31 C
Lahore
Thursday, July 3, 2025
ہومغزہ لہو لہووائے می ناٹ - ایکسپریس اردو

وائے می ناٹ – ایکسپریس اردو


میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں چلا گیا تھا۔

 آپ خود سوچیے جس شخص نے مسلسل تیس سال ڈسپلن میں زندگی گزاری ہو‘ کھانے میں احتیاط کی ہو‘ ہفتے میں پانچ دن ایکسرسائز کرتا ہو‘ پوری زندگی سگریٹ نہ پیا ہو‘ شراب نہ پیتا ہو‘ سٹریس سے بچنے کی کوشش بھی کرتا ہوں‘ ایک لمحہ ضایع نہ کرتا ہو اور جو روزانہ دو بار سوتا ہو‘ رات سات گھنٹے اور ڈیڑھ گھنٹہ دن میں قیلولہ‘ میڈیکل ٹیسٹ جس کے سارے ٹھیک ہوں‘ شوگر کے مرض کو 35 سال ہو چکے ہوں لیکن چھ مہینے کے ٹیسٹ (ایچ بی اے ون سی) میں شوگر ہمیشہ چھ سے نیچے آتی ہو‘ ٹرائی گلیسرائیڈ 53 ہو اور کولیسٹرول کسی بھی دواء کے بغیر 190 ہو‘ جو دن میں صرف ایک چپاتی کھاتا ہو اور وہ بھی ملٹی گرین ‘ سبزیاں‘ فروٹ‘ مچھلی اور تھوڑا سا گوشت خوراک ہو‘ ڈنر رات ساڑھے سات بجے کر لیتا ہو اور جس نے زندگی اچھے بچوں کی طرح گزاری ہو اسے جب ڈاکٹر بتائے گا آپ کے دل کی تین شریانیں بند ہیں تو اس کا پہلا تاثر کیا ہو گا؟ کیا اسے حیرت نہیں ہوگی‘ کیا وہ صدمے میں نہیں جائے گا‘ میرے ساتھ بھی یہی ہوا‘ میں ڈاکٹر کو حیرت سے دیکھنے لگا اور پھر صدمے میں چلا گیا۔

مجھ سے ڈاکٹر نے پوچھا ’’کیا آپ کو کبھی دل پر بوجھ محسوس ہوا یا سانس چڑھا ؟‘‘ میں نے اسے بتایا‘ میں آج بھی ایکسرسائز کر کے آیا ہوں اور تین منزل کی سیڑھیاں چڑھ کر آپ کے کلینک آیا ہوں‘ دل پر کبھی بوجھ یا درد محسوس نہیں ہوا ہاں البتہ کبھی کبھار سٹریس میں دل پر پتھر سا محسوس ہوتا ہے لیکن وہ بھی ایکسرسائز کے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے‘‘ ڈاکٹر کا جواب تھا ’’حیرت ہے پھریہ کیسے ہو گیا؟‘‘ میں بھی اپنے آپ سے یہی پوچھ رہا تھا‘ زندگی کے اس موڑ پر اکثر لوگ اپنے آپ سے یہی سوال کرتے ہیں ’’وائے می‘‘ اس کا سیدھا سادا جواب ہوتا ہے ’’وائے می ناٹ‘‘ دنیا میں جب لوگ روز دل اور دماغ فیل ہونے سے مرتے ہیں‘ جب ڈاکٹربھی بیمار ہو کر فوت ہو جاتے ہیں۔

 اسپورٹس مین گراؤنڈ میں گر کر جان دے دیتے ہیں اور سائیکل سوار‘ تیراک اور پائلٹ چند سیکنڈز میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو پھر ’’وائے می ناٹ‘‘ میں کیوں نہیں ہوسکتا؟ کیا میں انسان نہیں ہوں‘ کیا میں لوہے کا بنا ہوا ہوں یا میں اللہ تعالیٰ سے ہزار سال کی صحت مند زندگی لکھوا کر آیا ہوں‘ دنیا سے جب سب نے رخصت ہو جانا ہے تو پھر میں کیوںنہیں ہوں گا لہٰذا یہ سوال بنتا ہی نہیں‘میرا بھی نہیں بنتا تھا چناں چہ میں نے اس سوال کو جھٹک کر اپنے آپ سے اصل سوال کیا‘ میں نے خود سے پوچھا‘ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جتنی زندگی دی تھی تم نے وہ کیسے گزاری‘تم نے وہ عمر کہیں ضایع تو نہیں کر دی؟ اللہ کا لاکھ لاکھ کرم ہے میں اس معاملے میں خوش نصیب ہوں‘ میری زندگی کا کوئی لمحہ ضایع نہیں ہوا‘ کتابیں پڑھنے کا شوق تھا‘ ہزاروں کتابیں پڑھ گیا‘ آج بھی پڑھتا ہوں‘ سفر کا شوق تھا آدھی دنیا دیکھ لی۔

 مالی خوش حالی کے لیے درجنوں بزنس کیے‘ اللہ تعالیٰ نے ان میں بھی برکت ڈال دی اور ہمیشہ اوپر والا ہاتھ بنایا‘ صحافت میں حادثاتی طور پر نہیں آیا تھا‘یونیورسٹی میں باقاعدہ پڑھ کر بلکہ پہلی پوزیشن لے کر گولڈ میڈل کے ساتھ آیا‘ 32سال سے ورکنگ جرنلسٹ ہوں‘ 28سال سے کالم لکھ رہا ہوں اور 17سال سے مسلسل شو کر رہا ہوں‘ 27 سال کی عمر میں بیسٹ کالمسٹ کا ایوارڈ مل گیا تھا‘ حکومت نے ستارہ امتیاز بھی دے دیا اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور (میں نے یہاں سے ایم اے کیا تھا) نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دے دی‘ میں شاید یونیورسٹی کی تاریخ کا چوتھا شخص ہوں جسے اس اعزاز سے نوازا گیا‘ اللہ تعالیٰ نے سوشل میڈیا پر بھی کام کرنے کا موقع دیا اور اس سے بھی عزت اور رزق میں اضافہ ہوا‘ 25سال سے ٹریننگ کا کام بھی کر رہا ہوں‘ بزنس ٹریننگ دیتا ہوں۔

 ہزاروں کلائنٹس ہیں‘ دو دو ماہ کی ایڈوانس بکنگ چل رہی ہے اور یہ سب ماشاء اللہ ایک زندگی میں کیا‘ اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی بہت اچھی دی‘ بیٹے اپنا کام کر رہے ہیں اور جوانی میں خوش حال زندگی گزار رہے ہیں‘ بیٹی پارسنز نیویارک میں پڑھ رہی ہے‘ یہ فیشن کا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے‘ ماسٹر کلاس میں پوری دنیا سے 20 طالب علم لیے جاتے ہیں‘ یہ ان میں شامل ہے اور یہ ادارے کی سو سال کی تاریخ کی تیسری پاکستانی اسٹوڈنٹ ہے۔

 دوسری میڈیکل کالج میں ہے اور یہ بھی ہمیشہ پوزیشن ہولڈر رہی‘ اللہ تعالیٰ نے والدین اور بہن بھائیوں کی خدمت کا موقع بھی دیا‘ یہ فرائض بھی پورے ہو گئے چناں چہ زندگی سے اور کیا چاہیے؟ یہ اگر اب ختم بھی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ انسان اگر بستر کے بجائے چلتے پھرتے بھاگتے دوڑتے فوت ہوجائے تو اس سے بڑی نعمت کیا ہو سکتی ہے؟ یہ سوچ کر بڑا سہارا ملا۔

میرے والد کا 85سال کی عمر میں انتقال ہوا‘ وہ کہا کرتے تھے میں صحت مند تھا‘ میں نے 75سال تک ایک گولی نہیں کھائی لیکن پھر مجھ سے ایک غلطی ہو گئی‘ میں نے ٹیسٹ کرا لیے اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں ڈاکٹروں اور میڈیکل اسٹورز سے باہر نہیں نکل سکتا‘ میرے ساتھ بھی یہی ہوا‘ میں چھ ماہ بعد ٹیسٹ کراتا رہتا ہوں‘ مئی میں سارے بلڈ ٹیسٹ کرائے‘ سب شان دار تھے‘ تین سا ل قبل دل کا معائنہ بھی کرایا تھا‘ اس وقت یہ بھی ٹھیک تھا‘ جون میں سوچا دل کے ٹیسٹ دوبارہ کرا لیتا ہوں‘ ای سی جی کرائی ٹھیک تھی‘ ایکو کرائی یہ بھی نارمل تھی‘ ای ٹی ٹی شروع کی‘ مشین پر چلنا شروع کیا تو 12 منٹ تک کچھ نہیں ہوا لیکن پھر سانس پھولنا شروع ہو گئی‘ اس وقت ای سی جی میں تبدیلیاں آنے لگیں‘ ڈاکٹر نے بتایا آپ کا دل نارمل نہیں ہے‘ ای ٹی ٹی کی رپورٹ ٹھیک نہیں‘ شام کو رپورٹ آئی تو ڈاکٹر نے کہا‘ فوراً اینجیو گرافی کرائیں اور ذہنی طور پر بائی پاس کے لیے تیار ہو جائیں‘ یہ دو لفظ بم بن کر گرے‘ میں پورا ہفتہ شاک میں رہا‘ دل میں کبھی درد نہیں ہوا تھا لیکن رپورٹ کے بعد دل پر مسلسل بوجھ اور درد رہنے لگا‘ میں اینجیو گرافی سے گھبرا رہا تھا۔

 جم میں بھی جس شخص کو بتایا وہ حیران ہو گیا‘ اس رپورٹ کے باوجود جم میں کارڈیوکی اور 140 تک ہارٹ ریٹ چلا گیا اور مشین سے زندہ سلامت نیچے آگیا لیکن شاک اس کے باوجود تھا‘ ڈاکٹروں اور دوستوں سے مشورے شروع کر دیے تو دو چیزیں سامنے آئیں‘ اول ہر دوسرے شخص کے دل میں اسٹنٹ ہیں اور یہ آدھ گھنٹے کا نارمل سا پروسیجرہوتا ہے‘ کلائی یا ران کی بڑی نس کاٹ کر تار‘ کیمرہ اور نالی دل تک پہنچائی جاتی ہے‘بلاکیج چیک کی جاتی ہے اور اس کے بعد اسٹنٹ ڈال دیے جاتے ہیں‘ مریض کو ایک دن اسپتال رکھا جاتا ہے اور وہ اگلے دن معمول کے کام شروع کر دیتا ہے وغیرہ وغیرہ‘ یہ تصویر کا ایک رخ تھا‘ یہ نارمل تھا لیکن دوسرا رخ ہول ناک تھا‘ اس رخ کے مطابق ڈاکٹر اکثر اوقات بلاوجہ اور بلاضرورت اسٹنٹ ڈال دیتے ہیں اوریہ اسٹنٹ بھی معیاری نہیں ہوتے‘ڈاکٹر اعلیٰ درجے کے اسٹنٹ کے پیسے وصول کر کے غیر معیاری اسٹنٹ ڈال دیتے ہیں۔

 یہ پہلو خوف ناک تھا‘ اللہ تعالیٰ نے بہت اچھے ڈاکٹر دوست بھی دے رکھے ہیں‘ میں نے ان سے مشورہ کیا‘ دو کارڈیالوجسٹ ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئے‘ ان کا کہنا تھا تم فکر نہ کرو ہم اپنی نگرانی میں پروسیجر کروائیں گے اگر اسٹنٹ کی ضرورت ہوئی تو ڈلوائیں گے اور اگر ان کے بغیر گزارہ ممکن ہوا تواسٹنٹ نہیں ڈلوائیں گے اور اگر خدانخواستہ بائی پاس کی ضرورت ہوئی تو پھر کسی بہت اچھے سرجن سے کرائیں گے وغیرہ وغیرہ‘ بائی پاس کے لفظ سے مجھے ہول اٹھنے لگتے تھے‘ میں اینجیو گرافی سے قبل سٹی اینجیو سکین بھی کرانا چاہتا تھا لیکن میرے ڈاکٹر دوست اس کے لیے رضا مند نہیں تھے‘ ان کا خیال تھا سٹی سکین کے بعد بھی اینجیو گرافی کرانا پڑے گی‘ بار بار تابکاری سے گزرنا مناسب نہیں لیکن میں نے ان کو بتائے بغیر سٹی اینجیو سکین کرا لیا‘ اس میں بھی اینجیو گرافی اور بائی پاس کی ایڈوائس آ گئی۔

میں مزید پریشان ہو گیا‘ میں نے اس وقت تک اپنی فیملی کو نہیں بتایا تھا‘ میری والدہ بہت حساس ہیں‘میں نے یہ خبر ہر صورت ان سے چھپاناتھی‘ بچے مجھ سے بے انتہا پیار کرتے ہیں‘ میں انھیں بھی صدمے سے بچانا چاہتا تھا چناں چہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کروں‘ میرے ایک دوست نے اس دوران ملک ریاض صاحب کو بتا دیا‘ ان کا دوبئی سے فون آ گیا‘ ان کا کہنا تھا اینجیو گرافی سے بالکل نہ گھبراؤ‘ میں تین مرتبہ کرا چکا ہوں‘ یہ بہت آسان ہے۔

 ان کا دوسرا مشورہ تھا تم نے یہ پروسیجر صرف پاکستان سے کرانا ہے‘ دوبئی یا لندن کے بارے میں سوچنا تک نہیں‘ یہ قصائیوں کی دکانیں ہیں اور یہ لوگ تمہیں اٹھنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے اور تیسرا اینجیو گرافی سے پہلے تم میرے پاس دوبئی آؤ گے‘ دو تین دن میرے ساتھ رہو گے اور پھر علاج کراؤ گے‘ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا میرا ڈاکٹروں کا تم سے زیادہ تجربہ ہے لہٰذا میرا مشورہ ہے تم کسی کی بات نہ سنو‘ سیدھا میرے پاس آؤ‘ ہم گپ لگائیں گے‘ گھومیں پھریں گے اور پھر اینجیو گرافی کا فیصلہ کریں گے‘ میں نے اپنے ڈاکٹر دوست سے مشورہ کیا‘ اس کا کہنا تھا بالکل سفر نہ کرنا‘ تمہیں راستے میں ہارٹ اٹیک ہو جائے گا‘ میں مزید خوف زدہ ہو گیا لیکن میں نے اس کے باوجود والدہ کو بہن کے پاس بھجوا دیا اور خود دوبئی بھاگ گیا۔    (جاری ہے)



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات