خیبر پختون خوا کی حکومت کو کہا گیا تھا کہ وہ بانی سے ملاقات کے بغیر بجٹ پیش ہی نہ کرے مگر بجٹ تو جون میں ہر حال میں پیش ہونا ہی تھا۔
بجٹ کی منظوری کے لیے دس دن باقی تھے مگر صوبائی حکومت نے تاخیر سے بجٹ پیش کیا اور بانی کی اجازت کے بغیر سب اسمبلیوں سے پہلے بجٹ منظورکر لیا اور وزیر اعلیٰ کے پی نے بجٹ منظوری کا یہ جواز پیش کیا کہ اگر بجٹ منظور نہ کیا جاتا تو ہماری مخالف وفاقی حکومت مالیاتی ایمرجنسی لگا کر ہماری حکومت برطرف کر دیتی جس سے گورنر کے پی اور پی ٹی آئی کی مخالف پارٹیوں کی ازلی خواہش پوری ہو جاتی اس لیے ہم نے مائنس بانی پارٹی کی سازش کو ناکام بنا کر پی ٹی آئی کا عوامی مینڈیٹ بچا لیا۔
خیبر پختون خوا بانی چیئرمین کا گڑھ ہے اور ہماری حکومت کو آئینی طور نہیں ہٹایا جا سکتا تھا اور بجٹ کی منظوری نہ چاہنے والے دشمنوں کے ایجنڈے کو فروغ دے رہے تھے جن کی سازش کو ہم نے بجٹ منظور کرکے ناکام بنا دیا ہے بعد میں حکومت بانی کی مشاورت سے بجٹ میں رد و بدل کر سکتی ہے اور اگر بانی نے جب بھی کہا ہم اپنی حکومت ختم کر دیں گے بجٹ منظوری بہت ضروری تھی۔
خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان نے بانی سے ملاقات کے بعد بتایا کہ بانی صوبائی بجٹ کی منظوری پر راضی ہو گئے ہیں جب کہ اسی روز بانی کی ہمشیرہ نے بھی اپنے بھائی سے ملاقات کے بعد بتایا کہ بانی بجٹ منظوری پر ناراض ہیں اور انھوں نے کہا ہے کہ کے پی کے ارکان اسمبلی بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو گھر جائیں گنڈا پور کو پہلے میرے پاس آنا چاہیے تھا مگر وہ آئے اور نہ ہی کے پی اسمبلی کے ارکان اڈیالہ جیل کے باہر ہی پہنچے۔
بہرحال کے پی اسمبلی ملک کی باقی اسمبلیوں کے مقابلے میں پہلی اسمبلی ہے جس نے سب سے زیادہ جلد بازی دکھائی اور نیا بجٹ منظور کرکے اپنی حکومت ختم ہونے سے بچا لی جب کہ سندھ اسمبلی کے پی بجٹ کی منظوری کے دن ضمنی اخراجات کے ساتھ ضمنی بجٹ منظور کرا سکی جب کہ اسی دن بلوچستان اسمبلی نے اپنے ضمنی میزانیے کی منظوری دی جب کہ پنجاب اسمبلی کا جب منگل کو بجٹ پر بحث کے لیے اجلاس شروع ہوا تو ایوان میں صرف 6 ممبر موجود تھے اور کورم پورا کرانے کے لیے اسپیکر کو سوا گھنٹہ انتظار کے بعد بجٹ اجلاس چلانا پڑا اور یہی مسئلہ گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی میں درپیش رہا جب بجٹ اجلاس پر بحث کے لیے اجلاس شروع ہونا تھا تو صرف سات ارکان اسمبلی موجود تھے جس پر گھنٹیاں بجائی گئیں تو کورم پورا ہونے پر اجلاس شروع ہوا تھا کیونکہ دونوں بڑے صوبوں کی اسمبلیوں کو کے پی اسمبلی کی طرح جلدی تھی نہ کوئی خطرہ تھا کیونکہ سندھ و پنجاب اسمبلیوں میں بھی کے پی کی طرح حکمران پارٹیوں کی واضح اکثریت ہے اور صوبوں کے علاوہ وفاق میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومت اور صوبہ بلوچستان بھی دونوں حکمران پارٹیوں کے پاس ہے۔ سندھ و بلوچستان اسمبلیاں منگل تک صرف ضمنی بجٹ کی منظوری تک ہی پہنچیں جب کہ خیبرپختون خوا اسمبلی نے اپنے بانی کی مرضی کے خلاف جلدی کی اور نیا بجٹ منظور کر لیا۔
قومی اسمبلی نے بھی باقی تین صوبائی اسمبلیوں کی طرح جلدی نہیں کی اور 108 مطالبات زر منظورکر لیے کیونکہ اتحادی وفاقی حکومت کو بھی خطرہ نہیں تھا کیونکہ بظاہر بجٹ کی مخالفت دکھانے والی اتحادی پیپلز پارٹی پہلے ہی حکومت کو بجٹ کی حمایت اور بجٹ منظوری کا یقین دلا چکی تھی۔ اب تک ملک کی تمام اسمبلیوں میں یہی ہوتا آیا ہے اور ہر اسمبلی میں اپوزیشن کا یہ اولین اصول رہا ہے کہ اس نے بجٹ پیش ہوتے ہی بجٹ پڑھے بغیر ہی حکومتی بجٹ کی مخالفت کرنی ہے۔
بجٹ دستاویزات پڑھے بغیر ایوانوں میں اچھالنی اور پھاڑنی ہے اور بجٹ کو عوام دشمن قرار دینا ہے جب کہ ہر حکومت اپنے پیش کردہ بجٹ کو عوام دوست قرار دیتی ہے خواہ اس میں عوام پر مزید اربوں روپے کے ٹیکس بڑھائے گئے ہوں اور پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے عوام دبے ہوں مگر وفاقی بجٹ نے ملک میں مزید ٹیکس لگانے ہی لگانے ہیں خواہ حکومت کے بجٹ پر اپوزیشن لاکھ احتجاج کرے۔
ایوان میں بجٹ تقریر سننے کے بجائے ہنگامہ آرائی کرے، حکومت پر کڑی تنقید کرے مگر حکومتوں نے ہر سال بجٹ پیش کرنے ہی ہوتے ہیں جس کی اپوزیشن نے ہر حال میں سخت مخالفت کرنی ہی ہوتی ہے مگر اسمبلیوں میں بجٹ کی حکومتی تعریفیں اور اپوزیشن کی کڑی تنقید کا یہ تماشا عشروں سے جاری و ساری ہے جسے دیکھ کر عوام ہر سال صبر کا گھونٹ پینے پر مجبور ہیں مگر یہ بجٹ تماشا نام نہاد جمہوریت میں عوام کو ضرور دیکھنے کو ملتا ہے مگر غیر سول حکومتوں میں جب اسمبلیاں موجود نہیں ہوتیں تو عوام یہ بجٹ تماشا دیکھنے سے محروم رہتے ہیں اور غیر سول حکومتیں اپنی مرضی کا بجٹ پیش کرواتی اور آسانی سے منظور کراتی رہی ہیں۔
غیر جمہوری حکومتوں میں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ان کی طرف سے بجٹ سے قبل عوام کو یہ آسرے نہیں دیے جاتے کہ بجٹ عوام کی فلاح و بہبود کا اور عوام دوست ہوگا۔ انھوں نے بجٹ میں جو کرنا ہوتا ہے وہی بجٹ پیش کراتے ہیں اور اسمبلیاں ہوتی ہیں نہ ایوان بجٹ آسانی سے منظور کرا لیے جاتے ہیں اور ایوان سے باہر مخالفین احتجاج اور بجٹ مسترد کرتے رہتے ہیں مگر بالاتر حکومتیں کوئی اثر نہیں لیتیں کیونکہ وہ عوام کو جواب دہ ہوتی ہیں نہ انھوں نے جھوٹے وعدے کرکے عوام سے ووٹ لینے ہوتے ہیں۔ وہ سیاسی حکومتوں کی طرح سیاسی مفادات نہیں دیکھتیں مگر پھر بھی ان کے بجٹ میں عوام پر وہ قیامت نہیں ڈھائی جاتی جو ٹیکسوں پر ٹیکس بڑھا کر سیاسی حکومتیں ڈھاتی ہیں۔
سیاسی حکومتیں خواہ وہ کسی بھی پارٹی کی اپنی ہوں یا اتحادی کبھی کوئی حکومت اپنا بجٹ منظور کرانے میں ناکام نہیں رہیں کیونکہ بجٹ نامنظوری کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا انھیں پتا ہوتا ہے کہ حکومتی بجٹ منظور ہونا ہی ہونا ہے۔
اس موقع پر ارکان اسمبلی کو پیش کش کرکے منا لیا جاتا ہے رہے عوام وہ جائیں بھاڑ میں، ان کی کسی حکومت کو فکر نہیں ہوتی، صرف درجنوں ارکان کو راضی کرنا ہوتا ہے وہ راضی ہو جاتے ہیں اور رہی اپوزیشن وہ بجٹ منظوری کے موقع پر نامنظور، نامنظور کے نعرے لگا کر ایوان سے واک آؤٹ کر جاتی ہے اور حکومتی بجٹ آسانی سے منظور ہو جانا ہوتا ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کبھی رکا نہیں کرتی خواہ ناراض ارکان کو ایوان میں بلوانا ہوتا ہے وہ آتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں مجبوری میں ہاتھ اٹھا کر تائید کرتے ہیں مال سمیٹتے ہیں اور ہر کوئی اپنا اپنا حق دکھا کر بجٹ منظور کرا دیتا ہے۔