ہونا قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔ نئی طاقتوں کی صف بندی ہوگئی ہے، اب دنیا کو امن کی طرف بڑھانا ہے۔
اب کسی کی بدمعاشی اورکسی کی دہشت گردی نہیں چلنے والی اور نہ ہی جھوٹے پروپیگنڈے کام آنے والے ہیں۔ جنگوں کے طور طریقے بدل چکے ہیں، اب چند گھنٹوں میں جنگوں کے فیصلے ہوجاتے ہیں۔
یہ کھلا راز دنیا پر عیاں ہے کہ پاکستان پر بھارتی جنگ بھی امریکا کے اشارے پر مسلط کی گئی جب بھارت کو مار پڑنی شروع ہوئی تو امریکا امن کا پیامبر بن گیا۔ اسی طرح اسرائیل کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کی گئی جب اسرائیل نے ایران کے ہاتھوں تاریخی مارکھائی تو یہاں بھی امریکا جو اس جنگ میں شریک تھا، اچانک امن کا پیامبر بن گیا۔ یہ سب منافقانہ عمل دنیا کے سامنے ہے۔
مگر نام نہاد امن پسند طبقہ اس پر بہرا،گونگا اور اندھا بنا ہوا ہے اور اپنی مخصوص ذہنیت، مسلم دشمنی پر ڈٹے نظر آتے ہیں اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے اپنی باطل نظریات کو آشکار کررہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ وہ دنیا کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ ان کی یہ حرکات ان کے باطل کو بے نقاب کر رہے ہیں مگر ان کو اس بات کی سمجھ نہیں ہے، اگر ان کو سمجھ ہوتی تو وہ ایسے فضول نظریات نہ رکھتے۔
یہ بات تو دنیا پر واضح ہے کہ گزشتہ تین عشروں سے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک۔ نو ممالک پر حملہ آور ہوچکے ہیں جہاں لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا، ان کی املاک کو تباہ و برباد کیا گیا، ان کے وسائل پر قبضے کیے گئے اور وہاں اپنی کٹھ پتلیاں حکومتیں قائم کی گئیں اور دنیا میں امن کا نام و نشان مٹا دیا گیا اور یہ سلسلہ اب فلسطین سے ہوتا ہوا پاکستان اور ایران تک پہنچ گیا ہے، ان تمام مراحل میں وہ طبقہ خاموش تماشائی بنا رہا اور اب بھی خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں جو اپنے نظریات کو امن پسندی قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اصل میں یہ طبقہ امریکا، یورپ، بھارت اور اسرائیل کے اشاروں پر ناچنے والے ہیں، جن کا کام جھوٹے پروپیگنڈے کرنا ہوتا ہے، اور اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ان کی عالمی دہشت گردی کو سپورٹ کرنا ان کی ڈیوٹی ہے۔ پاکستان بھارت جنگ اور ایران و اسرائیل جنگ کے دوران اور بعد میں یعنی اب بھی سوشل میڈیا پر ان کا کردار واضح ہے، جو صاف چھپتے بھی نہیں اور نظر آتے بھی نہیں۔
جہاں تک امن کے نوبل انعام کا تعلق ہے، اس کی نہ پہلے اہمیت رہی ہے اور نہ اب اس کی کوئی توقیر ہے اور نہ آیندہ اس کی کوئی قدر ہوگی۔ یہ ایوارڈ انھیں دیا جاتا رہا ہے جو عالمی سامراج کے ایجنڈوں کے معاون رہے تھے اور اب بھی یہی کیا جا رہا ہے۔
الغرض یہ کہ نوبل امن کا نام نہاد ایوارڈزکا اجرا عالمی سامراج کا جاری کردہ ہے اور اس ایوارڈز کے حمایتی بھی جانے انجانے میں یا کسی مجبوری کے تحت اسی کھیل کا حصہ بنادیے گئے ہیں یا بن گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس نام نہاد نوبل امن ایوارڈ سے لیاری کے فٹبالرز بچوں کو ملنے والی ٹرافی لاکھ درجہ اہمیت رکھتی ہے۔
اس وقت دنیا کا المیہ یہ ہے کہ جو عالمی دہشت گرد ممالک ہیں وہ خود جارحیت کرتے ہیں، خود ثالثی بنتے ہیں اور خود منصف بنتے ہیں، جس کا نظارہ حالیہ پاکستان و بھارت اور ایران و اسرائیل جنگ میں دیکھ چکے ہیں اور دیکھا جا رہا ہے جو بلا تبصرہ ہے، اس کے باجود کوئی بحث کرتا ہے تو اللہ اسے عقل سلیم عطا فرمائے۔
ذرا سوچیں، غور و فکرکریں، اگر انسانیت کا درد کسی میں ہے اگر کوئی امن کا پیامبر ہے تو وہ فلسطین پر قابض اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت کا معاون کیوں بنا ہوا ہے؟ کیوں فلسطین پر اسرائیلی بمباری کو نہیں روکتے کیوں غزہ کو اسرائیل کے ہاتھوں قبرستان بنا کرکہتے ہیں کہ ’’ ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ ‘‘ کیوں اسرائیل کے بدلے میں آکر ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کیے۔ کیوں، فلسطین میں انسانیت کو دفن کر کے کہتے ہیں میں امن کا پیامبر ہوں۔
ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہوتا ہے اس وقت پوری دنیا عالمی ظالم کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ سب کے سب نام نہاد امن کی دہائی دے کر مظلوم فلسطین غزہ کے شہیدوں کی شہادت پر عملی کردار ادا نہ کرکے قہر الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلم امت میں جب اتحاد و اتفاق تھا تو اس نے دنیا میں خلافت قائم کی اور جب اس میں غدار پیدا ہوئے اور مفاد پرستوں نے جنم لیا تو مسلم امہ زوال پذیر ہوئی اور اس وقت سے لے کر آج تک امت مسلمہ اپنوں کی غداری و مفاد پرستی کی وجہ سے ذلیل و خوار ہے،کفر کے لیے ترنوالہ بنا ہوا ہے۔
دور دور تک کوئی صلاح الدین ایوبی نظر نہیں آرہا۔ اپنے مسلمان بھائیوں کی لاشوں کے انبار پرکھڑے ہوکر مسلم دشمنوں کے ساتھ رقصاں ہیں، ان کے ساتھ مل کر اپنی دولت میں مزید اضافہ کرنے کے معاہدے کررہے ہیں۔ یہی وہ چہرے ہیں، جنھیں دیکھ کر یہود بھی شرما رہے ہیں۔
ایک طرف امن کی باتیں کی جاتی ہیں، دوسری طرف دنیا کو میدان جنگ بنانے والوں کی واہ واہ کی جاتی ہے۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟ بے شک جنگ تباہی ہے لیکن یہ بھی دیکھا جائے کہ امن کے میدانوں کو کون میدان جنگ بنا رہے ہیں اورکیوں ؟ ان کے نشانے پر کون ہیں وہ کس کس کا شکار کرچکے ہیں؟ اور اگر کوئی مظلوم ملک اپنے دفاع میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو عالمی سامراجی ممالک مل کر اس ملک کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور اسے اپنا تابعدار بنایا جاتا ہے اور اگرکوئی ملک ان کے اشارے پر نہ چلے تو اسے معاشی و اقتصادی طور پر کمزورکرنے کی منصوبہ بندیاں کی جاتی ہے۔
یہی مثال ایران کی بھی ہے جو اپنی آزادی خود مختاری کے دفاع میں تن تنہا کھڑا ہے، اس پر اسرائیلی جنگ مسلط کردی لیکن ہمت نہ ہاری اینٹ کا جواب پتھر سے دیا، تب اس کے دشمنوں کے ہوش ٹھکانے آگئے اب وہ مذاکرات کی آڑ میں من پسند فیصلے کے خواہ ہیں دیکھنا یہ باقی ہے کہ ایرانی مذاکرات کی میز پر لڑی جانے والی جنگ میں فتح یاب ہوتے ہیں یا وہ تاریخ میں اوروں کی طرح تابعداری کے قائل ہوجاتے ہیں۔