27 C
Lahore
Tuesday, July 8, 2025
ہومغزہ لہو لہوایک سیاسی کارکن کی ’’ سیاسی وصیت‘‘

ایک سیاسی کارکن کی ’’ سیاسی وصیت‘‘


پاکستان میں بہت کم ایسے اہل سیاست ہیں جو لکھنے ،پڑھنے اور علمی و فکری صلاحیتوں میں اپنا منفرد نام رکھتے ہیں ۔معروف سیاسی و سماجی دانشور، مصنف اور کالم نگارقیوم نظامی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے پیپلز پارٹی میں بھی ایک فعال کردار ادا کیا اور علمی و فکری میدان میں بھی لوگوں کی راہنمائی کی ہے۔

ان کی سیاست کا دور نظریاتی یا دائیں اور بائیں بازو کی سیاست سے جڑی نظریاتی کشمکش کا دور تھا جہاں ان سمیت بہت سے سیاسی کارکنوں نے سیاسی اور جمہوری حقوق سمیت آئین کی بالادستی و حکمرانی کو یقینی بنانے اور ملک کی جمہوری خطوط پر عملی تشکیل میں ایک بڑا اور موثر کردار ادا کیا۔ پاکستان میں آج جو کچھ بھی جمہوریت کی کمزور سی شکل ہے یا یہاں جمہوری آزادیوں پر بات کی جاتی ہے تو ان میں قیوم نظامی سمیت کئی ہزاروں سیاسی کارکنوں کی جدوجہد بھی شامل ہے۔

قیوم نظامی کی نئی تصنیف ’’ سیاسی وصیت … سماجی سیاسی آپ بیتی‘‘ سامنے آئی ہے جو ان کی سیاسی اور سماجی زندگی کی جہاں آپ بیتی ہے وہیں اپنی جدوجہد کی کہانی کا سیاسی نچوڑ بھی ہے ۔ ان کی اس کہانی میں ہمیں مختلف سیاسی ادوار کے اتار چڑھاؤ کی کہانی بھی ملتی ہے اور ان گزرے حالات کے مختلف واقعات کی گواہیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔

اسی کتاب میں ان کی سیاسی و سماجی آپ بیتی کی بنیاد پر ہمیں مصنف کی طرف سے ایک بطور سیاسی راہنما،کارکن ،دانشور اور مصنف کی سیاسی وصیت کی ایک تصویر بھی سننے یا پڑھنے کو ملتی ہے جو بہت سے لوگوں کے لیے مستقبل کے تناظر میں راہنمائی کے نئے دروازے یا دریچے بھی کھولتی ہے یا ہمیں مستقبل کی سیاست کو مضبوط بنانے میں ’’ مسائل اور حل ،نیا نظام حکومت ‘‘ کا خاکہ کا فریم ورک بھی سمجھنے کو ملتا ہے۔

قیوم نظامی پہلے بھی کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کی اہم کتابوں میں معاملات رسول،قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل،زندہ اقبال ، جو دیکھا جو سنا، جرنیل اور سیاست دان تاریخ کی عدالت میں، آزادی سے غلامی تک، خفیہ پیپرز سمیت بچوں کے لیے سیرت پر مبنی پندرہ کتب کا سیٹ بھی شامل ہے جو بچوں کی تربیت اور اصلاح پر ان کی اہم تحریریں ہیں۔

عمومی طور پر خود نوشت قوموں کے عروج و زوال کی داستان عبرت یا داستان حیرت ، داستان درس گاہ ہوا کرتی ہے اور قیوم نظامی کی اس داستان میں ہمیں بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی ،جمہوری اور آئینی و قانونی تاریخ کیا ہے اور آج جہاں یہ ملک کھڑا ہے اس کی سیاسی و ریاستی وجوہات کیا ہیں ۔مختصر سی یہ جامع کتاب پاکستان کے بنیادی مسائل کا احاطہ کرتی ہے اور یہ وہ مسائل ہیں جن کا تعلق موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں سمیت پاکستان کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے۔

قیوم نظامی نے اپنی اس کتاب میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو سے گورنر ہاؤس میں ہونے والی اپنی ملاقات کی ایک روداد بھی لکھی جو پانچ منٹ کی طے شدہ ملاقات تیس منٹ پر ختم ہوئی اور قیوم نظامی کے بقول انھوں نے اس ملاقات کے لیے بھٹو صاحب کو بس ایک ٹیلی گرام کیا تھا جس پر ان کی ملاقات طے ہوئی اور بھٹو صاحب نے ان کی گفتگو تحمل سے سنی اور پارٹی راہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کے درمیان جو خلیج ہے اسے ختم کرنے کے لیے فوری احکامات بھی جاری کیے۔

اسی طرح اس کتاب میں ہمیں قیوم نظامی سمیت پیپلزپارٹی کے ان سیاسی کارکنوں کی داستانیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں جنھوں نے پارٹی ،جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور مارشل لا کے خلاف مزاحمت کرنے پر سختیاںجھیلیں، جیل کاٹی، کوڑے کھائے۔ شاہی قلعہ میں قید رہے، ذہنی اور جسمانی ٹارچر کا سامنا کیا اور اس کہانی کا ایک کردار خود قیوم نظامی بھی تھے جنھوں نے سب سے پہلے کوڑے کھائے اور اپنی سیاسی فکر سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

قیوم نظامی ان لوگوں میں سے ہیں جو اس ملک میں سیاسی،جمہوری اور فلاحی ریاست کے تصور کے حامی ہیں ۔ان کے بقول پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو افہام و تفہیم سے سول اور ملٹری تعلقات کو متوازن بنانا ہوگا تاکہ ریاست کے تمام ادارے اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے فعال کردار ادا کرسکیں۔ کیونکہ مضبوط دفاع، مستحکم سیاسی،جمہوری، عدالتی، انتظامی ادارے اور خوشحال مقتدر عوام ہی پاکستان کی ترقی اور سلامتی کے ضامن بن سکتے ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات