30 C
Lahore
Wednesday, June 25, 2025
ہومغزہ لہو لہوبے رنگ اور بے روح بجٹ

بے رنگ اور بے روح بجٹ


آگ برساتا ہوا مئی رخصت ہوا تو جون اپنے دامن میں انگارے لیے منتظر تھا۔ اُدھر قوم کا ہر طبقہ ایڑھیاں اٹھا کر دیکھ رہا تھا کہ جون میں آنے والا بجٹ شاید ٹھنڈی ہوا کے کچھ جھونکے لے آئے جس سے افتاد گانِ خاک کے جھلسے ہوئے جسموں کو آسودگی میّسر ہوسکے۔

عوام النّاس توقع باندھتے ہیں کہ نیا بجٹ شاید دنیاوی نعمتوں سے محروم طبقے کے دامن خوشیوں سے بھردے یا ان کی آنکھوں میں امید کے دیے جلادے۔ مگر افسوس ہے کہ بجٹ محروم طبقوں کو نہ خوشیاں دے سکا اور نہ ہی امید کی کوئی شمع روشن کر سکا ہے۔ بلکہ یوں لگتا ہے اس کے ذریعے ارب پتیوں کی بھری ہوئی جیبوں کو مزید بھرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔

پچھلے سال حکومت نے مزدور کی ماہانہ تنخواہ سینتیس ہزار روپے مقرر کی تھی، دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا معیشت دان اتنے پیسوں میں پانچ افراد پر مشتمل ایک عام کنبے کا ماہانہ بجٹ بنا کر دکھادے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ اول تو ایک مزدور کو کوئی مل مالک مہینے بھر کی محنت کا سینتیس ہزار معاوضہ بھی نہیں دیتا۔ دیہاڑی دار مزدور کو بھی ہفتے میں کم از کم ایک چھٹی کرنی پڑتی ہے۔

لہٰذا وہ بھی مہینے کے بیس/ بائیس ہزار سے زیادہ نہیں کما سکتا۔ کیا حکمرانوں نے کبھی محروم طبقوں کی اندھیر نگری میں قدم رنجہ فرما کر ان کے مسائل اور مصائب جاننے کی کوشش کی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ دو وقت روٹی پکائیں تو بچوں کی فیس نہیں دے سکتے اور اگر فیس دیں اور وردی بھی بنوائیں تو بوڑھے والدین کی دوا نہیں لے سکتے۔ میں نے اپنے گاؤں کے سرکاری ہائی اسکول میں جاکر پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ چار سو میں ایک سوسے زیادہ طلباء وردی اور جوتے نہیں خرید سکے۔ ان کے لیے وردی اور جوتوں کا بندوبست اب ہماری تنظیم ’’کرن‘‘ کررہی ہے جو مستحقین کے گھروں پر راشن کے پیکٹ بھی پہنچاتی ہے۔

ایک طرف تو مزدور کی کم از کم اجرت میں بھی اضافہ نہیں کیا گیا اور دوسری طرف ارب پتی حضرات کے کمرشل اداروں کو ٹیکس سے مستثنٰی قرار دے دیا گیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ مہنگے تعلیمی ادارے کمرشل بنیادوں پر چل رہے ہیں، انھیں ٹیکس سے استثنٰی دینے کا کیا جواز ہے؟ اسی طرح کئی اسپتال کمرشل بنیادوں پر چلائے جارہے ہیں۔ انھیں بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت تھی مگر انھیں ٹیکس سے چھوٹ دے دی گئی ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ بجٹ امراء نے اپنے جیسے ارب پتیوں ہی کی جیبیں بھرنے کے لیے بنایا ہے۔

آئی پی پیز کے مالکان چونکہ حکومت اور اقتدار کا حصہ ہیں اس لیے ان کے مفادات کا پوری طرح تحفّظ کیا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے وزیراعظم صاحب نے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ سولر پینل لگوانے کی تلقین کی اور سولر پینلز کی درآمد پر ڈیوٹی میں چھوٹ دینے کا عندیہ دیا۔ اب جب کہ مڈل کلاس کے لوگ بڑی تعداد میں سولر کی طرف راغب ہوچکے ہیں، تو حکومت نے سولر پینیلز پر اٹھارہ فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے۔ جو سراسر ظلم ہے۔

انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ حکومت جس قیمت پر شہریوں کو بجلی فروخت کرتی ہے سولر سسٹم کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والوں سے بھی اُسی قیمت پر بجلی خریدے۔ مگر وہ 48 روپے فی یونٹ کے حساب سے فروخت کرتی ہے جب کہ شہریوں سے 27 روپے فی یونٹ کے حساب سے خریدتی ہے جو سراسر زیادتی ہے، کہا جاتا ہے کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے جو ہر حال میں شہریوں کی فلاح وبہبود پیش نظر رکھتی ہے اور عوام کے فائدے کے لیے ہی تمام پالیسیاں بناتی ہے۔ مگر مذکورہ بالا طرزِ عمل تو ایک شفیق ماں کا نہیں ہوسکتا یہ طرزِ عمل تو کسی منافع خور دکاندار کی عکّاسی کرتا ہے۔

مزدوروں کے علاوہ پچھلے دو سالوں سے جو طبقہ سب سے زیادہ پس رہا ہے وہ کسان ہیں، ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے، زراعت ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیّت رکھتی ہے جسے غالباً توڑنے کا ارادہ کرلیا گیا ہے، اربابِ اقتدار کا تعلق چونکہ صنعت وتجارت سے ہے اس لیے وہ کسانوں کے مفاد کو یکسر نظر انداز کررہے ہیں۔

بجٹ میں کسانوں کے لیے کوئی خیر کی خبر نہیں۔ کاشتکاروں کا گندم تیار کرنے پر 3500 روپے فی من خرچ آتا ہے جب کہ وہ 2000 روپے فی من بیچنے پر مجبور ہیں۔ جب ان کی گندم، مکئی، آلو اور دیگر سبزیاں رُل رہی ہیں تو انھیں کسان کارڈ وغیرہ میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بجٹ میں کھاد، بیج، زرعی ادویات اور زراعت کے لیے مہیّا کی جانے والی بجلی سستی کی جاتی۔ مگر ان میں سے کوئی چیز بھی ارزاں نہیں کی گئی جب کہ کسان کی پیدا کردہ اشیاء ٹکے ٹنڈ ہوگئی ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی کاشتکاروں نے پکی ہوئی فصلوں پر احتجاجاً ہل چلا دیے ہیں۔

ملک کے لاکھوں بے روزگار نوجوان چند ہفتوں کی ٹریننگ کے بعد گھروں میں ہی کمپیوٹر پر بیٹھ کر اپنے آئی ٹی کے ہنر سے روٹی روزی کما رہے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی، انھیں نیوٹیک اور ٹیوٹاز کے ذریعے مفت تربیّت دی جاتی اور مفت یا سستے کمپیوٹر فراہم کیے جاتے، مگر اربابِ اختیار کو نوجوانوں کا اپنی ذہانت کے زور پر روزی کمانا بھی برداشت نہ ہوا اور ان پر بھی ٹیکس لگادیا گیا ہے، جو سراسر زیادتی اور ظلم ہے۔ کسانوں کے علاوہ دوسرا طبقہ جس سے حکومت کو چڑ اور بیر ہے وہ پنشنزز ہیں۔

دنیا بھر کے مہذّب ملکوں میں یہی ریت چلی آرہی ہے کہ پڑھے لکھے افراد اپنی جوانی اپنے ملک اور قوم کے لیے وقف کردیتے ہیں یعنی ساٹھ پینسٹھ سال تک ان کی قابلیّت، صلاحیّتیں اور توانائیاں قوم استعمال کرتی ہے اور اس کے بعد انھیں استعمال کرکے پھینک نہیں دیتی بلکہ عزت کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے اور بقیہ زندگی گذارنے کے لیے الاؤئس (پنشن) دی جاتی ہے۔ یو این او میں صرف چار سال نوکری کرنے والوں کو پنشن دی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں پینتیس چالیس سال قوم کی خدمت کرنے والوں کو زندگی کے آخری سالوں میں پنشن دینا بھی حکمرانوں کو بوجھ محسوس ہوتا ہے اور وہ پینشن کا ایسے ذکر کرتے ہیں جیسے خیرات دے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ پنشن خیرات نہیں ہے یہ سول سرونٹس کی خدمات کا صلہ اور ان کا حق ہے۔ پنشن میں ہر سال دس فیصد اضافہ ہوتا تھا اس سال اسے بھی کم کرکے سات فیصد کردیا گیا ہے۔ جو ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسے بھی تنخواہوں کی طرح دس فیصد ہی کرنا چاہیے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں پائے جانے والے ارسطو اور افلاطون بعض اوقات ایسی اسکیمیں سامنے لاتے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اورایسی اسکیمیں سوچنے والوں کے فہم وفراست پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔

اس بار ان افلاطونوں نے فرمان جاری کیا ہے کہ وہ ادارے جو ہمارے قومی ورثے کے امین اور محافظ ہیں انھیں ختم کردیا جائے یا انھیں فالتو سمجھ کر کسی یونیورسٹی کے صحن میں پھینک دیا جائے کہ وہ اسے سنبھال لے اور ان کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرے۔اور یہ بھی ذرا سن لیں کہ یہ ’’فالتو‘‘ ادارے کون سے ہیں؟ اقبال اکیڈیمی، اکیڈیمی آف لیٹرز، مقتدرہ قومی زبان اور قائداعظم اکیڈیمی وغیرہ۔ یہ وہ ادارے ہیں جو فکرِ اقبال کے علاوہ ادب اور شاعری کے فروغ کے لیے کردار ادا کررہے ہیں، اہلِ قلم کی کتابیں چھاپتے ہیں اور ان کی فلاح وبہبود کا خیال رکھتے ہیں، مفکّرِ پاکستان کے نام پر قائم اکیڈیمی کے بارے میں جس بابو نے ایسا سوچا ہے۔

اس سے خود بانیٔ پاکستان کی روح کو بھی صدمہ پہنچا ہوگا، موجودہ حکمرانوں کو شاید کسی نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد دستور ساز اسمبلی میں قائداعظم کی موجودگی میں ان کی ہدایت پر سب سے پہلے جو ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا وہ علامہ اقبالؒ کے نام پر قائم کی جانے والی اکیڈیمی تھی جس کے بارے میں وزیرِ خزانہ نے علامہ اقبالؒ کی خدمات کا ذکر کرنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ اس اکیڈیمی کے لیے ایک لاکھ روپے (جو اس وقت بہت بڑی رقم تھی) کا اعلان کررہے ہیں۔ ایسا تو پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی کبھی نہیں سوچا گیا، مسلم لیگ (جو اپنے آپ کو قائداعظم کی مسلم لیگ کی وارث کہلاتی ہے) کی حکومت میں ایسا ہونا حیرانی کی بات ہے ۔

بلاشبہ ان اداروں کی کارکردگی بہتر کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس کے لیے سربراہان کے انتخاب کا طریقۂ کار بہتر ہونا چاہیے اس کے علاوہ ان کے کردار اور ذمّے داریوں کا تعیّن نئے سرے سے کیا جاسکتا ہے مگر ان اداروں کو ختم کرنے کی سوچ سراسر غلط ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تعلیم کا بجٹ کم کردیا گیا ہے اور آج بھی ہمارے ملک کے ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچّے اسکولوں میں نہیں جاتے۔ عین بجٹ پر بحث کے دوران عوام کو جو تحفہ دیا گیا وہ ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ ایسا بے رنگ اور بے روح بجٹ عوام کی امنگوں کے مطابق ہرگز نہیں ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات