’’ہم کون ہیں؟‘‘ یہ سوال اپنی سادگی کے پردے میں گہری پیچیدگیاں سمیٹے ہوئے ہے؛ ایک ایسی گتھی جو ہر فرد، ہر قبیلے اور ہر قوم کے وجود کی بنیاد ہے۔ یہ صرف ایک استفسار نہیں بلکہ ایک جستجو ہے، ایک تلاش ہے اُس نہاں خانۂ ہستی کی، جہاں ہمارا انفرادی اور اجتماعی شعور سانس لیتا ہے۔
اس سوال کو نفسیات کی گہرائیوں، سماجیات کی وسعتوں اور ریاستی نظم و نسق کی نزاکتوں میں پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ کس طرح ہماری زبان، ہماری ثقافت، ہمارے ذرائع روزگار، اور ہمارے ابلاغی پلیٹ فارم ہماری شناخت کا تانا بانا بُنتے ہیں، اور اس سب میں ریاستی کنٹرول کا کیا کردار ہوتا ہے؟
ہستی کا اضطراب: نفسیاتِ شناخت کا فلسفہ
شناخت، بنیادی طور پر فرد کے اپنے وجود کو سمجھنے کا عمل ہے۔ یہ ایک ایسی اندرونی کیفیت ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کون ہیں، ہماری اقدار کیا ہیں، اور دنیا میں ہمارا مقام کیا ہے۔
مشہور ماہرِ نفسیات ایرک ایرکسن (Erik Erikson) نے اپنی لازوال تھیوری ’’سائیکو سوشل ڈیولپمنٹ‘‘ میں شناخت کی تشکیل کو انسانی زندگی کا ایک مرکزی نقطہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک، بلوغت میں فرد کو ’’شناخت بمقابلہ کردار کے انتشار‘‘ کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، جہاں وہ اپنی ذات کی پہچان کے لیے کشمکش کرتا ہے۔ یہ کشمکش محض ذاتی نہیں بلکہ سماجی بھی ہے، کیونکہ ہم اپنی شناخت کو دوسروں کے ساتھ تعامل اور ان کے تناظر میں ہی مکمل کر پاتے ہیں۔
سماجی سطح پر، ہنری تاجفیل (Henri Tajfel) اور جان ٹرنر (John Turner) کی ’’سوشل آئیڈینٹٹی تھیوری‘‘ اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ ہماری شناخت کا ایک بڑا حصہ اُن گروہوں سے وابستہ ہوتا ہے جن سے ہم تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تعلق محض ایک رکنیت نہیں بلکہ ایک جذباتی وابستگی ہے جو ہمیں اپنے گروہ کی خصوصیات، اس کی کامیابیوں اور اس کی خامیوں سے جوڑ دیتی ہے۔ جب ہم خود کو ایک خاندان، ایک قبیلے یا ایک قوم کا حصہ سمجھتے ہیں، تو اس گروہ کا تشخص ہماری ذات میں سمو جاتا ہے۔ یہ اجتماعی شعور ہی ہماری تہذیبی اور قومی شناخت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
روحِ تہذیب: زبان اور ثقافت کا لازوال رشتہ
کسی بھی قوم کی شناخت کے بنیادی ستون اس کی ثقافت اور زبان ہیں۔ ثقافت، دراصل صدیوں کے اجتماعی تجربات، عقائد، رسم و رواج، فنون اور طرزِ زندگی کا عکس ہے۔ یہ وہ لازوال ورثہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، ایک قوم کو اس کے ماضی سے جوڑتا ہے اور اس کے حال کو مستقبل کی راہیں دکھاتا ہے۔ ثقافت ایک قوم کی پہچان کا آئینہ ہے، جس میں وہ اپنے خدوخال کو دیکھ کر اپنی انفرادیت کا احساس کرتی ہے۔
زبان، اس ثقافتی روح کا جوہر اور اظہار کا سب سے طاقتور وسیلہ ہے۔ یہ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ سوچنے، محسوس کرنے اور دنیا کو پرکھنے کا ایک منفرد زاویہ ہے۔
ماہرِ لسانیات بینجمن لی ورف (Benjamin Lee Whorf) کے نظریے ’’لنگوئسٹک ریلیٹیویٹی ہائپو تھیسس‘‘ کے مطابق، زبان صرف ہمارے خیالات کو بیان نہیں کرتی بلکہ ان کی تشکیل بھی کرتی ہے۔ مختلف زبانیں بولنے والے افراد دنیا کو مختلف تناظر میں دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنی مادری زبان سے کٹ جاتی ہے، تو وہ اپنی ثقافتی جڑوں سے بھی محروم ہوجاتی ہے اور اس کی شناخت دھندلا جاتی ہے۔
زبان کا تحفظ درحقیقت ثقافتی ورثے کا تحفظ ہے، اور اسی لیے یو این ای ایس سی او (UNESCO) جیسے عالمی ادارے لسانی تنوع کو انسانیت کا مشترکہ ورثہ قرار دیتے ہیں۔
معاشی بساط اور تشخص کا عکس
شناخت کا ایک اہم رُخ معاشی حیثیت اور ذرائع روزگار سے بھی وابستہ ہے۔ کسی قوم کا اقتصادی ڈھانچہ، اس کے افراد کے پیشے اور ان کے معاشی تعلقات اس کی اجتماعی شناخت پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔ ایک زرعی معاشرت، ایک صنعتی معاشرہ یا ایک جدید ٹیکنالوجی پر مبنی معاشرہ، ہر ایک کی اپنی مخصوص اقدار، طرزِ حیات اور سماجی حرکیات ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر، ایک زرعی معاشرے میں فطرت سے قربت، صبر اور اجتماعی محنت کو فروغ ملتا ہے۔ اس کے برعکس، ایک صنعتی معاشرت میں وقت کی پابندی، مسابقت اور کارکردگی کو اہمیت دی جاتی ہے۔
جب کسی قوم کو اس کے روایتی ذرائع معاش سے محروم کیا جاتا ہے یا اس کے لیے مناسب روزگار کے مواقع ناپید ہوجاتے ہیں، تو یہ نہ صرف معاشی بحران کو جنم دیتا ہے بلکہ اس کی اجتماعی شناخت میں بھی دراڑیں پیدا کردیتا ہے۔ بے روزگاری اور معاشی عدم استحکام افراد اور قوموں میں احساسِ محرومی اور بےگانگی پیدا کر کے ان کے تشخص کو مجروح کرسکتے ہیں۔
میڈیا کی آغوش میں شناخت کی پرورش
دورِ حاضر میں میڈیا کسی قوم کی شناخت کی تشکیل اور فروغ میں ایک بے پناہ طاقت کا حامل ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور خاص طور پر سوشل میڈیا، عوامی رائے کو متاثر کرتے ہیں، ثقافتی اقدار کو فروغ دیتے ہیں اور قومی ہیروز، روایات اور بیانیوں کو پیش کرتے ہیں۔ میڈیا درحقیقت ایک قوم کو ایک مشترکہ داستان، ایک مشترکہ تجربہ اور ایک مشترکہ وژن سے جوڑتا ہے۔
تاہم، میڈیا کا کردار ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ ایک طرف، یہ کسی قوم کی ثقافتی شناخت کو نکھار سکتا ہے اور اس کی مثبت اقدار کو اجاگر کر سکتا ہے۔ دوسری طرف، اگر میڈیا پر ریاستی کنٹرول بہت زیادہ ہو یا وہ متعصبانہ پروپیگنڈا کا شکار ہو جائے، تو یہ شناخت کو مسخ کر سکتا ہے، غلط فہمیاں پھیلا سکتا ہے اور حتیٰ کہ قومی بیانیے کو بھی کمزور کر سکتا ہے۔
نوم چومسکی (Noam Chomsky) جیسے نقادوں نے میڈیا کے کنٹرول اور اس کے عوامی شعور پر اثرات پر گہری بحث کی ہے۔ ان کے مطابق، میڈیا اکثر طاقتور اداروں کے مفادات کی ترجمانی کرتا ہے، جو ایک قوم کے حقیقی تشخص کو دبانے یا تبدیل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ جب میڈیا صرف حکمران طبقے کی آواز بن کر رہ جاتا ہے، تو وہ عوام کے تنقیدی شعور کو سلب کر لیتا ہے اور انہیں اپنی حقیقی شناخت سے دور کر دیتا ہے۔
ریاست اور شناخت کا رشتہ: جبر یا آزادی؟
کسی بھی قوم کی شناخت کی حتمی تشکیل میں ریاست کا کردار نہایت اہم اور نازک ہوتا ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق، انسان کی شناخت اس کا بنیادی اور تسلیم شدہ حق ہے۔ اقوام متحدہ کے ’’یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس‘‘ میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ ہر فرد کو قومیت کا حق حاصل ہے اور اسے اس سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کی شناخت کا احترام کرے اور اس کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
ریاست، اپنے قوانین، تعلیمی نصاب، قومی علامتوں اور میڈیا پالیسیوں کے ذریعے کسی قوم کی شناخت کو مستحکم یا کمزور کرسکتی ہے۔ ایک جمہوری اور لبرل ریاست، جہاں شہریوں کو اپنی زبان، ثقافت اور مذہب کا آزادانہ اظہار کرنے کی اجازت ہوتی ہے، وہاں ایک متنوع اور مضبوط قومی شناخت پروان چڑھتی ہے۔ ایسی ریاست میں مختلف لسانی، مذہبی اور ثقافتی گروہ قومی دھارے میں شامل ہوتے ہوئے بھی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک کثیر الثقافتی معاشرے کی بنیاد ہے جہاں تنوع کو کمزوری نہیں بلکہ طاقت سمجھا جاتا ہے۔
اس کے برعکس، جب ریاست شناخت پر ضرورت سے زیادہ کنٹرول مسلط کرتی ہے اور صرف ایک خاص زبان، ایک خاص ثقافت یا ایک خاص بیانیے کو فروغ دیتی ہے جبکہ دوسروں کو دباتی ہے، تو قومی شناخت بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ جبر نہ صرف داخلی انتشار کو جنم دیتا ہے بلکہ اقلیتی گروہوں میں محرومی اور بے گانگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں قومی یکجہتی کے بجائے تفریق اور تصادم کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ ریاستی کنٹرول میں تعلیمی نصاب بھی شناخت کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر نصابی کتب ایک متوازن تاریخی بیانیہ پیش نہ کریں اور تمام گروہوں کی نمائندگی نہ کریں، تو یہ ایک گروہ کو دوسرے سے افضل یا کمتر بنا سکتا ہے، جس سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔
عالمی تناظر اور فکری مکالمہ
عالمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ شناخت ایک جامد حقیقت نہیں بلکہ ایک بہاؤ کا عمل ہے جو مسلسل ارتقا پذیر رہتا ہے۔ اِمائل دُرکائیم (Émile Durkheim) جیسے ماہرینِ عمرانیات نے ’’کلیکٹو کانسائنس‘‘ (اجتماعی شعور) کا تصور پیش کیا، جس سے مراد ایک معاشرے کے افراد کے مشترکہ عقائد اور اقدار کا مجموعہ ہے۔ یہی اجتماعی شعور شناخت کو تقویت دیتا ہے۔
سید حسین نصر (Seyyed Hossein Nasr) جیسے مسلم مفکرین نے مغربی مادیت پرستی کے تناظر میں ثقافتی اور روحانی شناخت کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ حقیقی شناخت محض مادی کامیابیوں سے نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی اقدار سے جڑی ہوتی ہے۔ ایڈورڈ سعید (Edward Said) نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’اورینٹلزم‘‘ میں اس بات کو اجاگر کیا کہ کس طرح مغرب نے مشرق کی ایک مخصوص اور اکثر منفی شناخت وضع کی اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کیا۔ یہ نظریہ واضح کرتا ہے کہ شناخت محض داخلی عمل نہیں بلکہ بیرونی طاقتوں اور تعصبات سے بھی متاثر ہوتی ہے۔
منطقی دلائل کی رو سے، کسی بھی قوم کی شناخت کی پختگی اور دوام کے لیے اس کی تنوع میں ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔ جب ایک قوم اپنے مختلف رنگوں، زبانوں اور ثقافتوں کو گلے لگاتی ہے، تو وہ زیادہ مضبوط اور لچکدار بنتی ہے۔ اس کے برعکس، جب ریاست یا کوئی غالب گروہ ایک ہی شناخت کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ دراصل اپنی ہی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے۔ جبر سے حاصل ہونے والی یکجہتی مصنوعی اور عارضی ہوتی ہے۔ سچی یکجہتی تب ہی ممکن ہے جب ہر فرد اور ہر گروہ اپنی شناخت کے ساتھ قومی دھارے کا حصہ محسوس کرے۔
دورِ حاضر کی گلوبلائزیشن نے شناخت کے سوال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عالمی ثقافتوں کا ادغام اور معلومات کی برق رفتار ترسیل، مقامی شناختوں کو چیلنج کر رہی ہے۔ ایسے میں، ایک قوم کے لیے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے عالمی دھارے میں شامل ہونا ایک نازک توازن کا کام ہے۔ یہ ضروری ہے کہ قومیں اپنی ثقافتی جڑوں کو مضبوط رکھیں تاکہ وہ بیرونی اثرات کو مثبت انداز میں جذب کر سکیں اور اپنی شناخت کو کھو نہ دیں۔
حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ ’’ہم کون ہیں؟‘‘ یہ سوال نہ صرف ایک ذاتی اضطراب ہے بلکہ ایک تہذیبی اور ریاستی حقیقت بھی ہے۔ یہ قوموں کی بنیاد ہے اور ان کی ترقی کا محرک۔ زبان، ثقافت، ذرائع روزگار، میڈیا اور ریاستی پالیسیاں ایک قوم کی شناخت کے تعین میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک مضبوط اور دیرپا قومی شناخت اس وقت پروان چڑھتی ہے جب ریاست اپنے شہریوں کی متنوع شناختوں کا احترام کرے، انہیں آزادانہ اظہار کا موقع فراہم کرے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔
جب ہم اپنی ہئیتِ ہستی کو سمجھ لیتے ہیں، تو ہم اپنے ماضی سے جڑتے ہیں، حال میں جینے کا مقصد پاتے ہیں اور مستقبل کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ شناخت کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا؛ یہ نسل در نسل جاری رہتا ہے، اور اسی میں انسانیت کی ترقی اور بقا کا راز پنہاں ہے۔ یہ ہر فرد اور ہر قوم کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی شناخت کو نہ صرف پہچانے بلکہ اسے مثبت انداز میں فروغ بھی دے، تاکہ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ امن اور باہمی احترام کے ساتھ رہ سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔