لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایاز ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ آئین اور قانون کی بات یہاں کیسے ہو سکتی ہے، کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے آئین کو درست کردیا ہے، پچھلے آٹھ ججوں نے فیصلہ دے کہ آئین کو برباد کیا تھا انھوں نے اس کو درست کر دیا ہے تو اسی آئین کے تحت جب اسمبلیاں توڑی گئی تھیں تو نوے دن میں الیکشن نہیں ہوئے تھے، تو تب کہاں تھا آئین؟، تب کہاں تھا قانون؟۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بات مکافات عمل سے میرا خیال ہے کہ آگے جا چکی ہے۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ یہ جو فیصلہ آیا اس قوم کی توقعات اور جو ان کا گمان تھا اس کے عین مطابق آیا ہے، پوری قوم کو یقین تھا کہ یہی فیصلہ آنا ہے، یہ عدالتوں پر قوم کے اعتبار کا عالم ہے، اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ اس ملک میں بندیال کے دور میں، ثاقب نثار کے دور میں، جسٹس گلزار کے دورمیں، قاضی فائز عیسٰی کے دور میں جو کچھ ہو چکا ہے اب اس سے زیادہ برا نہیں ہو سکتا، لوگوں کا گمان اور خوش فہمی دور ہو گئی۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ تحریک انصاف کے پاس آپشن جو تحریک عدم اعتماد آئی تھی، نام نہاد تحریک عدم اعتماد جس کا مولانا صاحب نے ذکر کر دیاکہ کس کے کہنے پر لائی گئی تھی اور وہ اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سیاست سے دور رکھیں، جس دن سے اسٹیبلشمنٹ کی فیور ان سے گئی اسی دن سے پی ٹی آئی کی مشکلات شروع ہو گئی تھیں، اب ایک غیر منتخب حکومت جس کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں اس کو آپ نے دوتہائی اکثریت دیدی کہ وہ اب آئین پاکستان کے ساتھ جو وہ چاہے کر سکے۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ یہاں جذبات سے بھی ہم کام لیتے ہیں ہم محبت سے بھی کام کرتے ہیں، تلقین بھی کرتے ہیں لیکن ہم نے خبر تو کرنی ہوتی ہے، میںدعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ مال غنیمت کا لفظ پورے پاکستان میں نے یوز کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ مال غنیمت ان سیاسی جماعتوں میں بانٹا جائے گا، بٹ گیا، جب چھبیسویں آئی تو میں نے کہا ستائیسویں ترمیم آئے گی اور وہ آئے گی کون روک سکتا ہے۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ دیکھیں جب سے یہ الیکشن ہوئے ، الیکشن سے پہلے جس طرح الیکشن کمیشن کی جانب سے ہوتا رہا کہ انڈیپنڈنٹلی الیکشن لڑنا چاہتی تھی پی ٹی آئی، جیسے سسٹم کے تحت لڑنا چاہ رہی تھی، تو پھر اس کیلیے جو بھی سسٹم آیا ان کا نشان بھی چھین لیا، جو صورتحال ہے یہ سب اسی کی کڑی ہے اور وہ چلتے چلتے جو ہے آپ دیکھ لیں کہ اسمبلی میں کچھ عرصہ چلے، جب دیکھا انھوں نے پھر چھبیسویں آئینی ترمیم آ گئی، اب ستائیسویں کیلیے بھی جو لگے ہوئے ہیں کہ جو بھی ہے سسٹم ان کو ختم کرنا تھا تو بالکل ختم کر کے وفاق سے بھی اور صوبائی حکومتوں سے بھی ان کو ختم کر کے پھراپنا یعنی کہ مینڈیٹ جو ہے وہ بڑھانا۔