پاکستان کی 78سالہ تاریخ میں ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ حکومت وقت نے اگر کوئی بجٹ پیش کیا ہو اور وہ پارلیمنٹ سے منظور یا پاس نہ ہو پایا ہو۔
ابتدا میں جب یہ بجٹ پارلیمنٹ کے فلور پر پیش کیا جاتا ہے تو مخالفوں کی طرف سے اس پر بہت تنقید کی جاتی ہے اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ یہ بجٹ منظور ہو ہی نہیں سکتا۔
اپوزیشن ویسے تو پورا زور لگا دیتی ہے کہ حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبورکردے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ مقررہ ڈیڈ لائن آنے سے پہلے ہی خود گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ فیس سیونگ اور دل کی تسلی کے لیے کچھ ہلکی پھلکی ترامیم کروا لی جاتی ہے اور عوام پر یہ ظاہر کردیا جاتا ہے کہ جیسے ہم نے اس بجٹ کو عوام کی بھلائی کے قابل قبول بنوا لیا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حکومت کا تیارکردہ بجٹ منظور ہوا ہی نہ ہو اور حکومت کو انتہائی ٹف ٹائم دے کر مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہو۔
موجودہ حکومت فروری 2024میں جس طرح معرض وجود میں آئی وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ ملک اس وقت انتہائی مشکل مالی حالات سے دوچار تھا اور دیوالیہ ہوجانے کی حدوں کو چھو رہا تھا۔ فروری 2024 کے انتخابات کا نتیجہ کسی ایک جماعت کی واضح اکثریت کی شکل میں سامنے نہیں آیا اور پی ٹی آئی نے اِن حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے سے انکار بھی کردیا تھا۔ ایسے میں مسلم لیگ نون کو یہ ذمے داری طوعاً وکرہاً سنبھالنی پڑی اور عددی کمی پوری کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کے ساتھ ایک میثاق پر رضا مندی ظاہرکردی۔
ملک کو ایک بڑی مشکل اور افراتفری سے بچانے کی خاطر شہباز شریف کی قیادت میں ایک ایسی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور جس کے لیے کچھ اور اتحادی بھی فراہم کردیے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک ایسے وزیر خزانہ کا اہتمام بھی کردیا گیا جس کے عالمی مالیاتی اداروں سے اچھے تعلقات اور مراسم بھی تھے۔
اُن کی نامزدگی پر کسی بھی سیاسی جماعت نے اعتراض نہیں کیا اور سبھی نے ہنسی خوشی اس شخص کو قبول کر لیا۔ اس شخص کی کرامات ہی کا نتیجہ تھا کہ IMF جو اس سے پہلے ہمیں بیل آف پیکیج دینے کے لیے کسی طور راضی نہیں ہو رہا تھا اب فوراً رضامند ہوگیا۔ محمد اورنگ زیب کی کرشماتی شخصیت نے صرف ایک دو میٹنگ میں ہی IMF کو اس پیکیج پر رضا مند کردیا۔ حالیہ بجٹ اُن کے دور کا دوسرا سالانہ بجٹ ہے اور جس کے خد و خال بھی دیگر بجٹوں کی طرح عام عوام کی سمجھ سے بالاتر ہیں، لیکن شکر کا مقام ہے کہ یہ بجٹ IMFکی سمجھ میں آگیا بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ بجٹ IMFنے ہی تیار کر کے دیا ہے۔
ہماری سمجھ میں ابھی تک یہ نہیں آیا کہ جب عوام کی تنخواہیں بڑھانے یا انھیں کسی چیز میں کوئی ریلیف دینے کی بات ہو تو کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف اس پر راضی نہیں ہے، مگر جب وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں اور مراعات بڑھانا ہو تو ایسی کسی قدغن کا سامنا نہیں ہوتا۔ عوام کی تنخواہ دس فیصد بھی مشکل سے بڑھائی جاتی ہے اور یہ اضافہ فوراً دوسری مدوں میں ٹیکس کی شکل میں واپس بھی لے لیا جاتا ہے، جب کہ اپنے لوگوں کی پانچ سے دس دس گنا تنخواہیں بلا کسی حجت اور تکرار کے فوراً بڑھا دی جاتی ہیں اورIMF کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا۔
اسی طرح زرعی آمدنی پر بھی لگایا گیا ٹیکس بجٹ کی ترامیم شامل کر کے مکمل طور پر یہ کہہ کر ختم کر دیا جاتا ہے کہ IMFکی مرضی و منشاء کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے۔ سمجھ نہیں آتا، آئی ایم ایف کو بجلی کے دام کم کرنے پر تو اعتراض ہوتا ہے لیکن حکومت کے شاہانہ اخراجات پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا، اگر ہوتا بھی ہے تو وہ اتنا کمزور سا کہ پلٹ کر تفتیش بھی نہیں کی جاتی۔
ہمارا موجودہ بجٹ اعداد و شمار کا ویسا ہی ہیر پھیر ہے جیسا اس سے قبل پیش کیے جانے والے بجٹوں کا ہوتا رہا ہے۔ اپوزیشن کے مطابق یہ بجٹ IMF کا تیارکردہ ہے۔ اور شاید اس لیے اس کے پاس کیے جانے میں بھی ساری اپوزیشن نہیں تو کم از کم حکومت کے اتحادی جماعتوں کی آشیر واد تو ضرور شامل ہوگی۔
کہنے کو پیپلز پارٹی کے بہت سے ارکان بجٹ کی کچھ شقوں کے خلاف اچھی خاصی بیان بازی بھی کر چکے ہیں مگر وہ بھی اس بجٹ کی حامی ہے۔ پیپلزپارٹی اس وقت دو کشتیوں میں سوار ہے۔ وہ ایک طرف حکومت کی اتحادی بھی ہے اور دوسری طرف کابینہ کا حصہ بننے سے انکاری بھی ہے ، جب کہ اپنے مفاد کے تمام آئینی اور دستوری عہدے لے کر وہ اس حکومتی سیٹ اپ کے ثمرات بھی سمیٹ رہی ہے۔
وہ اُس وقت تک حکومت کی درپردہ حمایت کرتی رہے گی جب تک اسے اس حکومت کے قائم اور دائم رہنے کا یقین ہے، وہ اگلے الیکشن سے پہلے عوامی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے حکومت سے علیحدہ ہو سکتی ہے۔ فی الحال وہ مجبوراً ساتھ نبھا رہی ہے کہ اس کے پاس اس کے سوا کوئی اور آپشن بھی نہیں ہے۔
حکومت سے علیحدہ ہو کر اور اسے معزول کروا کے خود مشکل میں پھنس سکتی ہے۔ وہ زمانے اب نہیں رہے کہ ایک پارٹی کو ہٹا کے دوسری پارٹی کی حکومت بنا دی جائے۔ یہاں اب ایک تیسرا فیکٹر بھی پیدا ہوچکا ہے اور اس فیکٹرکو تاحال عوام کی اکثریت کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس فیکٹر کے ہوتے ہوئے پیپلزپارٹی یہ خطرہ ہرگز مول نہیں سکتی۔
ملک کے دو صوبوں میں اس کی حکومت ہے اور دوسرے دو صوبوں میں گورنر شپ ۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کے والد محترم صدر مملکت کے عہدے پر براجمان ہیں اور سینیٹ کی چیئرمین شپ بھی پارٹی کے پاس ہے۔ فرینڈلی اپوزیشن کا یہ کردار اس وقت تک جاری رہے گا، جبتک کہ حالات پارٹی کے مفاد میں ہیں۔
پارلیمنٹ سے بجٹ منظورکروانا کبھی بھی کسی حکومت کی مشکل نہیں رہا۔ اپنے لوگوں کو تو خوش رکھا ہی جاتا ہے اور بجٹ سے پہلے اپوزیشن سے بھی ڈیل ہو ہی جاتی ہے۔ اسے ہم جمہوریت کا حسن کہیں یا کچھ اور، مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک ووٹ کی اکثریت والی حکومت بھی اپنا بجٹ ہر صورت میں منظور کروا ہی لیتی ہے۔ موجودہ حکومت کو پتا ہے کہ وہ چاہے کیسا ہی بجٹ پیش کردے منظور تو اسے ہونا ہی ہے۔ ویسے بھی اس بار بجٹ حکومت نے IMF کو اعتماد میں لے کر بنایا ہے تو پھر منظور نہ ہونے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔