29 C
Lahore
Monday, July 14, 2025
ہومغزہ لہو لہومصنوعی ذہانت انسان کا نعمل البدل نہیں، یہ صرف مددگار ٹول ہے

مصنوعی ذہانت انسان کا نعمل البدل نہیں، یہ صرف مددگار ٹول ہے


 تعارف: ڈاکٹر محمد داؤد، نوجوان ٹیک کاروباری اور علمی شخصیت ہیں۔کمیپوٹر سائنسز میں پی ایچ ڈی اور آرٹیفیشل اینٹلی جنس کے ماہر ہیں۔ آپ دو ٹیک کمپنیز کے بانی اور سی ای او ہیں ۔ اپنی پیشہ ورانہ خدمات کچھ حکومتی اداروں کو بھی دے چکے ہیں۔ ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی ہیں۔

سوال: آپ نے کمپیوٹر سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ کمپیوٹر سے آپ کا لگاؤ آپ کا اپنا تھا یا کسی نے اس طرف رہنمائی کی تھی۔

جواب: لگاؤ تو میرا اپنا تھا۔ ٹی وی پر بچپن میں کارٹونز ہوتے تھے۔ جن میں کمپیوٹر کا استعمال سکھایا جاتا تھا۔ کمپیوٹرز ایسے کر دیں گے، ویسا کردیں گے۔ 1999 میں ایک انقلاب آیا تھا۔ اس انقلاب نے یہ بتایا کہ دنیا کمپیوٹر کھا جائے گی۔ ا س انقلا ب سے مجھے سکول میں ہی کمپیوٹر ز میں دلچسپی پیدا ہوئی۔

پروگرامز میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ جب میں آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا تو میں نے یو ای ٹی میں منعقدہ ایک مقابلے میں بین الاقوامی سطح پر کمپیوٹر پروگرامنگ میں بیسک لیول کا تھرڈ سرٹیفیکٹ جیتا ۔ جی ڈبلیو لیول کا جو کہ دسویں جماعت کے نصاب میں شامل ہوتا تھا اور وہ میں نے آٹھویں میں مکمل کیا۔ تو میرے اسکول کے اساتذہ نے کہا کہ آپ اسی فیلڈکو اپنائیں۔تو پھر وہ کرتے کرتے وہی میرا سفر شروع ہو گیا۔

سوال : آپ نے اوائل عمری میں ہی کمپیوٹر کا مقابلہ جیت لیا۔ اس وقت نہ تو یوٹیوب اورنہ ہی دوسرے پلیٹ فارمز تھے جہاں سے آپ کو کوئی رہنمائی مل جاتی۔ تو کس نے رہنمائی کی ، کس سے مدد لی یا خود ہی شوق کے تحت سیکھ لیا؟

جواب: شروع میں تو میرا ا پنا شوق تھا۔ بعد میں ، میرے چچا نے رہنمائی کی۔ میرے چچا وہ شخص تھے جو پاکستان کی ایک بڑی سیلولر کمپنی کو پاکستان میں لے کر آئے۔ وہ چیف انجینئر تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کمپیوٹرز کیساتھ کیا کرنا چاہیے۔اس وقت کمپیوٹرز کو اپنے پاس گھر میں رکھنا معاشی اعتبار سے بہت مشکل تھا۔ اْس وقت نیٹ کیفے ہو اکرتے تھے۔ تو میں پانچ روپے کا کارڈ استعمال کر کے یہ ڈھونڈتا تھا کہ کوڈ کیسے بنتا ہے۔ اس وقت جو پلیٹ فارمز دستیاب تھے ، اْن پر اکاونٹ بنایا، پھر باہر کے لوگوں سے بات چیت کرنا کہ پروگرامنگ میں کیا چل رہا ہے اس عمر میں، اس سے مجھے حوصلہ افزائی ہوئی کہ میں کچھ کر سکتا ہوں، جی ڈبلیو بیسک کے بعد پھر کمپیوٹر پروگرامنگ سٹارٹ ہو گئی۔

جب میں ایف ایس سی کر رہا تھا تو میری دلچسپی کمپیوٹر میں تھی تو میرے والد صاحب نے مجھے پری انجنئیرنگ کروادی۔ تواس وقت دبئی میں ایک مقابلہ ہوا۔ میں اس میں شرکت تو نہیں کر سکتا تھا مگر آن لائن ایک سہولت تھی۔ تو میں نے نیٹ کیفے میں بیٹھ کر اس مقابلے میں حصہ لیا۔ میں اس مقابلے میں رنر اپ رہا ، لیکن مجھے اس مقابلے میں حصہ لے کر یہ یقین ہو گیا کہ میں اس فیلڈ میں کچھ نہ کچھ کر سکتا ہوں۔ یہ ایک سیلف موٹیویشن تھی (Self-Motivation)جو آگے سے آگے سے بڑھتی چلی گئی۔

سوال : آپ کے چچا کی رہنمائی کے علاوہ ، یہ آپ کا خود کو ڈھونڈنے کا ایک سفر تھا جو جاری رہا۔ یہ سفر کیسے جاری رہا؟

جواب: اس سفر میں خود کو مار کر زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ کام کرتے ہوئے کبھی ایسا بھی ہوا کہ کو ئی Bug آ گیا اورآپ کا پروگرام آگے نہیں چل رہا۔ اس میں ایسا بھی ہوا کہ تین، چار ہفتے ایک پروگرام میں سے Error ختم نہیں ہوتا تھا۔اب تو USB عام سی بات ہو گئی ہے۔ اْس وقت یہ بہت مہنگی ہوا کرتی تھیں۔اْس وقت USB کے کوڈ مارکیٹ میں نہیں ملتے تھے۔ اگر یوا یس بی کرپٹ ہو جائے تو اس کا کوڈ ملنا بہت مشکل تھا۔تو ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ تو میں نے یو ایس بی کو Reprogram کرناتھا۔ تو اس کے کوڈ کو بنانے میں مجھے 23 ہفتے لگ گئے تھے۔

سوال: کیا یہ آپ کی اپنے اہداف پر مرکوزسوچ کا نتیجہ تھا۔ ؟

جواب: جی ایسا ہی تھا۔ اس میں، میرے اساتذہ نے بھی مدد کی تھی۔ اْس وقت ڈاکٹر سعید تھے جو ریاضی کے پروفیسر تھے یونیورسٹی میں۔ انہوں نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے ایسے حوصلہ افزائی کی کہ جو کرنا ہے وہ کر کے رہنا ہے اگر یہ آج نہ ہوا تو کل بھی نہیں ہونا۔

سوال: جب آپ سکول،کالج میں پڑھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے اس شوق پر بھی کام کررہے تھے۔ تو آپ کے دوست آپ کا مذاق نہیں اڑاتے تھے کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں؟

جواب: میرے ساتھ ، دو مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے چھوڑ بھی دیا تھا۔ کہ میں نہیں کر سکتا۔ پھر میں نے سوچا کہ ان کے والدین کے پاس تو پیسہ ہے۔ میرے والد تو ایک پروفیسر ہیں۔ ان کی تو بتدریج ترقی ہو گی۔ تو اگر میں مارکیٹ میں نکلوں گا ، تومیرے پاس تو پیسہ ہی نہیں ہوگا۔اس مایوسی یا حوصلہ شکنی کے بعد میں نے دوبارہ زیرو سے شروع کیا۔پھر میں نے کسی کی نہیں سنی ، میں اپنی ہی دھن میں لگا رہا،یہی وجہ تھی کہ ایک کوڈ کو ڈی کوڈ کرنے میں مجھے 23 ہفتے لگ گئے تھے۔

سوال: ہمارے ہاں یہ عمومی شکایت ہے کہ ہمیں بروقت رہنمائی نہ مل سکی، کو ئی بتانے والانہ تھا لیکن آپ نے بہت اوائل عمری میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ آپ نے کمپیوٹر سائنسز کو ہی اپنا نا ہے۔ آپ اس نتیجے پر کیسے پہنچے؟

جواب: اس میں سب سے پہلی Motivation تو کارٹونز تھے۔ Pink Panther, Tom and Jerry Thunder Cats , کے ، ہم وہ چیزیں صرف تصور یا تخیل میں کر سکتے تھے کہ اچھا اس طرح کا کمپیوٹر ہے، اس طرح کی اسپورٹس کار ہے۔ پھر ایک کارٹون تھے Dexter Lab ، تو اگر مجھے اس طرح کی چیزیں کرنی ہیں تو کیسے کروں گا۔ پیسہ تو ہے نہیں ، تو کچھ نہ کچھ کر کے ہی پہنچوںگا۔ تو وہ کارٹونز میری پہلی Motivation تھے۔ دوسری Motivation مجھے کمپیوٹر سے ملی۔ وہ کیسے ملی ۔ وہ ایسے کہ ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں Path نہیں ملا۔تو اس اوائل عمری میں ، میں نے سوچا کہ Charles Babbage نے جب دنیا کا پہلا کمپیوٹر بنایا تھا تو اس کو کسی نے گائیڈلائن نہیں دی، ٹیلی فون کے بعد سیل فون بنے،ٹچ پینل بنے تو ان کو تو کوئی گائیڈ نہیں کر رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی نہ کوئی تو پہلا قدم اٹھائیگا۔

وہ غلط ہو گا یا صحیح ہوگا۔ ایلون مسک نے بھی تویہی کیا۔ٹوئیٹر سے نکالے جانے کے بعد اس نے ٹوئیٹر ہی کو خریدلیا، اپنا اسپیس کا پروگرام بنایا۔ میں ایک مثال دیتا ہوں آپ کسی بچے کو کوئی راستہ بتا دیں ، وہ کتنا عرصہ اس پر قائم رہے گا۔؟جب تک اس کی اپنی لگن نہیں ہے۔ بچپن میں ہم سناکرتے تھے کہ اپنی ” میں” کو ما ر کرکام کرنا پڑتا ہے۔ ” میں” مارنے کے لیے سیکھنا پڑتا ہے، اپنے آرام کو ختم کرنا پڑتاہے، “میں” کو ماریں گے تو ہر چیز ملتی چلی جائے گی۔ لیکن کرنا خود پڑیگا، اس وقت کتابیں تھیں تو ہم کتابوں سے سیکھتے تھے۔ اب انٹرنیٹ ہے، وسائل ہیں لیکن نسلِ نو ان وسائل کو استعمال ہی نہیں کرتی۔وہ سوشل میڈیاپر وقت ضائع کررہے ہوتے ہیں۔

سوال: آپ نے کمپیوٹر سائنسز میں گریجویشن کی اور اس میں آپ نے آرٹیفشل اینٹلی جنس کو چنا۔ اس طرف آپ کا رجحان کیسے آیا؟

جواب: آرٹیفشل اینٹلی جنس کی طرف میرا رجحان گریجویشن کے دوران ہوا۔ میں جی سی یونیورسٹی میں جز وقتی لیکچررتھا اور بعدازاں میں مستقل ہو گیا تو میں یونیورسٹی کم جاتا تھا۔ آخری سمیسٹر تھا اور اس میں ایک پروجیکٹ تھا۔ مجھے معلوم ہواکہ میرے سپروائرز نے مجھے اس پروجیکٹ کے دوسرے حصے سے نکال دیا ہے کیونکہ میں میٹنگز میں نہیں آیا تھا۔ میرے لیے یہ بڑی مشکل صورتحال تھی۔ میں نے تمام اساتذہ سے با ت چیت کی۔ سب نے کہا کہ یا تو آپ کو پورا سیمسٹر دوبارہ پڑھنا ہوگا یا پھر آپ کسی کے ساتھ پروجیکٹ کرلو۔ تو میرے ایک سینئراور ڈاکٹر شیراز نصیر نے اس وقت میری بڑی مدد کی۔ وہ سائبر سیکورٹی کے ماہر ہیں اور ایک ادارے میں انہوں نے دس برس تک سائبر سیکورٹی ونگ کی سربراہی کی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ یا تو یہ میری لائف کا پہلا پروجیکٹ ہو گا یا آخری پروجیکٹ ہو گا۔

انہوں نے مجھے ایک پروجیکٹ دیا کہ ہم ایک کرپٹو گرافی سٹوڈیو بنائیں گے جو Paper پرکوئی چیز Encryptکریگا۔ میرے لیے یہ سوچنا کہ Paper پر کوئی چیز کیسے انکرپٹ ہو گی ایک نئی چیز تھی۔انہوں نے کہا کہ اگر کرسکتے ہوتو ٹھیک ہے۔ پھران کاآئیڈیا تھا کہ ہم لیزر لائٹ کو استعمال کر سکتے ہیں۔ہمارے پاس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے ڈیڑھ ماہ کا وقت تھا۔ میں نے اس پروجیکٹ کو ایک ماہ میں مکمل کیا۔ یہ میری Motivation تھی کہ میں نے وہ عرصہ یونیورسٹی کے اندر ہی گزارا۔ صبح جانا، رات کو دس ، گیارہ بجے آنا، اور بعض اوقات رات یونیورسٹی ہی میں گزارتے تھے۔ اس وقت کے اخبارات میں ایک اچھی خاصی تشہیر ہوئی تھی کہ ایک نجی ادارے کے طلباء نے ایک نئی انکرپشن تیکنیک بنائی ہے جو ہماری مسلح افواج کے بہت کام آئیگی۔

سوال: ہمارے ہاں ایک تاثر ہے اے آئی روزگار کو ختم کر دے گی۔ آپ اس کے ماہر ہیں، آپ یہ بتائیں کہ کیا یہ تاثر درست ہے؟

جواب: یہ تاثر درست نہیں ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم چیزوں کا گہرائی سے مطالعہ نہیں کرتے۔ میری نوجوانوں سے گزارش ہے کہ MIT (امریکن یونیورسٹی) کا ریسرچ سینٹر جائن کر کے دیکھ لیں۔ آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ اے آئی ہے کیا؟، اے آئی کبھی جاب نہیں کھائے گی، اور نہ ہی انسان کو Replace کر سکتی ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اگر جاب روبوٹس نے کرنی ہے تو کیا انسان کمائے گا نہیں؟ تو پھر یہ کاشت کاری کس کے لیے ہو گی؟ پھر گھروں کے بِل کیسے ادا ہو ں گے،پھر بچوں نے جو سکول جا کر سیکھنا ہے، وہ بند کردیں، اگر سب کچھ اے آئی نے کرنا ہے تو بچے سکول میں کیوں جا ر ہے ہیں۔تو اے آئی ایک مددگار ٹول ہے۔یہ Learning Supervisedہے۔ اے آئی کی چار تیکنیکس ہیں۔

انسا ن کی جگہ روبوٹ نہیں لے پائے گا۔کیونکہ اے آئی روبوٹ بھی انسا ن ہی بنا رہا ہے۔جو الگورتھم ، اس میں لکھے جاتے ہیں ،و ہ محدود ہیں، آپ چیٹ جی پی ٹی کی مثال لے لیں۔ تین سال پہلے چیٹ جی پی ٹی آیا۔یہی خیال تھا کہ چیٹ جی پی ٹی تما م کنٹینٹ رائٹرز کی جاب کھا جائے گا۔ لیکن کنٹینٹ رائٹرز موجود ہیں، وہ چیٹ جی پی ٹی سے مدد لیتے ہیں۔اخبارا ت اور میگزین لکھے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کنٹینٹ لکھا جا رہا ہے۔ویب سائٹ پر لکھا جارہا ہے ، ریسرچ پیپرز لکھے جارہے ہیں۔ لیکن لکھ انسان ہی رہا ہے۔اے آئی نہیں لکھ رہا۔ اگراے آئی نے لکھنا ہے تو پڑھنے والا بھی اے آئی ہوگا۔؟ اب تک 14 لاکھ Tool Helping آ چکے ہیں۔ روزانہ کی بنیا د پر کوئی نہ کوئی بنتا ہے۔

سوال: جیسے ہر فیلڈ میں سپیلائزیشن ہے۔ ایسے ہی کمپیوٹر سائنسز میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو پروگرام بنا سکتے ہیں، یا اختراع پسند ہیں وہی اس فیلڈ میں کامیاب ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ اس فیلڈ میں کامیاب ہونے کے لیے کیا ریاضی کا اچھا ہونا ضروری ہے، کمپیوٹرکی لینگوئجز کا علم ہونا چاہیے یا ذہن تجزیاتی ہو تو وہ کامیاب ہو جائے گا

جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ جتناآپ سیکھ سکتے ہیں آپ سیکھیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سیکھیں۔ تجزیاتی مہارت وقت کیساتھ ساتھ آتی ہے۔کوئی مختصر دورانیے کا کورس آپ کو تجزیہ کرنا نہیں سکھا سکتا۔ کسی کمپیوٹر لینگوئج کو سیکھ لینا کافی نہیں ہے کیونکہ وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہے۔ریاضی اتنی آنی چاہیے کہ اگر کسی مسئلے میں پھنس جائیں تو اس کا حل نکال سکیں۔جب یہ ساری چیزیں ملتی ہیں توہم ایک پروگرامر بنا سکتے ہیں۔

پاکستان کا ایک بڑااور پرانا سافٹ وئیر ہاؤس ہے جو نوجوانوں کو اپنے طریقہ کار کے مطابق چنتا ہے۔ وہاں زیادہ یا کم سی جی پی اے کا معاملہ نہیں ہے۔ان کا اپنا پیپر ہے ، اس پر منحصر ہے۔ اس پیپر میں کوئی کوڈنگ نہیں ہے۔ اس میں امیدوار کو ہی جانچا جاتا ہے کہ وہ کیسے کام کریگا۔ ایک اور سافٹ وئیر ہاؤس میں کوڈنگ معیار ہے۔ اگر کسی نے اپنی مہارت کو بہتر کرنا ہے تو وہ پائتھن کو شروع کر دے۔ لیکن کتابوں کو پڑھ کر ، یوٹیوب سے مدد نہیں لینی۔ کیونکہ یوٹیوب پر وہ علم ہے جو پرانا ہے تمام مضامین کا۔ اگر وہ یہ سیکھ جاتا ہے تو وہ کہیں بھی مقامی یہ بین الاقوامی کمپنی میں کام کرسکتا ہے۔ مالدیپ میں یہ قانون ہے کہ اگر کوئی یونیورسٹی طالب علم آن لائن فلم دیکھتے ہوئے پکڑا جائے تواسے تین سال کی قید کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔

ترکی کے شہر استنبول میں آپ یوٹیوب اور واٹس ایپ کو Access نہیں کر سکتے۔ ان کی جامعات میں چلے جائیں تو وہاں کا وائی فائی محدود ہو جاتا ہے۔ہمیں بھی یہاں ایسا ہی کرنا ہوگا کہ ہم یوٹیوب پر وہ کنٹینٹ دیں جو واقعی ہی سیکھنے والا ہے۔ اگریوٹیوب پر انحصار کریں گے تو زیادہ دیر کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بچے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کرتے ہیں مگر جاب صرف چند فیصد کو ہی ملتی ہے۔ کیا وجہ ہے ، بنیادی وجہ وہ یوٹیوب پر انحصار کرتے ہیں۔اگر ہم یوٹیوب کو نہ استعمال کریں، اور کتابیں پڑھ لیں تو ہم کوئی بھی لینگوئج سیکھ سکتے ہیں۔

سوال: ہم بہت سنتے ہیں کہ پاکستان فری لانسنگ میں دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں ہے، ہماری آئی ٹی کی سکلز اچھی ہیں۔ مگر پاکستان نے کوئی ایسی ایپ نہیں بنائی جو پوری دنیا اور پاکستان بھر میں استعمال ہوتی ہو؟

جواب: اس کی بنیادی وجہ یہاں کی Adaptability ہے۔ انفراسڑکچر ہے جو سرورز(Servers) مہیا کرتا ہے۔پاکستان کی اپلیکیشنز ہیں لیکن ان کی Adaptabilityصارفین کے اعتبارسے بہت کم ہے۔ میری اپنی ایپ اور دیگر پاکستانی ایپس کے سرورز ملک سے باہر پڑے ہوئے ہیں۔ اگر وہ سرورز پاکستان میں ہوں، تو ہمیں اس ایپ کو پاکستان میں Deploy کرنا بہت آسان ہو جائیگا۔اب اپلیکیشنز ملک سے باہر Deployed ہیں، ڈیٹا سیٹس(Data Sets) اور سرورز ، ملک سے با ہر ہیں تو ہمیں مسائل ہیں۔ ہم یہاں اگر اسکو مفت بھی دیں ، تو ہمیں کاسٹ زیادہ پڑتی ہے۔ پاکستان کی مذہبی مواد کے اعتبار سے معروف و مقبول ایپ تیرہ سال پہلے ڈیویلپ ہوئی ، اس میں روزانہ کی بنیاد پر تبدیلیاں آتی ہیں۔ وہ بہت بڑی ایپ ہے۔اس میں اے آئی ٹولز ہیں، ایآئی ٹیوٹرہے،۔ایک پرانا اور اولین سافٹ وئیر ہاؤس ہے اس کی صحت کے شعبے کی ایپ سات سا ل پہلے ڈیویلپ ہوئی مگر اس کی یہاں Adaptability نہیں ہے۔ اس طرح کئی اور ایپس ہیں جن کو بین الاقوامی شناخت نہیں ملی، کیونکہ صارفین کا ان کیساتھ انٹر ایکشن نہیں ہے۔

سوال: ان سرورز(Servers) کو پاکستان میں کیسے لایا جاسکتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ یہ پاکستان میں نہیں ہیں؟

جواب: حکومتی سطح پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ آئی ٹی سیکٹر میں مشیر ہیں ،ان کا آئی ٹی سے کوئی لینادینا نہیں ہے۔ایسے مشیروں کے لیے سرور (Server) شاید کوئی مشین ہے،لیکن کمپنیز کے لیے سرورز ایک پوری دنیا ہوتے ہیں۔پاکستان فری لانسنگ میں اگر چوتھے نمبر ہے تو وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا اپنا کوئی فری لانسنگ پلیٹ فارم نہیں ہے۔پاکستانی اپنی مہارت بیچ رہے ہیں۔ اگر وہی چیز پاکستان میں لگی ہو،جو ایک فری لانسنگ پلیٹ فارم ان کے پیسوں میں کٹوتی کرتا ہے، تو وہ کٹوتی نہیں ہو گی ، اسی طرح ایمازون، گوگل، فیس بک، ٹوئٹر کے دفاتر پاکستان میں نہیں ہیں۔

سوال: آج کے دور میں سرمائے کی جگہ آئیڈیا کی اہمیت ہے، آپ اس سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں

جواب: میں اس سے سو فیصد متفق ہوں۔ کیونکہ اب آپ کو انڈسٹری بنانے کے لیے کسی انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کہیں بھی بیٹھ کر اس کو Remotely چلا سکتے ہیں۔ کمپنی بنانا ، چلانا بہت آسان ہے۔ایک پلیٹ فارم ہے جہاں آپ مفت اپنی کمپنی ڈیزائن کر سکتے ہیں اور مختلف کمپنیز وہاں سے آپ کو پروجیکٹ دے سکتی ہیں اگر آپ کی پروفائل اچھی بنی ہے۔اگر آپ کے پاس کوئی سکل ہے تو وہاں پروفائل بنائیں اور پروجیکٹ لے لیں۔

سوال: پہلے یہ سمجھا جاتاتھا کہ تخلیقیت صرف ادب، آرٹ میں ہے۔ لیکن اب تیکنیکی اختراع کا دور ہے۔ آپ نے اپنی دو ٹیک کمپینز بنائی ہیں۔ یہ کس فیلڈ میں کام کرتی ہیں اور آپ کو انہیں بنانے کا خیال کیسے آیاِ؟

جواب: خیال ایسے آیا کہ کچھ ریسرچ پروجیکٹس کے دوران مجھے یہ مشاہد ہ ہوا کہ اگر آپ کے پروجیکٹ سپروائزر ، کا وژن ،آپ کے وژن سے مطابقت نہ رکھتا ہوتو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔تو پھر میں نے سوچا کہ مجھے خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔تو میں نے 2015 میں ایک کمپنی کی بنیادرکھی۔

امریکہ میں رجسٹر ہوگئی۔ لیکن اب میں پروجیکٹ کہاں سے لوں گا۔ مارکیٹ میں کسی بھی نئی کمپنی کو پروجیکٹ نہیں ملتا، تو اب میں پروجیکٹ کیسے لوں گا، تو میں نے سوچا کہ میں کہاں اپنی سکلز فروخت کروں کہ مجھے پروجیکٹ ملے۔ تو میں نے ایک پلیٹ فارم پر کمپنی رجسڑ کروا کر پروجیکٹ لینا شروع کیے۔تو آہستہ آہستہ میں نے اپنے ساتھ لوگوں کو ہائر کرنا شروع کردیا۔ وہاں سے سفر یہ ترقی کی جانب چل پڑا۔پھر میں نے سوچا کہ کمپنی بن گئی ہے، کام بھی چل پڑا ہے، لیکن ریسرچ نہیں ہورہی، ہم وہی پرانی چیزوں کو تھوڑا سے تبدیل کر کے دے رہے ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات