32 C
Lahore
Tuesday, June 24, 2025
ہومغزہ لہو لہوعوامی مقبولیت کا معیار - ایکسپریس اردو

عوامی مقبولیت کا معیار – ایکسپریس اردو


بھارت کے ساتھ چند دنوں کی جنگ میں اپنی شاندارکامیابی کے نتیجے میں پاکستان کو عالمی سطح پر مسلسل قبولیت مل رہی ہے، دنیا بھر میں پاک فوج کی شاندار کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار امریکی صدر نے پاکستانی آرمی چیف کو اپنے ظہرانے پر مدعو کیا ، طویل ملاقات کی اور اس ملاقات کو اپنے لیے اعزاز قرار دیا۔

پاکستان میں عموماً سیاسی آزادیوں کی آڑ لے کر اسٹیبلشمنٹ کا نام لے کر فوج پر تنقید کی جاتی ہے لیکن قوم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ یہ تنقید سیاسی اور مفاد پرستانہ ہوتی ہے، سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ کی تعریفیں کیں جب تک ان سے انھیں مفادات حاصل ہوتے رہے۔

پی ٹی آئی یہ کہتی نہیں تھکتی تھی کہ ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔پی ٹی آئی حکومت میں رہ کر سیاسی اور معاشی مفادات حاصل کرتی رہی اور اسٹیبلشمنٹ کی تعریفوں کے پل باندھتی رہی۔ مگر جب دونوں میں اختلافات پیدا ہوئے تو پی ٹی آئی نے تمام اخلاقی معیار بالائے طاق رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانات دینا شروع کر دیے۔

سیاسی مفاد پرستی اور خود غرضی ہمیشہ سے سیاستدانوں کا وتیرہ رہی ہے۔جب تک ان کے سیاسی مفادات پورے ہوتے رہے تو ہر طرف انھیں ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے اور جب ان کے مفادات کو زک پہنچتی ہے تو وہی حکومت برائیوں کی جڑ بن جاتی ہے۔آج تک یہی کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔سیاست میں دوستی اور دشمنی اپنے اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے۔جب مفادات یکساں ہوں تو کل کے دشمن آج کے دوست بنتے دیر نہیں لگاتے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں میں ایک پیج پر ہونے کے دعوے اتنے کھلے عام نہیں ہوتے تھے، جتنے بانی پی ٹی آئی اور موجودہ حکومت میں ہوئے۔ بانی پی ٹی آئی تو اس حد تک چلے گئے کہ انھوں نے آرمی چیف کو قوم کا باپ قرار دیا تھا اور بے نظیر بھٹو نے جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازا تھا جو ایک منفرد اعزاز تھا۔یہ سب سیاست کے کھیل ہیں‘ سیاست کی بساط پر کوئی کسی کا دوست اور کوئی کسی کا دشمن نہیں سب مفادات کے اسیر ہیں۔

 وزیراعظم میاں شہباز شریف تقریباً ڈھائی سال سے حکومت کر رہے ہیں ،ان کی حکومت نے اچھی معاشی پالیسی اختیار کی جسے اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل رہی ہے۔

وزیر اعظم کی بیرون ملک ہی مصروفیات زیادہ رہی ہیں کیونکہ حالات کا تقاضا یہی ہے۔ میاں نواز شریف بھی موجودہ وزیر اعظم سے مختلف نہیں تھے، سندھ میں شدید بدامنی پر اپنی ایک عید اور رات نواب شاہ میں گزاری تھی۔ پی پی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو واقعی عوام میں مقبول وزیر اعظم تھے جو ملک کے تقریباً ہر ضلع میں گئے اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو  بھٹو کی طرح مقبول نہ ہونے پر بھی اندرون ملک کے دورے کرتے تھے مگر بانی پی ٹی آئی عوام سے دور رہنے کے عادی اور اندرون ملک کے دوروں پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر تقریباً ڈھائی سال سے ملک کے دو اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں ،اس دوران پاکستان کی معیشت بہتر ہوئی اور عالمی سطح پر پاکستان کا قد کاٹھ بڑھا ہے۔میاں شہباز شریف کی حکومتی کارکردگی پر سروے کرانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کی حکومت کی اور ان کی اپنی ڈھائی سالہ کارکردگی کیسی رہی، وہ عوام میں مقبول ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ عام انتخابات میں ہوجائے گا۔

ان کی حکومت نے ملک کے مہنگائی و بے روزگاری کے عذاب میں مبتلا کروڑوں لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا، اس حکومت نے مہنگائی بڑھائی۔ عوام نے تو اپنے وزیر اعظم کے چہرے پر کبھی کوئی پریشانی نہیں دیکھی اور ہمیشہ نئے نئے سوٹوں میں ملبوس مسکراتے ہی دیکھا، ان سب الزامات کا جواب ووٹ کے ذریعے ہی مل سکتا ہے، عوام بتائیں گے کہ وہ ان کی حکومت سے خوش ہیں یا ناراض ہیں ، اس کا فیصلہ الیکشن میں کردیں گے ۔ آج ان پر تنقید کرنے والے بتائیں کہ وہ اقتدار میں ہوتے تو کیا کرتے؟



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات