30 C
Lahore
Sunday, June 29, 2025
ہومغزہ لہو لہوجنگ اور تجارت - ایکسپریس اردو

جنگ اور تجارت – ایکسپریس اردو


 ایران اور اسرائیل کے مابین سیز فائر؟ اگر ایران نے اسرائیل پر بڑی تعداد میں میزائل نہ داغے ہوتے تو یہ جنگ بندی کبھی نہیں ہوتی۔ ان ممالک کے لیے کبھی سیز فائر نہیں ہوا جو اسرائیل سے مقابلہ نہ کرسکے اور آج سے قبل کیا اسرائیل نے کبھی کسی جنگ بندی کو مانا ؟ اسرائیل یہودیوں کا ملک ہے، وہاں جمہوریت کا طرزِ حکومت ہے، وہاں آئین ہے، مضبوط معیشت ہے۔

اس کے برعکس ایران میں پینتالیس سال سے انقلاب کے نام پر حکومت چل رہی ہے۔ نیتن یاہو، مودی کی طرح انتہا پرست تو ہیں مگر ہیں وہ سسٹم کا حصہ۔ جب کہ ایران کا طرزِ حکومت نارتھ کوریا کی مانند ہے، وہاں مشکل سے ہی کوئی ہوگا جو انقلاب کی مخالفت کر سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیکیورٹی ریاست کا مستقبل اچھا نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر سوویت یونین۔

2020 جب مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنانے کی کوشش کی، تب ہم نے کچھ نہیں کیا۔ ہماری خاموشی نے ہندوستان کو شہہ دی اور ہندوستان نے ہم پر دوبارہ حملہ کرنے کی جرات کر ڈالی۔ امریکا کے نائب صدر نے یہ تک کہہ دیا کہ ہندوستان کو پاکستان کے ان مخصوص علاقوں اور ٹھکانوں پر حملہ کرنا چاہیے جہاں وہ دہشت گرد پناہ گزین ہیں جو بارڈر پار کرکے ہندوستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں اور پاکستان، ہندوستان کو ایسی کارروائیوں کی اجازت دے۔ 

پاکستان کا وجود جمہوریت کے نام پر تھا۔ یہاں ان سیاسی پارٹیوں کا مضبوط انفرا اسٹرکچر تھا۔ جن آمریتوں کو امریکا کی چھتر چھاؤں میں یہاں لایا گیا۔ امریکا نے ایسا بھی محسوس کیا کہ پاکستان اور دنیا کے لیے جمہوری انفرا اسٹرکچر بہتر ہے،کیونکہ جمہوری نظام کے اندر یہ ملک انتہا پرستوں کے ہتھے نہیں چڑھے گا۔ ویسے بھی امریکا ہمارا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے۔ 

امریکا نے پہلی مرتبہ تجارت کو ہتھیار بنا کر دنیا کی اقوام کو جھکانے کی کوشش کی بشمول چین، مگر تجارت میں اور خاص کر برآمدات میں چین کے لیے اب سب سے بڑا مرکز امریکا نہیں رہا۔ پچھلے دو برس میں چین کی برآمدات پچیس فیصد ان ممالک کی طرف بڑھی ہیں جن میں امریکا شامل نہیں۔

ایران کی آبادی تقریباً نوکروڑ ہے۔ 2012 میں ایران پر بے جا پابندیاں عائد کی گئیں۔ ان تیرہ برس میں ایران کی مجموعی پیداوار تقریباً پینتالیس فیصد تک کم ہوئی ہے، ان کو تجارت سے دلچسپی نہیں۔ نارتھ کوریا کی طرح جنگی صلاحیتوں کو بڑھانے سے غرض ہے، جب کہ ساؤتھ کوریا۔ نارتھ کوریا کے مقابلے فوجی طاقت نہ سہی لیکن مضبوط معیشت ضرور رکھتا ہے اور دنیا کے دس بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

ہندوستان کے حالیہ حملے میں امریکا ایک خاموش تماشائی تھا لیکن جب پاکستان نے ہندوستان کے حملوں کا منہ توڑ جواب دیا تو امریکا نے سیز فائر کروا دیا۔ چاہے پاکستان ہو یا پھر ایران ہمارے خطرات ابھی ٹلے نہیں۔ ہمارے دشمنوں کے عزائم اب بھی وہی ہیں مگر رخ انھوں نے دوسرا اختیارکر لیا ہے۔ دنیا پاکستان کو اب ایٹمی قوت مانتی ہے، ہم فوجی طاقت میں مضبوط ہیں مگر پاکستان کی ضرورت اب تجارت ہے، ہم نظریاتی ریاست نہیں ہیں۔

ان پچھتر سالوں میں امریکا، مغربی یورپ کا سب سے بڑا اتحادی رہا اور سب سے بڑا فوجی اتحاد نیٹو رہا۔ آہستہ آہستہ روس نیٹو کے لیے خطرہ بنتا گیا اور امریکا کا مغربی یورپ کا وہ اتحاد بھی نہیں رہا جو ماضی میں تھا۔اب نیٹو نے خود پر انحصارکرنا شروع کیا۔

مغربی ممالک جوکل تک اپنی مجموعی پیداوارکا ڈھائی فیصد دفاع پر خرچ کرتے تھے، اس دفعہ پانچ فیصد تک پہنچ چکے ہیں، یعنی بارہ سو ارب ڈالر۔ اب سب فوجی طاقت بننے کو ترجیح دے رہے ہیں اور یہ روایت چلی تب جب پیوتن نے یوکرین پر حملہ کیا۔ نیٹو کے حالیہ اجلاس میں اس بات پر غورکیا گیا کہ یوکرین کو نیٹوکا حصہ بنایا جائے۔ اس اجلاس میں ٹرمپ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی نے بھی شرکت کی۔

کچھ دن قبل ہی پیوتن نے اس بات دعویٰ کیا ہے کہ روس نے اپنے ایٹمی حملوں کے نظام کو مزید بہتر بنایا ہے جس کا رخ برطانیہ کی طرف ہے اور آج ہی ایک خبر میری نظر سے گزری کہ برطانیہ سات C-130 جہاز ایک ارب ڈالر میں خرید رہا ہے جو ایٹم بم لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دراصل یہ برطانیہ کی پیوتن کے خلاف جوابی کارروائی تھی جس کو انگریزی میں rehtoric  کہا جاتا ہے ۔ پیوتن ایک آمر ہے۔ ایران اور نارتھ کوریا میں آمریت ہے اور چین ایک بہت بڑی معاشی طاقت بننے جا رہا ہے۔ چین ٹیکنالوجی میں بھی امریکا سے آگے جا رہا ہے۔ چین دنیا کے کسی تضاد میں براہ ِراست آگے نہیں آئے گا۔ امریکا نے جو ہاتھ روس کی طرف بڑھایا تھا، پیوتن کے صحیح جواب نہ آنے پر امریکا یہ ہاتھ چین کی طرف بڑھا رہا ہے، مگر ٹرمپ سرکار بھی موڈی ہے، وہ کب کیا رخ اختیارکریں کچھ پتا نہیں چلتا۔

ایک طرف فوجی طاقت بننے کا رجحان ہے اور دوسر ی طرف دنیا عالمگیریت کی طرف بڑھ رہی ہے، جس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے تجارت۔ تجارت سے وہ ہی ممالک مستفیض ہوںگے، جن ممالک نے انسانی وسائل میں سرمایہ کاری کی انھوں نے انسانی ذہانت، ہنر اور محنت میں کامیابیاں حاصل کیں۔

ان ابھرتے چیلنجز میں پاکستان کے لیے، نئی مشکلات اور نئی حقیقتیں سامنے آ رہی ہیں۔ ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کو برداشت کریں گے۔ ایران کی پینتالیس سالہ آمریت کو اندرونی خطرات ہیں۔ ایران انحصارکرتا ہے بنیاد پرستی اور نظریاتی ریاست ہونے پر جو شاید اب نہیں کرسکے گا اور اگر ایسا ہوا تو ایران کو بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ سعودی عرب بنیاد پرستی کے حصار سے نکل چکا ہے۔

اب ایران کے لیے آزاد تجارت کے راستے کھول دیے گئے ہیں اور اس بات سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ اب ایران یورینیم کی افزودگی پر امریکا سے کوئی معاہدہ کرنے جا رہا ہے، جس کا اشارہ صدر ٹرمپ نے نیٹو کے اجلاس میں دے دیا ہے۔

پاکستان کے لیے بھی آسانی ہو چکی ہے کہ وہ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ کرے اور ایران کے ساتھ تجارت کے راستے کھولے۔ یہ گیس پائپ لائن ہندوستان بھی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان اور ہندوستان کے تضادات بھی کم ہونے کے امکانات پیدا ہوںگے۔ تجارت کے مواقعے پیدا ہوںگے۔ ہندوستان سینٹرل ایشیا میں تجارت کا خواہاں ہے اور اس کے لیے ہندوستان کو پاکستان سے راستے کی ضرورت ہے۔

دنیا کے منظر نامے میں جہاں جنگیں ہو رہی ہیں وہاں اقوام کو تجارت گلوبلائز کر رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جنگیں جلدی سے ختم بھی ہو رہی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ بہ مشکل چار دن رہی۔ اسرائیل اور ایران کی جنگ گیارہ دن تک جاری رہی۔

امریکا اب اتنی بڑی طاقت نہیں رہا جس نے ماضی میں عراق پر حملہ کیا یا پھر افغانستان پر۔ پاکستان اپنا دفاع کرسکتا ہے، اس بات کا اندازہ دنیا کو ہماری حالیہ ہندوستان کے ساتھ جنگ میں ہوچکا ہے۔ ہندوستان میں مودی کے خلاف ایک نیا بیانیہ جنم لے رہا ہے کیونکہ دونوں مما لک کے عوام میں اب نفرتیں نہیں رہیں۔

پاکستان کی ساخت اور پاکستان کی سالمیت تجارت کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتی۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ہے جو صرف ٹیکسز کے ذریعے نہیں اتر سکتا۔ اس کے لیے تجارت کے راستے کھولنے پڑیں گے۔ تجارت کے لیے دیرپا حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوگی۔

ہماری جمہوری اقدار بہت کمزور ہیں۔ پاکستان میں اب کیونکہ براہِ راست آمریت نہیں آسکتی لٰہذا ہائبرڈ جمہوریت کا راستہ اپنانا پڑا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنا سفر مکمل جمہوریت کی طرف جاری رکھنا ہوگا، آئین کی بالادستی اس ملک کی سالمیت کی ضامن ہے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب اس ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد ہو۔
 



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات