ایران میں بائیں بازو کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی ایران(حزب تودہ ایران، جس پر 40 سال سے پابندی ہے)کی مرکزی کمیٹی کی طرف سے ان کی آفیشل ویب سائٹ پر اسرائیل کے ایران پر حملے سے پیدا شدہ صورتحال حال پر جاری اعلامیے میں اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی ہے۔
جاری شدہ اعلامیے میں دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ تودہ پارٹی عوام کی خواہش اور مرضی کے خلاف کوئی بھی غیر ملکی مداخلت اور عسکری جارحیت ناقابل قبول ہے ۔یہ ایران میں حقیقی جمہوریت و سوشل ازم کے لیے سرگرداں سیاسی قوتوں کے اسی روایتی موقف کا اعادہ ہے کہ وہ ’’ایرانی رجیم ہٹاؤ ‘‘مہم کی نہ تو حمایت کریں گے اور نہ اسے برداشت کریں گے ۔
ایران میں جمہوریت پسند بائیں بازو نے ایسے کسی بھی گروہ کی حمایت نہیں کی جو ایران میں سیاسی آزادی ، انسانی حقوق کی بازیابی اور جمہوریت کے قیام کے لیے امریکا سمیت عالمی سامراجی قوتوں کی مداخلت کو جائز سمجھتے ہیں ۔ تودہ پارٹی نے 1980 میں ’’مجاہدین خلق ‘‘کی جانب سے ایرانی حکومت کے خلاف مسلح کارروائیوں کے لیے امریکا سے ہاتھ ملانے کی شدید مذمت کی تھی اور عراقی صدر صدام حسین کے ایران پر حملے کے خلاف ایران کے دفاع کے لیے اپنے کیڈرز کو محاذ جنگ پر بھیجا تھا ۔
تودہ پارٹی کو ایرانی انقلابی حکومت نے 1984 سے کالعدم قرار دے رکھا ہے ۔اس کے متعدد کارکن اس وقت بھی جیلوں میں قید ہیں ، انقلاب ایران کے بعد اس کے متعدد کارکن اور رہنما ماورائے عدالت قتل ہوئے اور کئی ایک پھانسی کی سزا پا چکے ہیں،نامساعد حالات کے باوجود ایران میں جامعات کے طلبا ، فیکٹریوں ، کارخانوں ، ریلوے ، ٹرانسپورٹ ، کمیونی کیشن کے اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں میں وسیع حمایت رکھتی ہے۔
گزشتہ سال ایران میں ٹرانسپورٹ ورکرز کی ملک گیر ہڑتال میں بائیں بازو نے نمایاں کردار ادا کیا تھا ۔ یہ کالعدم جماعت فلسطین پر صہیونی قبضے کو عالمی سامراجی قوتوں کی سازش سمجھتی ہے۔ ایران اسرائیل کی فوجی جارحیت اور دہشت گردانہ اقدام کی سختی سے مذمت کرتی ہے اور ایرانی قوم کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی سمجھتی ہے ۔
ایران کے جمہوریت پسند ایران کے قومی مفادات کے تحفظ کے عزم کے ساتھ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عوام کی مرضی، خواہش اور حقوق کے خلاف ہر قسم کی غیر ملکی مداخلت اور عسکری جارحیت ناقابلِ قبول ہے۔ صرف سامراج، اس کے پٹھو، رجعت پسند اور آمر قوتیں ہی ایسی کشیدگی اور جنگوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ایران کی تمام تمام ترقی پسند اور آزادی خواہ حلقے، ایران اور دنیا سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ متحد ہوکر، ایک آواز ہوکر، بین الاقوامی قوانین کی اس کھلی اور سنگین خلاف ورزی کی مذمت کریں، اور اپنی تمام تر کوششیں مشرقِ وسطی میں ایک وسیع اور تباہ کن عسکری تصادم کو روکنے اور پائیدار امن کے قیام پر مرکوز رکھیں۔
عالمی رائے عامہ کو محض اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی طرف سے اسرائیلی حملے پر’’تشویش کے اظہار‘‘پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کے تمام موجودہ وسائل کو اس علاقے میں جنگ کو روکنے کے لیے بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ ایرانی جمہوریت پسند حلقے پختہ یقین رکھتے ہیں کہ صرف امن کے قیام اور اس کے دفاع کے ذریعے ہی مشرق وسطیٰ کے موجودہ خطرناک بحران کا خاتمہ ممکن ہے۔
تودہ پارٹی 1941 رضا شاہ پہلوی کی معزولی کے بعد قائم ہوئی تھی ،اس کے بانیوں میں وہ لوگ شامل تھے جو رضا شاہ کے دور میں جیلوں میں رہے، جن میں سے کئی مارکسی یا سوشلسٹ نظریات رکھتے تھے۔پارٹی کا نام ’’تودہ ‘‘فارسی لفظ ہے جس کا مطلب عوام ہے یعنی عوامی پارٹی۔تودہ پارٹی نے صنعتی مزدوروں، کسانوں، طلبہ اور دانشوروں میں جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی۔
سوویت یونین سے نظریاتی ہمدردی کی بنیاد پر اسے حمایت بھی حاصل رہی۔تودہ پارٹی نے کئی انتخابات میں حصہ لیا اور پارلیمنٹ میں موجود رہی۔محمد مصدق کی آئل نیشنلائزیشن تحریک کے دوران، پارٹی نے ان کی حکومت کی محدود حمایت کی، مگر بعد میں اختلافات پیدا ہوئے۔ جب مصدق حکومت کا تختہ الٹا گیا، تودہ پارٹی پر پابندیاں لگیں۔اس کے درجنوں ارکان گرفتار اور کچھ سزائے موت کے مرتکب ہوئے۔ زیر زمین نیٹ ورک کام کرتا رہا مگر کریک ڈان بہت سخت تھا۔
حزب تودہ نے آیت اﷲ خمینی کی حمایت کی تھی ، اسلامی انقلاب کو قبول کرلیا مگر پھر ایران کی انقلابی حکومت نے تودہ پارٹی کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی، یہ پابندی تاحال قائم ہے ، تودہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل کیا نوری اور طبری جیسے رہنماؤں کو جنھوں نے شہنشاہ کے خلاف جدوجہد میں طویل عرصہ جیلوں میں گزارا تھا، انقلابی حکومت کے دور میں ٹی وی اسکرین پر ان رہنماؤں کے معافی کے مناظر دکھائے گئے۔ ایران کے لبرل اور بائیں بازو کے لوگوں نے جلا وطنی میں زیادہ تر یورپ، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں اپنے یونٹس قائم کیے اور رسائل اور ویب سائٹس کے ذریعے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
ایران کی صورت حال کا جائزہ لینے والے ماہرین کہتے ہیں کہ متوسط طبقے خاص طور پر خواتین میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ سال ایک کرد لڑکی کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھے جنھیں سختی سے دبا دیا گیا تھا، اس احتجاجی تحریک میں بہت سے لوگ مارے گئے تھے، اسرائیل نے اسی بے چینی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی خفیہ ایجنسی کا نیٹ ورک قائم کیا اور بہت سے سائنسدانوں اور رہنماؤں کو شہید کیا ۔
ایرانی قیادت کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ اسرائیل اور امریکا کے خلاف آواز اٹھانے والی ساری سیاسی جماعتوں کا محاذ بنائیں ، تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی ختم کریں اور تمام نظر بند سیاسی شخصیات کو رہا کریں تا کہ آنے والے وقت میں تمام سامراج دشمن قوتیں متحد ہوکر اپنے وطن کا دفاع کرسکیں۔
اس نازک موقع پر ایران کے متوسط طبقے میں دبا رہنے والاہیجان ایک خطرناک صورت حال کی نشاندہی کررہا ہے۔ اسرائیل کی کمیونسٹ پارٹی اور اسرائیل میں بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد ڈیموکریٹک الائنس فار پیس نے بھی اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی مذمت کی ہے۔