32 C
Lahore
Tuesday, July 8, 2025
ہومبین الاقوامی خبریںبھارت اور بنگلادیش میں گردوں کی اسمگلنگ کا کاروبار کیسے چل رہا...

بھارت اور بنگلادیش میں گردوں کی اسمگلنگ کا کاروبار کیسے چل رہا ہے؟


—فائل فوٹو

قانونی خامیوں اور دھوکا دہی کرنے والے بروکرز نے بنگلادیش میں پھیلی غربت اور بھارت میں گردوں کی پیوند کاری کی بڑھتی مانگ کی وجہ سے گردوں کی اسمگلنگ کے کاروبار کو بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 

غیر ملکی میڈیا کے مطابق  بھارت میں صرف 2023ء میں 13 ہزار 600  گردے ٹرانسپلانٹ کیے گئے، سرحد پار کڈنی اسمگلنگ بزنس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بنگلادیشی پولیس کے اسسٹنٹ انسپیکٹر جنرل پولیس انعام الحق ساگر نے بتایا کہ ہم اس معاملے کی نگرانی کر رے ہیں، اس معاملے میں کچھ گرفتاریاں بھی کی جن میں ایسے بروکر بھی شامل ہیں جو اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں۔

دوسری جانب بھارت میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیسز نے بتایا کہ انہوں نے کریک ڈاؤن کرکے درجنوں میڈکل پروفیشنلز کو گرفتار کیا ہے جو کڈنی ٹرفیکنگ کے معاملے میں ملوث پائے گئے ہیں۔

ایسا ہی ایک معاملہ جولائی 2024ء میں پیش آیا جس میں 50 سالہ کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر وجایا راج کماری کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا جنہوں نے تفتیش کے دوران بتایا  کہ 2021 ء سے 2023ء تک انہوں نے 15 بنگلادیشی مریضوں کے ایک نجی اسپتال میں آپریشنز کیے۔

 بنگلادیش میں موجود درجنوں افراد نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے معاشی تنگدستی سے تنگ آکر بروکرز کی مدد سے اپنے گردے بیچے، معیشت کی سادہ سی زبان میں یہ سپلائی پیدا کرنے کا معاملہ بن گیا، جب لمبے وقت سے قانونی طور پر عطیہ دینے والوں کی کمی ہو اور بہت سے دولت مند مریض فوری ٹرانسپلانٹ کی صورت میں ادائیگی کے لیے تیار ہوں تو کمزور نظام میں اس عمل کو یقینی بناتا ہے جس کو روکا نہیں جاسکتا۔

بھارت کے 1994ء کے ٹرانسپلانٹیشن آف ہیومین آرگن ایکٹ کے تحت صرف قریبی رشتے داروں کو ہی اعضاء عطیہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے یا پھر یہ کام خصوصی سرکاری اجازت نامے کے حصول کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کام سے جڑے بروکر صحت سے جڑے ان حساس معاملات میں چھپی قانونی کمزوریوں سے کھیلنے کا ہنر جانتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ مریض کے شجرہ نصب، اسپتال کے ریکارڈ اور یہاں تک کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے معاملے میں قانون کو کیسے توڑنا مروڑنا ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے امریکی مشی گن یونیورسٹی کے پروفیسر اور عالمی ادارہ صحت کی ٹاسک فورس برائے ٹرانسپلانٹیشن نے اس حوالے سے بتایا کہ بھارتی حکام قانون کی عمل داری کے بجائے بھارت میں میڈیکل سیاحت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جس کاروبار کی  کل مالیت 7 اعشاریہ 6 بلین ڈالر ہے، اس صورتحال میں اخلاقی معیارات کو لاگو کرنے کے بجائے انکی توجہ معاشی فوائد کے حصول پر ہے جس وجہ سے غیر قانونی ٹرانسپلانٹ جاری ہیں۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ممبئی میں موجود ادارے کڈنی واریئرز فاؤنڈیشن (بھارت میں گردے کے مریضوں کی مدد کرنے والا ایک ادارہ) کی سی ای او وسوندرہ راگھوان نے بتایا کہ قانونی طور پر جائز عطیہ کرنے والوں کی کمی ایک بنیادی چیلنج ہے جو انسانی اعضاء کی اسمگلنگ کا محرک بنتا ہے۔

 انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ بھارت میں قانونی دائرہ کار کا مقصد استحصالی صنعت میں تبدیلی سے روکنا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں قانون نے اعضاء کی تجارت کو زیرِ زمین پھیلادیا ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات