28 C
Lahore
Friday, June 27, 2025
ہومغزہ لہو لہوایران پر امریکی حملے کے اثرات

ایران پر امریکی حملے کے اثرات


بالآخر اسرائیل اور ایران کے درمیان سیز فائر ہوگیا ہے، لیکن اس جنگ بندی سے دو روز قبل اسرائیل کے اکسانے اور بہکانے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر حملہ کرکے براہ راست اس جنگ میں شامل ہوگئے تھے۔ ایران کی زیر زمین ایٹمی تنصیبات جو نطنز، فردو اور اصفہان میں واقع ہیں پر اپنے B-2 طیاروں سے بنکر بسٹر بم گرائے۔

صدر ٹرمپ کے بقول دنیا کی کوئی اور فوج ایسا نہیں کر سکتی جو ہم نے کیا۔ انھوں نے فوجی کارروائی کو کامیاب قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کے مذکورہ جوہری مقامات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب امن ہوگا یا ایران کے لیے سانحہ ہوگا۔ ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ایران نے امریکی حملے سے ایک روز قبل ہی یورینیم کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا، اس لیے امریکی حملے کو پوری طرح کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری جانب ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے امریکی حملوں کے ردعمل میں کہا تھا کہ امریکا ہمارے جواب کا انتظار کرے اسے سزا بھگتنا پڑے گی۔

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو دن پہلے کہا تھا کہ ہم دو ہفتوں کے اندر فیصلہ کریں گے کہ آیا اپنے اتحادی اسرائیل کا ساتھ دیتے ہوئے ایران پر حملہ کریں یا نہ کریں لیکن انھوں نے جلد بازی میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے مشتعل کرنے پر ایران پر حملہ کرکے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا آغاز کر دیا جس کے تباہ کن نتائج و اثرات سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔ جیساکہ ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آبنائے ہرمز کی ناکہ بندی سے دنیا کو تیل اور گیس کی سپلائی رک جائے گی اور عالمی معیشتیں غیر مستحکم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ تیل و گیس کی عالمی قیمتوں میں نہ صرف اضافہ ہو جائے گا بلکہ توانائی کا بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکا نے نتائج و اثرات کی پروا کیے بغیر ایران پر حملہ کرکے ایک نئے بحران اور کشیدگی کو جنم دے دیا ہے۔ چین، روس، پاکستان، عرب ممالک، او آئی سی اور اقوام متحدہ نے امریکی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بحران کے حل کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ عالمی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ امریکا نے اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے، لیکن امریکا و اسرائیل جنگ سے مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔

ایران پر امریکی حملے سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی امریکا کو جنگ میں ملوث کرنے کی دلی خواہش پوری ہو گئی اسی باعث انھوں نے ٹرمپ کو مبارک باد دیتے ہوئے ان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ 13 جون کو جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اسے یقین تھا کہ ایران اسرائیلی حملوں کی تاب نہیں لا سکے گا اور جلد ہی ڈھیر ہو جائے گا لیکن ایران کے بزرگ رہنما علی خامنہ ای کے حکم پر ایرانی فوج نے اسرائیل پر ایسے خطرناک جوابی حملے کیے کہ اسے اپنی شکست نظر آنے لگی۔ خفت سے بچنے کے لیے نیتن یاہو نے ٹرمپ کو ایران پر حملے کے لیے بھڑکایا۔ ایران پر امریکی حملہ درحقیقت اسرائیل کی شکست ہے اب نیتن یاہو کو ایران کی جنگی برتری اور اپنی شکست کا اعتراف کر لینا چاہیے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران پر حملے کے خلاف امریکا میں مخالفت کی جا رہی ہے اور اسے ٹرمپ کی سیاسی غلطی قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک بھی پیش کی گئی، لیکن فی الحال بچنے میںکامیاب ہوگئے۔ عوامی اور سیاسی سطح پر ٹرمپ کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جیساکہ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران جاری جنگوں کے خاتمے، امن کے قیام اور کسی نئی جنگ کا آغاز نہ کرنے کے وعدے کیے تھے۔ اب ایران پر حملہ کرکے انھوں نے وعدہ خلافی کی اور اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ امریکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ نے عراق پر امریکی حملے کی مذمت کی تھی اور صدر بش کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ٹرمپ کہتے تھے کہ وہ امریکی وسائل کو جنگوں میں نہیں جھونک سکتے اور اب خود ایران پر حملہ کرکے امریکا کو نئی جنگ کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ ویت نام سے لے کر افغانستان تک امریکا کو کسی جنگ میں من چاہی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ہر جنگ کا خاتمہ مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے خاتمے میں صدر ٹرمپ ہی نے مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے خطے کو امکانی ایٹمی جنگ سے بچایا۔ دنیا بھر میں صدر ٹرمپ کے کردارکی تحسین کی گئی اور پاکستان نے سرکاری سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے امن کے نوبیل پرائز کی سفارش کا حیران کن فیصلہ کیا ۔ ٹرمپ فلسطینیوں پر اسرائیلی بربریت رکوانے میں ناکام رہے، یوکرین جنگ اب بھی جاری ہے، تنازعہ کشمیر حل نہیں کروا سکے اور اب ایران پر حملہ کر کے اس کی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ مبصرین و تجزیہ نگار سوال اٹھا رہے ہیں کہ محض پاک بھارت جنگ رکوانے پر صدر ٹرمپ امن کے نوبیل پرائز کے حق دار قرار دیے جاسکتے ہیں؟



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات