31 C
Lahore
Tuesday, June 24, 2025
ہومغزہ لہو لہوہری پور سے لاہور تک

ہری پور سے لاہور تک


لارنس روڈ لاہور پر متروکہ وقف املاک بورڈ کے زیر انتظام ایک وسیع و عریض احاطہ میں ان کا دوکمروں پر مشتمل ڈینٹل کلینک تھا ا ور قریب ہی گھر تھا۔ اتنا قریب کہ روزانہ شام کو واک کرتے ہوئے کلینک آ، جا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے دو اور ٹھکانے بھی تھے، ایک،کوئنز روڈ پر ’’نوائے وقت‘‘ کے دفاتر، اور دوسرا مال روڈ پر ایوان تحریک کارکنان پاکستان۔ ان مقامات پر عام طور پر وہ مجید نظامی کے ہمرکاب پائے جاتے تھے۔

نظامی صاحب سے ان کا دوستی کا رشتہ تو تھا ہی، لیکن اس سے زیادہ یہ ایک نظریاتی رشتہ تھا۔ ایم اے صوفی صاحب کو قائداعظم اور مادر ملت سے عقیدت کی حد تک لگاؤ تھا۔ لہٰذاصوفی صاحب ’’نوائے وقت‘‘ اور ایوان تحریک کارکنان پاکستان کی ہر خدمت بلا معاوضہ انجام دینے کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوتے تھے۔ ’قائد اعظم فورم‘ کے نام سے تحریک پاکستان پر وہ اپنے طور پر بھی غوروفکرکا اہتمام کرتے رہتے تھے۔

یہ مجلسیں زیادہ تر ان کے گھر میں ہوتی تھیں۔اس مجلس کے سارے کام وہ خود ہی کرتے تھے؛ دعوت نامہ ٹائپ کرا کے تقسیم کرتے، ذاتی جیب سے مہمانوں کی خاطر مدارت کا بندوبست کرتے، اس کی کارروائی کی خبر تیارکرتے اور تمام اخبارات کو بھجواتے، بلکہ اشاعت کے بعد خبرکاٹ کے ایک فائل میں لگا کر ریکارڈ کے طور پر محفوظ بھی رکھتے تھے۔ یہ سارے کام کرتے ہوئے ان کے چہرے پر تھکاوٹ یا اکتاہٹ کا ہلکا سا تاثر بھی نہ ہوتا تھا۔

ایک مرتبہ میں نے کہا،’ صوفی صاحب، آپ تھکتے نہیں؟۔ اس پر پہلے تو انھوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا، جیسے میں نے کوئی بہت ہی عجیب بات کہہ دی ہو، پھر کہا، ’ اصغر میاں، میرے عمر بھر کے تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ زندگی میں اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں کہ انسان اپنے سارے کام اپنے ہاتھوںسے کر سکتا ہو، اور میرے قائد کی وصیت بھی یہی ہے کہ کام، کام اورکام۔ موضوع کوئی بھی ہو، محل کچھ بھی ہو، صوفی صاحب کی گفتگو اپنے محبوب قائد، قائداعظم ؒ کے ذکر کے بغیر مکمل نہ ہوتی تھی۔

صوفی صاحب سے پہلے پہل میری ملاقات علی سفیان آفاقی کے توسط سے ہوئی۔ ان کو ریٹائر ہوئے دو سال ہو چکے تھے، مگر ریٹائرمنٹ کا ان پر کوئی خاص نفسیاتی اثر محسوس نہ ہوتا تھا۔ فل تھری پیس سوٹ، چھ فٹ سے اوپر قد، مضبوط ڈیل ڈول، بھاری بھرکم جسم، مگر چاق و چوبند، پہلی نظر میں وہ کسی دھان پان صوفی سے زیادہ کوئی ریٹائرڈ ریسلر معلوم ہوتے تھے۔

جیسا کہ اکثر دیکھا گیا ہے ، خوب صحت مند افراد بہت خوش مزاج بھی ہوتے ہیں، صوفی صاحب بھی خوش باش آدمی تھے ، اور جب ہنستے تو پورے وجود کے ساتھ ہنستے، بلکہ اس عالم میں کبھی کبھی بچوں کی طرح خوشی سے تالی بھی بجاتے تھے۔ علی سفیان آفاقی کی فرمایش پر میں نے ان کا فیملی انٹرویوکیا، تو یہ مکالمہ صوفی صاحب کو اس قدر پسند آیا کہ اس کی ایک کاپی باقاعدہ فریم کراکے اپنے ڈرائنگ روم میں آویزاںکر دی تھی۔ صوفی صاحب ہری پورہزارہ کے ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ تحریک پاکستان کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔

ہری پور سناتن دھرم اسکول میں یہ ان کی طالب علمی کا زمانہ تھا۔ کہتے تھے ،’’ ہندو، مسلمانوں سے اس حد تک بغض رکھتے کہ مسلمان بچوں کو اسکول جاتے دیکھ کر بھی انھیں تکلیف ہوتی تھی ،میںسناتن دھرم اسکول میں پڑھ رہا تھا۔ ایک روز رام لعل، جو میرے والد کے دوست بھی تھے، آئے اور ان سے’ خیر خواہانہ‘ لہجہ میں کہا،’دیکھو، ہمارے پُتر اسلم کے بڑے مضبوط ہڈ پیر ہیں، یہ چڑھتا ہوا قد ہے، اسے اسکول میں داخل کراکے تم اس کی قدرتی صلاحیت ضایع کر رہے ہو، اس کو اپنے ساتھ کام کاج پر لگاؤ، یہ تو اکیلا دس جوانوں کے برابر کام کرے گا‘۔ میرے والد نے یہ کہہ کے رام لعل کو ٹال دیاکہ جب تک پڑھ رہا ہے، پڑھتا رہے،اگر دلچسپی نہیںہوگی تو خود ہی کام پر لگ جائے گا۔

رام لعل کے اس ’خیر خواہی‘ کے پیچھے مقصد یہ کارفرما تھا کہ میرا باپ مجھے اسکول سے اٹھالے ۔ نوجوان اسلم کو جب یہ معلوم ہوا، تو اس نے رام لعل کو غلط ثابت کرنے کی ٹھان لی، اور اس کے بعد نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی، بلکہ بطور ڈینٹل سرجن اپنے شعبہ میں بڑا نام کمایا، عالمی سطح پر پاکستان کی نمایندگی کی، علمی و تحقیقی مقالے لکھے، اور جب ریٹائر ہوا تو کالج آف کیمونٹی میڈیسن لاہورکا سربراہ تھا ۔

صوفی صاحب نے اپنے سیاسی، سماجی اور پیشہ ورانہ دائرے میں بڑی ہنگامہ خیز زندگی گزاری تھی، مگر جب ہم نے ان کو دیکھا، تو شام کو وقت گزاری کے لیے کلینک کے علاوہ اب ان کی تمام تر توجہ مضمون نگاری پر مرکوز ہو چکی تھی۔ وہ ’نوائے وقت‘ دفتر آتے، تو ان کے ہاتھ میں چمڑے کا بیگ یا کوئی خاکی لفافہ ہوتا، جو مسودوں سے بھرا ہوتا تھا۔ یہ مسودے وہ کسی تقریب کے دعوت ناموں کی طرح فراخدلی سے مختلف شعبوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔

دفتر میں میرے پاس کچھ دیر ضرور بیٹھتے تھے،ا ور اس دوران ان کی گفتگو بہت پرلطف ہوتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ ان پر ان کی والدہ کے گہرے اثرات ہیں۔ روزمرہ زندگی کے بارے میں جب وہ کوئی مشورہ دیتے، یا نصیحت کرتے، تو میرے مرشد حنیف رامے صاحب مرحوم کی طرح ان کے لہجہ میں بھی ماؤں کے جیسا رچاؤ، نرمی اور پیار ہوتا تھا۔ جب تک وہ بیٹھے رہتے، کمرہ ان کے زندگی سے بھرپور، مگر معصومانہ قہقہوں سے گونجتا رہتا تھا۔

اپنے بچوں میں وہ چھوٹے بیٹے عامر کمال کے بارے میں بڑے فکرمند رہتے تھے۔ ایک روز آئے تو عامر کمال بھی ساتھ تھا۔ کہا ،’ اصغر عبداللہ، اس کو میں تمھارے سپرد کرنے آیا ہوں، یہ آج سے تمھارا شاگرد ہے‘۔ عامر کمال اس کے بعد بڑی دیر تک آتے رہے، سیکھتے رہے اور میگزین میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔ ایوان کارکنان پاکستان کی تقریبات کے صوفی صاحب مستقل مقرر تھے۔ اس موقع پر جب وہ اپنے مضبوط ڈیل ڈول اور اونچے قد کے ساتھ کالی شیروانی اور سر پر جناح کیپ کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے ہوتے، تو یوں معلوم ہوتا جیسے فلم ‘ جناح‘ کے کرسٹوفرلی اسکرین سے نکل کے آ گئے ہوں۔

پھر معلوم ہوا کہ دماغ تک پہنچنے والی ان کی کوئی نس شدید طور پر متاثر ہو چکی ہے۔ وہ اس اعصابی دھچکے کو سہہ تو گئے، مگر اس کے بعد مضمحل سے ہو گئے،ا ور عصا کے بغیر چل پھر نہیں سکتے تھے۔

اس کے باوجود کچھ عرصہ تک باقاعدگی سے کلینک آتے رہے۔ انھی دنوں ایک روز ان کے کلینک گیا، تو حسب معمول بڑے ہی معصومانہ انداز میں بیٹھے کوئی مضمون لکھ رہے ہیں۔ کہنے لگے، ’ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ متاثرہ نس دماغ تک پہنچتی ہے اور آپریشن کے نتیجہ میں دماغ متاثر ہو سکتا ہے، لہٰذا اب سارا دارومدار دوا، اور دعا پر ہی ہے‘۔ میرے چہرے پر تشویش کا تاثر دیکھ کے پہلے تو مشفقانہ انداز میں مسکرائے اور پھر وہی ان کا زندگی سے بھرپور معصومانہ قہقہہ کمرے میںگونجا اورکہا،’ اصغر میاں، اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں، ہم لوگوں نے اپنی زندگی گزار لی ہے، اب تو جب بھی بلاوا آجائے ،ہم حاضر ہیں‘، اور اس ساعت یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پر سچی صوفیانہ طمانیت نظر آ رہی تھی۔ ان سے آخری ادھوری ملاقات اسی جون کے مہینے میں فلیٹیز ہوٹل میں ہوئی۔3 جون1947 کے تقسیم ہندوستان پلان کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے وہ ہر سال ایک تقریب کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

یہ وہی تقریب تھی، مگر آج وہ اس تقریب میں آئے، تو وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کالی شیروانی اور سر پر جناح کیپ اب بھی پہنے ہوئے تھے، بلکہ سرخ رومال بھی جیب سے جھانک رہا تھا، لیکن بقولِ داغؔ، ’ہوش و حواس و تاب وتواں داغؔ جا چکے، اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا‘، صوفی صاحب بے حد نڈھال لگ رہے تھے۔

چہرے پر مسکراہٹ تو وہی تھی، جو زندگی بھر ان کی پہچان رہی، لیکن آج اس میں خود کو قہقہے میں بدلنے کی سکت نہ تھی۔ ان کو اس طرح دیکھ کے بہت ہی دکھ ہوا۔ میں ان کی وہیل چیئر کے قریب ہوا، تو احمر بلال صوفی نے میرا ہاتھ پکڑ کے ان کے کان کے پاس قدرے اونچی آواز میں کہا، ’’ابو، یہ اصغر عبداللہ آئے ہیں‘‘۔ صوفی صاحب نے میری طرف دیکھا، مگر اس طرح کہ جیسے پہچاننے، نہ پہنچاننے کی درمیانی کیفیت میں ہوں۔ یہ بڑے ہی اداس کر دینے والے لمحات تھے ۔ اس کے بعد ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہی جون ہی کے دن تھے، جب ایم اے صوفی صاحب اس جہان فانی کو تیاگ کے ہمیشہ کے لیے واصل بحق ہو گئے  ؎

جنازہ ام چوببینی،مگو فراق فراق

مرا وصال و ملاقات آن زمان باشد



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات