ہر سال کی طرح اس بار 2025 ء میں بھی پوری دنیا میں11 جولائی کو عالمی یو م آبادی منایا جا رہا ہے ،حالیہ برس اس کا تھیم یعنی مرکزی خیال ہے Addressing Global Chllenges:A Focous on population. دنیا کی انسانی آبادی کو ایک ارب ہو نے میں کئی سوسال بلکہ ہزاروں برس لگے، مگر گذشتہ دو سو برسوں میں آبادی ایک ارب سے بڑھ کر 2017 ء میں 7 ارب ہو ئی 2021 ء میں 7.9 ارب ہو ئی اور عالمی ماہرین کے مطابق 2030 ء میں دنیا کی آبادی 8.50 ارب ہو جا ئے گی۔
یہ آبادی 2050 ء میں 9 ارب 70 کروڑ اور 2100 ء میں یعنی تقریبا 75 سال کے اندر 10 ارب 90 کروڑ ہو جا ئے گی ۔ ٹامس رابرٹ ما لتھس اگرچہ ایک پادری لیکن ساتھ ہی ایک ماہر معاشیات بھی تھا۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتارہتا تھا کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی بھی دنیا سے غربت مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکی۔ آخر 1798 ء میںاس کی مسسل سوچ نے اُسے اس کا ایک جواب دیا جو آج تک ٹامس مالتھس کا نظریہء آبادی کہلا تا ہے۔
یہ نظریہ اُس نے یوں پیش کیاکہ ایک مقررہ مدت میں انسانی آبادی میں جیو میٹریکل تناسب سے اضافہ ہوتا ہے، جیسے (1 سے2 سے 4 سے8 سے 16 سے32 ) جب کہ اس کے مقابلے میں اسی مدت یا دورانیے میں وسائل میں اضافہ ارتھمیٹک، یعنی حسابی تناسب سے ہو تا ہے جیسے) 1 سے2 سے3 سے4 سے5 سے6 سے7 ( یعنی انسانی آبادی میں اضافے کی شرح وسائل میں اضافے کی شرح سے زیادہ رہتی ہے۔ انسانی آبادی کو دنیا میں ایک ارب ہو نے میں ہزاروں سال لگے۔
اس کی ایک بنیادی وجہ قدرت کا نظام تھا جس کے تحت دیگر مخلوقات کی طرح انسان کی اوسط عمر بھی کم تھی اور ایسی وبائی بیماریوں دیگر امراض ، قدرتی آفات ، جیسے سیلاب ، زلزلے ، طو فان ، خشک سالی قحط وغیرہ سے ایک بار کسی مقام پر انسانی آبادی کثیر تعداد میں ایک ہی وقت میں ہلاک ہو جا تی تھی۔ پھر انسان نے معاشرتی زندگی کا آغاز کیا اور ہزاروں سال بعد بڑی بڑی سلطنتیں وجود میں آگئیں تو ایک سلطنت کی دوسری سلطنت پر قبضے کے لیے جنگیں ہو نے لگیں۔
اِ ن جنگوں میں بھی لاکھوں افراد ہلا ک ہو جا تے تھے۔ لیکن جب مالتھس بر طانیہ میں یہ نظریہ پیش کر رہا تھا اُس وقت بر طانیہ میںصنعتی انقلاب آچکا تھا۔ امریکہ آزادی لے چکا تھا اور فرانس ِانقلاب سے گذر رہا تھا، یعنی اہل مغرب سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی حاصل کر نے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی اقتصادی اور معاشرتی نظاموں کو بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے ہم آہنگ اور رفتار کے اعتبار سے متوازن کر رہے تھے۔ مگر یہی زمانہ ان مغربی قوتوں کی جانب سے ظالمانہ نو آبادیاتی نظام کا دور تھا۔ سائنس کے دیگر شعبوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ میڈیکل سائنسز میں ترقی کی وجہ سے کئی بیماریوں کے علاج دریا فت کر لیے گئے اور موثر ادویات کی تیاریاں فار ما سوٹیکل انڈسٹری کی صور ت اختیار کرگئی تھی۔
یوں انسانوںکی اوسط عمریں بڑھنے لگیں تھیں۔ 1800 ء میںدنیا میں انسانی آبادی پہلی مر تبہ ایک ارب ہو گئی اور 120 سال بعد یعنی 1920 ء میں یہ آبادی دو ارب ہو گئی۔ اس کے بعد صرف 50 سال میں1970 ء میں یہ آبادی دگنی یعنی چار ارب ہو گئی۔ 1987 ء میں جب دنیا کی آبادی پانچ ارب ہو گئی تو تو عالمی بینک میں اس علم کے ماہر سینئر ڈیمو گرفر ڈاکٹر کے سی ذکریا نے تجویز پیش کی کہ آبادی سے متعلق شعور کی بیداری کے لیے ہر سال دنیا بھرمیں آبادی کا عالمی دن منا یا جائے۔
آج دنیا کی آبادی 8 ارب سے زیادہ ہو چکی ہے اگرچہ مالتھس 1798 ء میں اپنا نظریہ پیش کر چکا تھا اور انسانوں کو یہ بتا دیا تھا کہ اگر انسان کسی جگہ اپنی آبادی کو سالانہ شرح پید ائش کی بنیاد پر اس طرح کنٹرول کر لے کہ جتنا اضافہ ایک مقررہ مدت میں وسائل میں ہو اُتنا ہی اضافہ آبادی میں کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کسی علاقے میں آبادی کو منجمد کر کے وسائل اور پیداوار میں اضافے کیا جائے اور وہاں نہ صرف غربت کا خاتمہ ہو جا ئے بلکہ معیار زندگی قابلِ رشک ہوگا۔ مگر اُس وقت اس جانب کسی بھی ملک یا قوم نے توجہ نہیں دی۔ پھر 1914-18 ء پہلی جنگ عظم اور اس کے 21 سال بعد 1939-45 ء دوسری جنگ عظیم ہو ئی دونوں جنگو ں میں دنیا بھر میں تقریباً پندرہ کروڑ کے قر یب افراد ہلاک ہو ئے اور اس سے د گنی تعداد میں زخمی اور معذور ہو ئے۔ اگست1945 ء میں ہی اقوام متحدہ کا ادارہ قیامِ عمل میں آیا۔
یہ طے کر لیا گیا کہ دنیا میں نو آبادیا تی نظام کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اس موقع پر اہل مغرب یعنی آج کے ترقی یا فتہ ممالک نے یہ طے کر لیا کہ اب وہ اپنی آبادیوں کو ایک سطح پر منجمد کر دیں گے، یعنی ایک جو ڑا صرف دو بچے پید اکر ئے اس طرح تقریباً 30 برس کے اندا ر شرح پید ائش کے اعتبار سے ایک ایسا سرکل یا چکر بن جا ئے گا آبادی اپنی سطح پر منجمد ہو جا ئے گی۔ اس تناظر میں دیکھیں تو 1951 ء میں جب بھارت اور پا کستان کے درمیان مہاجرین کی آمد و رفت کو بند کر دیا گیا اور پہلی مردم شماری ہو ئی تو اُس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان کی کل آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی اور بر طانیہ کی آبادی پانچ کروڑ 30لاکھ کے قریب تھی۔
آج ہماری آبادی 25 کروڑ ہے جب کہ بر طانیہ کی آج چھ کروڑ ہے۔ چین شروع سے آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب بڑا ملک تھا اور آزادی کے بعد چین میں آبادی پر کو ئی کنٹرول نہیں کیا گیا، یوں چین میں ترقی اور خوشحالی کے با وجود اشتراکیت مشکوک ہو گئی۔ 1980 ء میں نئی چینی قیادت نے ایک جوڑا ایک بچہ کی پالیسی کو اپنایا۔ 2010 ء تک پیداوار اور وسائل کو اپنی آبادی سے متوازن اور مستحکم کر لیا اس کے بعد چین نے تیز رفتاری سے ترقی کی آج معاشی،اقتصادی صنعتی اعتبار سے چین دنیا کی دوسری تسلیم شدہ بڑی قوت ہے اور دفاعی لحاظ سے تیسری قوت ہے۔
اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا میں بنیادی طور پردو بڑے مسئلے ہیں، نمبر ایک شہری آبادی میں نہایت تیز رفتار اضافہ نمبردو، دنیا کی آبادیوں میں بوڑھوں جوانوں کی عمروں کے اعتبار سے مسائل کا سامنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک خصوصاً امریکہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور یورپ میں نو جو ان آبادی کا تناسب کم ہے اس لیے پینشنوں اور ویلفر اسکیموں کے لحاظ سے بوڑھی آبادی جو تناسب میں ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے یہ صورت اُن ملکوں کے لیے مالیاتی اقتصادی معاشرتی طور پر مسائل کا سبب ہے، جب کہ ترقی پزیر ملکوںمیں جہاں بہتر منصوبہ بندی اور حکمت عملی اختیار کی گئی ہے وہاں ترقی کے عمل میں زیادہ تناسب والی نو جوان آبادی بہت اہم اور مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔
آج دنیا میں 15 سال 24 سال عمروں کی کل نوجوان آبادی 1 ارب 20 کر وڑ ہے۔ یہ 2030 ء تک 7% اضافے کے ساتھ ایک ارب 30 کروڑ ہو جا ئے گی۔
اس وقت آٹھ ملکوں میں نو جوان آبادی کی صورتحال یوں ہے کہ بھارت کل آبادی ایک ارب42 کروڑ، نوجوان آبادی 35 کروڑ60 لاکھ، چین کل آبادی ایک ارب40 کروڑ نوجوان تقریباً27 کروڑ، انڈو نیشیا کل آبادی ساڑھے 27 کروڑ نوجوان 6 کر وڑ 70 لاکھ، امریکہ 33 کروڑ40 لاکھ نوجوان آبادی ساڑھے 6 کروڑ، پاکستان کل آبادی 25 کروڑ نوجوان آبادی تقریباً6 کروڑ ،نائجیریا 22 کروڑ نوجوان آبادی 5 کروڑ 70 لاکھ، برازیل کل آبادی 20 کروڑ 30 لاکھ نوجوان آبادی5 کروڑ10 لاکھ، بنگلہ دیش کل آبادی17 کروڑ نوجوان آبادی4 کروڑ70 لاکھ۔ امریکہ میں نوجوان آبادی کا تناسب کم ہے چین میں نو جوان آبادی کا تنا سب کم ہو رہا ہے بھارت ، برازیل ، انڈو نیشیا اور بنگلہ دیش میں نو جوان آبادی کا تناسب زیاد ہ ہے اور ملک قومی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے جب کہ پا کستا ن اور نائجیریا میں نو جوان آبادی کا تناسب بھی زیادہ ہے اور یہاں بے روز گاری غربت و افلاس کے علاوہ بہت سے مسائل سر طان کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت نا خواندہ افراد کی تعداد 10 کروڑ ہے۔ اسکول جا نے کی عمر وںکے3 کروڑ 20 بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ حالیہ دنوں میں 10 کروڑ سے زیادہ افراد غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ شہری آبادی کا ہے۔
2008 ء میں دنیا کی تاریخ میں دیہی آبادی کے مقابلے میں شہری آبادی کا تنا سب بڑھ گیا۔ 2019 ء میں دنیا میںشہری آبادی کا تناسب 55.19% ہو گیا آج شہری آبادی کا تنا سب 57% سے زیادہ ہے۔ امریکہ ، چین ، یورپ ، کینڈا وغیرہ میں شہری آبادی کا تناسب 80% سے زیادہ ہے۔ پا کستان میں شہری آبادی کا تناسب 1961 ء میں 22% تھا جو 2022 ء میں 37.73% ہو گیا۔ آج ہماری شہری آبادی سرکاری ریکارڈ کے مطابق 10 کروڑ ہے مگر ملک میں ووٹ اور ڈومیسائل کے حوالے سے کم ازکم چھ کروڑ افراد ایسے ہیں جو رہتے تو شہروں میں مگر اِن کے کو ائف کا اندارج دیہی علاقوں میں ہے۔ اس لیے ہمارے شہروں میں معیار زندگی نہایت ہی ابتر ہو تا جا رہا ہے۔
زیر زمین پانی بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں ایک ہزار فٹ سے زیاد ہ نیچے جا چکا ہے، جو 50 برس قبل پچاس ساٹھ فٹ تھا۔ لاہور ، فیصل ، حیدر آباد ، اسلام آباد وغیر ہ میں بھی 600 فٹ تک پانی نیچے جا چکا ہے۔ نکاسی آب بارشوں میں اربن فلڈنگ کے مسائل ہیں۔ پچاس فیصد آبادی ایک کمرے کے مکانوں میں رہتی ہے۔ اِن حالات میں 4 جو لائی2024 ء کی اطلاع کے مطابق وفاقی حکو مت نے آبادی کو کم کر نے کے لیے پنجسالہ منصوبے کے تحت ہدف مقر کیا ہے کہ 2030 ء تک سالانہ شرح اضافہ جو اس وقت 3.32 فیصد ہے اس میں 1.1 فیصد کمی کے ساتھ اس کو سالانہ شرح اضافہ 2.55 فیصد تک لا یا جا ئے گا۔ ہمیں اس سے کہیں زیادہ کچھ کر نے کی ضرورت ہے کیونکہ ایٹم بم رکھنے والے ملک پا کستان میں آبادی کا بم پھٹنے کے قر یب ہے۔
آج دنیا میں آبادی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیئے دو طرح کی اسٹرٹیجی یا حکمت علمی پر زور دیا جا تا ہے۔ ایک یہ کہ آبادی میں اضافے کو قومی پیداواراور آمدنی کے کے بڑھنے یا ترقی پانے کی رفتار سے متوازان اور ہم آہنگ کیاجا ئے۔ اس کے لیے فی جوڑا عموماً ایک بچہ یا دو بچے پیدا کر نے کے قاعدے کو بروئے کا رلایا جاتا ہے، مگر یہ اُن معاشروں میں مفید اور پوری طرح نافذا لعمل ہو سکتا ہے جہاں ایک تو شرح خوندگی 90 فیصد سے زیادہ ہو اور سماجی شعور کی سطح بھی بلند ہو دوسر ی حکمت علمی یہ ہو تی ہے کہ آپ اپنی نوجو ان آبادی کو پوری طرح قومی ملکی تعمیر و ترقی کے لیے تیار کر یں اُن کو تکنیکی ، فنی سائنسی تعلیم سے آراستہ کر یں اور ہر نوجوان کو اُس کی صلاحت کے مطابق تیار کر کے قومی ملکی تعمیر و ترقی کے عمل میں شریک کریں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم دو نوں طرح کی حکمت علمی کو پوری طرح اپنائیں۔ آبادی کا جو حصہ باشعور ہے ہے اُس کو آبادی کو کنٹرول کی حکمت عملی اپنانے پر رضامند کر یں اور جو نا خواند یا کم پڑھے لکھے ہیں اُن کے بچوں کو اپنے آئین کے آرٹیکل 25A کے مطابق میٹرک تک مفت معیاری تعلیم ہنر اور ٹیکنیکل صلاحیت کے ساتھ فراہم کریں ۔ آبادی کے حوالے سے ہمار ا دوسرا بڑا مسئلہ شہری آبادی میں اضافہ ہے ۔ 1931 ء میں جب علامہ اقبال لندن میں منعقد ہو نے والی دوسری گول میز کانفرنس میں جا رہے تھے تو ممبئی میں مقیم اٹلی کے سفیر نے علامہ اقبال سے ملاقات کی اور کہا کہ مسو لینی آپ سے ملاقات کر نا چاہتے ہیں۔
اقبال نے یہ دعوت قبول کی اور لندن کی گو ل میز کانفرنس سے فارغ ہو نے کے بعد اٹلی گئے اور مسولینی سے ملاقات کی۔ ملاقات میں دیگر مسائل پر گفتگو کے ساتھ انسانی آبادی کے مسائل پر بھی بات ہو ئی مسولینی نے کہا کے اٹلی کے لیے شہری آبادی میں اضافہ ایک مسئلہ بن گیا ہے، تو علامہ اقبال نے فرمایا کہ شہر وں کو مزید بڑا کر نے کے بجائے نئے چھوٹے شہر تعمیر کئے جا ئیں اس پر مسولینی خوش ہوئے اور کہا کہ آپ کی یہ تجویز بہت اچھی ہے۔
اس پر علامہ اقبال نے جواب دیا کہ یہ میری تجویز نہیں بلکہ میرے رسول ﷺ کا فرمان ہے جس پر مسو لینی بہت حیران ہو ا کہ چود سو سال پہلے محمد ﷺ کا وژن کتنا وسیع اور عمدہ تھا ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے شہروں کو بڑھانے کی بجا ئے نئے اور چھوٹے شہر تعمیر کریں۔