کراچی:
سندھ میں ادویات کی خریداری اور کم معیاد والی دواؤں کی خریداری کے حوالے سے موجود قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری اسپتالوں میں کم مدت معیاد والی دواؤں کی خریداری کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ کم معیاد والی دواؤں کی قیمتیں زیادہ معیاد والی ادویات کے مقابلے میں بہت سستی ملتی ہیں۔
سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خریداری میں مبینہ گھپلوں کی اطلاعات ہر سال موصول ہوتی رہتی ہے، اربوں روپے کی ادویات کی خریداری کا معاملہ ہمیشہ سے متنازع بنتا ہے، سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خریداری اور کم میعاد کی ادویات کے حوالے سے متعلق قواعد و ضوابط موجود ہیں لیکن اس کے باوجود سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں خریدی جانے والی ادویات nearest expiry لی جاتی ہے۔
ماہر علم الادویہ کا کہنا ہے کہ کم ایکسپائری والی دوا اور زیادہ ایکسپائری والی دوا کی قیمتوں میں واضع فرق ہوتا ہے، کم مدت معیاد والی ادویات عام طور پر سستی مل جاتی ہیں۔ اربوں روپے کی خریدی جانے والی ان ادویات کی خریداری نہایت منظم اور تکنیکی انداز سے کی جاتی ہے کہ جس کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خریداری کے لیے سینٹرل پروکیومنٹ کمیٹی قائم ہیں، یہ کمیٹی سرکاری اسپتالوں کی ڈیمانڈ کے مطابق 75 فیصد ادویات کی خریداری کرتی ہے اور یہ کمیٹی ادویات کی قیمتوں کا تعین بھی کرتی ہے جبکہ 25 فیصد ادویات لوکل پرچیزنگ کے اختیار دے کر اسپتال اور ضلعی ہیلتھ آفس والے خود کرتے ہیں۔
ماہر علم الادویہ نے کہا کہ ان ادویات کی خریداری کے لیے ٹینڈر جاری کیے جاتے ہیں، یہ ٹینڈر سینٹرل پروکیومنٹ کمیٹی کے تحت جاری کیے جاتے ہیں اور یہ کمیٹی کسی بھی ٹینڈر منظور یا نہ منظور کرنے کا اختیار رکھتی ہے، یہ کمیٹی 26 ارکین پر مشتمل ہوتی ہے، اس کمیٹی کے ماتحت ادویات کی قیمتوں کا بھی تعین کیا جاتا ہے۔
محکمہ صحت کے تحت سرکاری اسپتالوں میں خریدی جانے والی ادویات جرنک نام (فارمولیشن/ کیمیکل) کے نام سے ٹینڈر کیے جاتے ہیں جس کمپنی کی ادویات کی قیمتیں کم ریٹ پر ہوتی ہیں اس کمپنی سے ادویات خریدی جاتی ہیں، لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں غیر معروف کمپنیوں کی جانب سے تیار کی جانے والی ادویات کو فارمولیشن کے نام سے خریدی جاتی ہے۔ ان ادویات کی خریداری کے دوران ادویات کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے اور پھر دیگر اسپتالوں میں خریدی جانے والی ادویات کو بھی اسی فارمولیشن اور اسی قیمت پر ٹینڈر کے ذریعے خریدنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ادویات کی خریداری فارمولیشن کے نام سے کی جاتی ہے جبکہ مارکیٹ میں ادویات ٹریڈ نام سے فروخت کی جارہی ہیں۔
ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی کی پالیسی کے مطابق جو ادویات اسپتالوں کو فراہم کی جاتی ہیں، ان کی کم از کم میعاد 6 ماہ یا بعض اوقات میں ایک سال کی ہونی چاہیے یعنی اگر کسی دوا کی ایکسپائری اگلے 2 سے 3 ماہ میں ہو رہی ہو تو وہ ادویات نہیں خریدی جانی چاہیے لیکن سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خریداری کے لیے کوئی مکینزم موجود نہیں۔
پاکستان ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی کے تحت ایکسپائرڈ دواؤں کے حوالے سے قوانین اور ضوابط نہایت واضح ہیں تاکہ عوام کو محفوظ ادویات فراہم کی جا سکیں۔ ڈرگ ایکٹ 1976 اور ڈریپ ایکٹ 2012 کے تحت اگر کوئی فرد یا ادارہ ایکسپائرڈ دوا فروخت کرتا پکڑا جائے تواسے 5 سال تک قید اور بھاری جرمانہ اداکرنا ہوگا جبکہ اسکا ڈرگ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا اور عدالتی کارروائی کا سامنا کر نا ہوگا۔
دوسری جانب ملک میں ادویات سے متعلق آج تک فارماکوپیا (Pharmacopoeia) بھی موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں مجموعی طور پر 900 ادویات کی فارمولیشن رجسٹرڈ ہیں، ان میں 400 فارمولیشن جان بچانے والی (Essential) جبکہ 500 فارمولیشن (Non-Essential) رجسٹرڈ ہیں۔
پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سندھ آپریشن کے سربراہ ڈاکٹر عبید علی نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ کم ایکسپائری والی دوا اور زیادہ ایکسپائری والی دوا کی قیمتوں میں واضع فرق ہوتا ہے، وہ دوا جس کی مدت معیاد چند ماہ میں ختم ہونے والی ہوتی ہے۔ اس دوا کی قیمت زیادہ مدت معیاد والی دوا سے بہت کم ہوتی ہے اس لیے سرکاری اسپتالوں میں کم مدت معیاد والی دوا خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوا کی افادیت تین سال تک برقرار رہتی ہے، دوا جس دن بنی ہے اس وقت اس کی افادیت اور زہریت الگ ہوتی ہے اور جب دوا ایکسپائری ہونے والی ہوتی ہے اس کے افادیت کم ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کم ایکسپائری والی دوا سستی مل جاتی ہے۔
ڈاکٹر عبید کا کہنا تھا کہ وہ دوا جو ایکسپائر نہیں ہوئی ہے وہ safely استعمال کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ کم ایکسپائری والی دوا اور زیادہ ایکسپائری والی دوا کی قیمتوں نمایاں فرق ہوتا ہے۔
واضع رہے کہ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خریداری کے حوالے سے چیئرمین نثار کھوڑو کی صدارت میں اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔ اجلاس میں محکمہ صحت میں ادویات کی خریداری کے مکینزم پر سوالات اٹھائے گئے جس پر سیکریٹری صحت ریحان اقبال بلوچ نے پی اے سی کو بتایا کہ محکمہ صحت میں ادویات کی خریداری کے لیے پروکیورمنٹ کمیٹی کے ذریعے ٹینڈر کیا جاتا ہے اور میرٹ اور شفاف طریقے سے ادویات کی خریداری کی جاتی ہے۔
سیکریٹری صحت ریحان اقبال بلوچ نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ ادویات کی خریداری میں سینٹرل پروکیومنٹ کمیٹی کی ہدایت پر سرکاری اسپتالوں کے لیے ادویات خریدی جاتی ہے۔