TEHRAN:
ایران نے جوہری پروگرام سے متعلق آئندہ مذاکرات کے لیے نئی شرائط کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کسی بھی ممکنہ معاہدے میں یورینیم افزودگی کا حق تسلیم کرنا لازم ہوگا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران یورینیم افزودگی کے حق کے بغیر کوئی معاہدہ قبول نہیں کرے گا، کیونکہ یہ حق ایران کی خودمختاری، سائنسی ترقی اور پُرامن ایٹمی توانائی کے استعمال سے وابستہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے اس حق کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں، اور ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے کہ جوہری توانائی صرف پُرامن مقاصد کے لیے استعمال ہوگی۔
قطری خبر رساں ادارے کے مطابق عباس عراقچی نے کہا کہ اگر ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کی گئیں تو یہ یورپ کے سفارتی کردار کے اختتام کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر ایسی کوئی پابندیاں لگتی ہیں تو ایران کے ایٹمی پروگرام میں یورپی شراکت داری مکمل طور پر ختم تصور کی جائے گی۔
عباس عراقچی کے مطابق، ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات کی تفصیلات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، جس میں وقت، مقام، نوعیت، شرائط اور ضمانتوں پر مشاورت جاری ہے۔
تاہم انہوں نے یہ واضح کر دیا کہ ممکنہ مذاکرات صرف جوہری معاملات تک محدود ہوں گے اور دفاعی امور پر کسی قسم کی بات چیت نہیں کی جائے گی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ایران جوہری بم کو “غیر اسلامی اور غیر انسانی” تصور کرتا ہے اور ان کا ملک صرف پُرامن ایٹمی پروگرام کا حامی ہے۔
واضح رہے کہ2015 کے جوہری معاہدے، جسے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (JCPOA) کہا جاتا ہے کی بحالی پر بات چیت کے دوران ایران کی جانب سے یہ سخت مؤقف سامنے آیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت میں اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا تھا،جس کے بعد ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا۔
عباس عراقچی نے مزید کہا کہ ایران پر کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں آئندہ ردعمل زیادہ فیصلہ کن اور افسوسناک ہوگا۔