ناسا نے خاص ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک ڈیوائس تیار کی ہے جو ملبے کے نیچے پھنسے انسانی جسم کی معمولی سی حرکت کا بھی پتہ لگا لیتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی 2023ء میں ترکی اور شام کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ملبے میں پھنسے لوگوں کو زندہ نکالنے میں استعمال کی جا چکی ہے۔
امریکا کے محکمۂ برائے داخلی سلامتی اور امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے مل کر یہ ٹیکنالوجی تیار کی ہے جو خاص طور پر عمارتوں کے ملبے میں پھنسے لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
ناسا کی جانب سے تیار کردہ ٹیکنالوجی پر مبنی اس آلے کو ’فائنڈر‘ کا نام دیا گیا ہے جو ایمرجنسی میں زندہ افراد کو ڈھونڈنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
یہ آلہ مائیکروویو ریڈار سینسرز کے ذریعے ملبے کے نیچے یا برفانی تودے میں دبے لوگوں کی سانس اور دل کی دھڑکن کو دور سے محسوس کر کے ان کی موجودگی کا پتہ لگاتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو ہیٹی کے 2010ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد تیار کیا گیا تھا اور بعد ازاں اسے کمرشل بنیادوں پر ریلیز کیا گیا تھا۔
ترکی اور شام کے زلزلے میں ناسا نے اپنے مصنوعی سیاروں کو بھی ہدایت دی تھی کہ وہ متاثرہ علاقوں کی تصاویر حاصل کریں تاکہ نقصان کا اندازہ لگایا جا سکے اور امدادی ٹیموں کو رہنمائی فراہم کی جا سکے۔
ماضی میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں نصب ایک اور آلہ EMIT بھی استعمال میں لایا گیا تھا جو زمین کی فضا میں گرد و غبار کا تجزیہ کرتا ہے تاکہ کسی ممکنہ گیس لیک کا پتہ لگا کر خطرات کی فوری نشاندہی کی جا سکے۔
ناسا کے سیٹلائٹ ڈیٹا سے ماہرین کسی زلزلے کے بعد آنے والے آفٹر شاکس کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں تاکہ مزید خطرات سے بچا جا سکے۔
یہ سائنسی تعاون اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایسی ٹیکنالوجیز کس طرح انسانی زندگیوں کو بچانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔