معدودے چند لوگوں کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے‘کہ وہ ہمارے ملک کے مایہ ناز سیاسی خانوادوں کے ساتھ سائے کی طرح رہے ہوں اور انھوں نے عملی طور پر پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ترتیب ہوتے دیکھا ہو۔ زاہد حسین ان میں سے ایک ہیں۔ ان کی شہرت ایک بہترین فوٹو گرافر کی تو خیر ہے ہی‘ مگر ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ذاتی فوٹو گرافر ہونے سے انھوں نے ایوان اقتدار ‘ جلاوطنی اور بے بسی‘ بھٹو خاندان کا ہر دور قریب سے دیکھا ہے۔
سجاد عباسی کی کتاب ‘ ’’صحافت بیتی‘‘ کی ورق گردانی کررہا تھا ۔ زاہد حسین کا نام پڑھا۔ سروق پر بھی ان کی تصویر نمایاں تھی۔ زاہد حسین کو زاہد بھائی کے نام سے جانتا ہوں۔ یک دم ‘ نصف صدی قبل کا لائل پور ‘ نظروں کے سامنے آ گیا۔ جناح کالونی کی سڑکیں‘ درودیوار ‘ ذہن کی کھڑکیوں میں نمودار ہو گئیں۔ ساٹھ ستر برس پہلے کا لائل پور ایک شاداب اور زرخیز علاقہ تھا ۔ جناح کالونی میں ‘ ہمارا اور زاہد بھائی کا گھر بالکل آمنے سامنے تھا۔ زاہد صاحب کی عمر مجھ سے کافی زیادہ تھی۔ ان کے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ کھیل کود کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اس زمانہ میں نفسا نفسی کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ محلہ میںسب لوگ‘ ایک خاندان کی مانند زندگی گزار رہے تھے۔
جناح کالونی ایک متوسط طبقے پر مشتمل ایک شاندار علاقہ تھا۔ چھتری والی وسیع گراؤنڈ اور اس کے علاوہ بغیر نام کے ایک اور ‘ بڑی سی گراؤنڈ‘ کمال نظارہ پیش کرتی تھیں۔ ان سرسبز میدانوں میں‘ بچوں کے کھیلنے کی آوازیں سرشام ہی سے سننے کو ملتی تھیں۔ خوبصورت سانچے میں ڈھلی یہ ہاؤسنگ اسکیم‘ اب کیسی ہو گی۔ کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ زاہد بھائی ۔ ایک سنجیدہ سے انسان تھے۔
موٹا ساچشمہ لگائے اکثر نظر آتے رہتے تھے۔ محلے میں اپنے ہم عمر نوجوانوں سے ان کی خوب دوستی تھی۔ بقا محمود‘ صالح محمد‘ ڈاکٹر قمر ان میں نمایاں تھے۔ بقا بھائی اب کس حال میں ہیں‘ اور کس حال میں نہیں ‘کچھ معلوم نہیں۔ صالح محمد‘ حیرت انگیزصلاحیتوں کے مالک تھے۔ کسرت کا شوق تھا اور ساتھ ہی موسیقی اور خطاطی کا بھی۔ ڈاکٹر قمر ‘ اس وقت کے ای میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھے۔ یہ تمام لوگ‘ مجھ سے آٹھ سے بارہ سال یا شاید اس سے بھی زیادہ عمر میں بڑے تھے۔
زاہد بھائی‘ اوائل عمری میں ہی‘ لائل پور سے کراچی چلے گئے۔ ان کی بابت‘ صرف یہ پتہ تھا کہ فوٹو گرافر بن گئے ہیں۔ مگر یہ اندازہ قطعاً نہ تھا کہ بھٹو خاندان کے ذاتی عکاس بن چکے ہیں۔ جو بذات خود ایک اعزاز کی بات ہے۔ صحافت بیتی میں ان کے متعلق مضمون ‘ پڑھ کر حد درجہ مسرت بھی ہوئی اور غم بھی۔ خوشی کی وجہ تو صرف یہ کہ چلیے ہمارے محلہ کے ایک نوجوان نے ملک کی سیاست کو ترتیب ہوتے دیکھا۔ غم اس امر کا‘ کہ زندگی کی دوڑ ‘ ہمیں ریت کے ذروں کی طرح ‘ بکھیر دیتی ہے۔ کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کون‘ کہاں چلا گیا۔
خیر زاہد حسین پر‘ کتاب میںجو درج ہے ۔ اس کے چند ٹکڑے‘ خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
زاہد حسین کا شمار پاکستان کے معروف ترین فوٹو گرافرز میں ہوتا ہے‘ جو گزشتہ پچاس برس سے زائد عرصہ سے میڈیا سے وابستہ ہیں اور اپنے تجربے اور پیشہ ورانہ مہارت کی بنیاد پر ’’فوٹو جرنلسٹ‘‘ کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ وہ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز ‘ امریکی خبر رساں ایجنسی‘ ایسوسی ایٹڈ پریس اور انگریزی روزنامے ’’ڈان‘‘ ، کئی ملکی اور بین الاقوامی صحافتی اداروں میں خدمات انجام دیتے رہے۔ مگر ان کی ایک اہم شناخت پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے ذاتی اور خاندانی فوٹو گرافر کی ہے۔
وہ طویل عرصے تک پیپلزپارٹی کے ترجمان اخبار ’’مساوات‘‘ سے وابستہ رہے۔ اس دوران انھوںنے نہ صرف کئی اہم تاریخی واقعات کو عینی شاہد کے طور پر دیکھا‘ بلکہ اپنے کیمرے میں قید بھی کیا۔ اس طرح ان کے پاس اس وقت بھی سیاست اور تاریخ سے جڑی سوا لاکھ کے قریب تصاویر کا ریکارڈ موجود ہے۔
جن میں سے نصف سے زائد بھٹو خاندان اور ان کے سیاسی سفر کا احاطہ کرتی ہیں۔ زاہد حسین کی بنائی گئی تصاویر کی ایک بڑی نمائش کراچی پریس کلب میں منعقد ہو چکی ہے‘ جس کی مہمان خصوصی محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں۔ انھوں نے ایک تصویر آٹو گراف میں لکھا کہ ’زاہد حسین میرا بھائی ہے‘ جس نے جمہوریت کے لیے جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیا‘۔ اس ایک جملے کو زاہد حسین اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا بہت بڑا سرمایہ قرار دیتے ہیں۔
بے نظر بھٹو کا ذکر آنے پر زاہد حسین ماضی میں کھو جاتے ہیں اور گاہے ان کی آنکھوں میں چمکدار نمی نمودار ہوتی ہے‘ جو محترمہ سے ان کے تعلق کی عکاسی کرتی ہے۔ پانچ دہائیاں صحافت پر قربان کرنے والے زاہد حسین لائنز ایریا کراچی کے ایک چھوٹے سے (ڈیڑھ مرلہ) گھر میںرہتے ہیں‘ جس کے ایک کمرے کو انھوں نے دفتر کا درجہ دے رکھا ہے اور جہاں پرانی تصاویر اور فلموں (نیگٹیوز) کی صورت پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ مگر اس خزینے کو جدید ٹیکنالوجی کے تحت ڈیجیٹلائز کر کے محفوظ بنانا زاہد حسین کا خواب ہے۔
اب ‘ زاہد بھئی کے انٹرویو کے چند اقتباسات درج کر رہا ہوں۔
س: بھٹو صاحب اپنی تصاویر میں کتنی دلچسپی لیتے تھے اور اس حوالے سے ان کی کیا ہدایات ہوتی تھیں؟
جواب: تصویر کے معاملے میں بھٹو صاحب نے صرف ایک چیز کی ممانعت کی تھی کہ میری تصویر کسی اکیلی خاتون کے ساتھ نہیں بنانی۔ ظاہر ہے بھٹو صاحب بہت مقبول اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے تو خواتین بہت آتی تھیں۔ اور ان کے مطابق ہم فلیش تو مار دیتے‘ مگر تصویر سرے سے بناتے ہی نہیں تھے۔
س: محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ آپ کا پہلا انٹرایکشن کب ہوا؟
ج: بی بی نے جب سیاست شروع کی تو ان کی طبیعت میں غصہ تھا۔ ظاہر ہے کہ والد کو پھانسی دی گئی۔ مشکل ترین حالات سے گزرنا پڑا۔ 77ء میں جب 5جولائی کو پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی اور سات جولائی کو بیگم نصرت بھٹو بچوں کو لے کر اسلام آباد سے کراچی آ گئیں۔ بھٹو اور پی این اے والے سارے مری میں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ بھٹو خاندان کی خواتین کراچی آئیں تو ستر کلفٹن میں ملاقاتیں اور لوگوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ وہاں بی بی سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی۔ دیکھتا تو پہلے بھی رہا تھا۔ 71ء میں جب وہ اپنے والد کے ساتھ شملہ گئیں تو لاہور سے میں نے ایونٹ کور کیا تھا۔ مگر ان سے بات چیت جولائی 77ء میں شروع ہوئی۔
لوگوں کی آمدورفت اتنی زیادہ تھی کہ بیگم صاحبہ پریشان ہو گئیں۔ مرتضیٰ بھی یہاں تھا۔ پھر انھوں نے سوچا کہ معاملات کو ترتیب میں رکھنے کے لیے دیگر لوگوں کو Involveکیا جائے ‘ ہم چونکہ ’’مساوات‘‘ اخبار میں تھے۔ لہٰذا ایک طرح سے ہم میزبان بھی تھے‘ سیکریٹری وغیرہ تو ان کا کوئی تھا نہیں۔ ملازم تھے بس۔ ایک دن بیگم صاحبہ نے مجھے کہا : ’’لائبریری سے’بے بی‘ کو بلا لاؤ‘‘۔ میں چلا گیا۔ وہ بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا کہ آپ کو بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں۔ کیمرہ میرے کندھے سے لٹکا ہوا تھا۔ بولیں تم ’’مساوات‘‘ کے فوٹو گرافر ہو۔ میںنے اثبات میں جواب دیا۔ کہنے لگیں کہ مجھے بھی صحافی بننے کا بہت شوق ہے۔ ممی سے کہو میں آ رہی ہوں۔ بیگم صاحب نے ان سے کہا کہ خواتین بہت بڑی تعداد میں آ رہی ہیں‘ تم بھی ان سے ملاقاتیں کرو۔ پھر مرتضیٰ کو بلایا‘ جو انیکسی میں تھا۔ ان سے کہا تم پی ایف ایف اور پیپلز یوتھ کے لڑکوں کو دیکھو‘ تو یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔
س: محترمہ بے نظیر کے ساتھ آئس کریم کھانے کا واقعہ کیا تھا۔
ج: جیسے ہی بیگم صاحبہ گئیں تو انھوں نے کہا کون سی گاڑی کی بات ہو رہی ہے۔ جو شاہنواز چلاتا ہے؟ بتایا کہ ویسپا ہے۔ اٹالین ماڈل ہے۔ بنیادی طورپر یہ لڑکیوں کے لیے بنی ہے۔ بولیں دیکھوں تو… پھر معائنہ کر کے کہا: اس کو تو میں چلا سکتی ہوں۔ کہا کہ ایک کی وجہ سے ڈانٹ ابھی میں نے سنی ہے۔ اب آپ اور کیا چاہ رہی ہیں۔ بی بی نے کہا: کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ چلو اس پر آئسکریم کھا کر آتے ہیں۔ عنایت حسین نے منہ پر ہاتھ رکھ کر مجھے اشارہ کیا کہ یہ کام نہ کرو۔ ظاہر ہے بیگم صاحبہ ناراض ہوتیں‘ میں بھی تذبذب کا شکار تھا۔ بے نظیر نے کہا: کم آن‘ اسٹارٹ کرو‘ اب مرتا کیا نہ کرتا‘ میں نے ویسپا اسٹارٹ کیا۔ مڈایسٹ اسپتال کے سامنے آئس کریم پارلر تھا۔ جو اب بھی موجود ہے۔ وہاں جا کر بیٹھے۔ بی بی بار بار جا کر مختلف فلیورز ڈال کر کھاتی رہیں۔ ادھر میں تو اندر سے ہلا ہوا تھا کہ بیگم صاحبہ کو پتہ چلے گا تو آج نوکری تو گئی۔ (واضح رہے کہ بیگم نصرت بھٹو روزنامہ ’’مساوات‘‘ کے بورڈ کی چیئرپرسن تھیں)۔ خیر کچھ نہیں ہوا۔ واپس آئے تو بجائے اوپر سے گھوم کر آنے کے میں ون وے توڑتا ہوا واپس پہنچا۔ خوف جو طاری تھا۔
زاہد بھائی جناح کالونی اور لائل پور کی باتیں لکھنا ‘ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ آنکھوں میں دھند سی اتر رہی ہے۔ بچپن کی یادوں کی! سب کچھ خواب سا لگتا ہے!