30 C
Lahore
Tuesday, July 1, 2025
ہومغزہ لہو لہوکے الیکٹرک کو ڈیوٹی کی مد میں وصول کیے جانیوالے ماہانہ 70...

کے الیکٹرک کو ڈیوٹی کی مد میں وصول کیے جانیوالے ماہانہ 70 کروڑ سندھ حکومت کو دینے کا حکم



کراچی:

سندھ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے کے الیکٹرک کو ڈیوٹی کی مد میں وصول کیے جانے والے ماہانہ 70 کروڑ روپے ہر ماہ صوبائی حکومت کو ادا کرنے کی ہدایت کردی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور سندھ حکومت کے اداروں کے 30.9 ارب روپے کے واجبات ادائیگی تک کے الیکٹرک کو ستمبر 2024 سے ہر ماہ صارفین سے ڈیوٹی کی مد میں وصول کیے جانے والے 70 کروڑ روپے ہر ماہ سندھ حکومت کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

پیر کو پی اے سی کا اجلاس چیئرمین نثار کھوڑو کی صدارت میں سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین قاسم سراج سومرو، خرم کریم سومرو اور مخدوم فخرالزمان سمیت کے الیکٹرک کی سعدیہ دادا، واٹر کارپوریشن کے انجنیئر اسداللہ خان، محکمہ انرجی کے سیکریٹری مشتاق احمد، ڈی جی آڈٹ سندھ سمیت دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔

پی اے سی نے ستمبر 2024 سے ہر ماہ صارفین سے وصول ڈیوٹی کی رقم سندھ حکومت کو ادا کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں ڈیوٹی کی رقم پر فنانشل چارجز عائد کرنے اور کمیٹی کا استحقاق مجروح کرنے سمیت کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے کے الیکٹرک کو خبردار کردیا ہے۔

کے الیکٹرک نے اگست 2024 تک صارفین سے وصول ڈیوٹی کی مد میں 32 ارب کی سندھ حکومت کو ادائیگی کا معاملہ کراچی سیوریج واٹر کارپوریشن پر 23.5 ارب اور سندھ حکومت کے دیگر اداروں پر 7.4 ارب کے واجبات کی وصولی سے مشروط کردیا ہے۔ پی اے سی نے کے الیکٹرک اور کراچی واٹر سیوریج کارپوریشن کے واجبات کا معاملہ حل کرنے کے لیے سندھ کابینہ کو بھجوانے کی ہدایت کردی ہے۔

اجلاس میں کے الیکٹرک کا ڈیوٹی کی مد میں صارفین سے وصول 32 ارب  روہے کی سندھ حکومت کو ادائیگی کے معاملے کا جائزہ لیا گیا۔

چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے استفسار کیا کہ کے الیکٹرک کراچی کے کتنے صارفین سے بجلی کے بلوں کے ذریعے سندھ حکومت کی طرف سے الیکٹرک ڈیوٹی کی مد میں ماہانہ پیسے وصول کررہی ہے؟

کے الیکٹرک کی سعدیہ دادا نے بتایا کہ کے ای کراچی میں 65 لاکھ صارفین سے 6 فیصد الیکٹرک ڈیوٹی کی مد میں ماہانہ 500 سے 700 ملین روپے وصول کررہی ہے۔

نثار کھوڑو نے استفسار کیا کہ کے ای ہر ماہ صارفین سے ڈیوٹی تو وصول کررہی ہے مگر وہ رقم سندھ حکومت کو کیوں ادا نہیں کررہی، کے ای صارفین سے وصول ڈیوٹی کی رقم اپنے پاس رکھنے کی مجاز نہیں ہے۔

کمیٹی رکن قاسم سومرو نے کہا کہ کس قانون کے تحت کے ای ڈیوٹی کی رقم اپنی پاس رکھ رہی ہے اس متعلق کوئی قانون بتائیں۔ نثار کھوڑو نے کہا کہ کے ای صارفین سے وصول ڈیوٹی کی رقم سندھ حکومت کو ادا نہ کرکے کیا رقم ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔

قاسم سومرو نے کہا کہ واجبات کی رقم ادا نہ کرنے پر پارلیمینٹیرینز کی رکنت معطل ہوجاتی تو کہیں کے ای کے ساتھ بھی ایسا نہ ہوجائے۔ کے ای کی سعدیہ دادا نے پی اے سی کو بتایا کہ کے الیکٹرک نقصان میں جارہا ہے اس کے باوجود کے ای نے ڈیوٹی کی مد میں ماہ اپریل 2024 میں 721 ملین روپے اور مئی 2024 میں 545 ملین روپے سندھ حکومت کو ادا کیے ہیں۔

چیئرمین نثار کھوڑو نے کہا کہ کے ای صرف 2 ماہ کی ڈیوٹی کی رقم سندھ حکومت کو ادا کرکے دانہ نہ ڈالے، باقی 32 ارب روپے سندھ حکومت کو کب ادا کیے جائیں گے۔ کے ای عوام سے وصول انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسز کی ادائگیاں کررہا ہے تو الیکٹرک ڈیوٹی کی مکمل رقم سندھ کو کیوں نہیں دی جارہی۔ کے ای کا ڈیوٹی کی رقم ادا نہ کرنا غیرآئینی عمل ہے۔

کے الیکٹرک کی سعدیہ دادا نے کہا کہ کے الیکٹرک کے کراچی واٹر سیوریج کارپوریشن پر 23.5 ارب روپے کی ریکنسائیل رقم کی واجبات ہیں اور سندھ حکومت کے مختلف اداروں پر 7.4 ارب کے واجبات ہیں اگر یہ ادارے کے ای کو ادائیگیاں کردیں تو کے ای سندھ حکومت کو واجبات ادا کرسکے گی۔

قاسم سومرو نے کہا کے یہ شرط ہی غیر قانونی ہے کہ کے ای کو واٹر کارپوریشن یا سندھ کے اداروں سے واجبات ادا ہونگے تو ہی کے ای ڈیوٹی کی رقم سندھ حکومت کو دے گی۔ اگر کے ای عوام سے وصول ڈیوٹی کی مد میں 32 ارب روپے سندھ حکومت کو ادا نہیں کرے گی تو سندھ قرض سمجھ کر 32 ارب پر مزید فنانشل چارجز عائد کرے گا۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے 23.5 ارب روپے کے، کے الیکٹرک کے واجبات کی ادائیگی کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دے دیا۔

انجنیئر اسداللہ خان نے بتایا کہ 14 نومبر 2005 اور 13 اپریل 2009 میں وفاقی حکومت اور ابراج گروپ کے درمیان معاہدہ ہوا جس کے تحت واٹر بورڈ، جیل، ہائی کورٹ سمیت اگر کسی اسٹریٹیجک کسٹمر نے بجلی کے بلوں کے واجبات ادا نہیں کیے تو وہ رقم وفاقی حکومت ادا کرے گی۔ وفاقی حکومت اور ابراج گروپ کے درمیان معاہدے میں واٹر بورڈ اور سندھ حکومت کے دستخط نہیں ہیں اور کے ای کے واٹر بورڈ پر 23.5 ارب کے واجب الادا ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات