امریکا کے بعد اسرائیل نے بھی ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے‘ میڈیا میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے فردو ایٹمی مرکز پر بنکر بسٹر بم گرائے ہیں‘ اس ایٹمی سینٹر پر گزشتہ روز امریکا نے بھی حملہ کر کے اسے شدید نقصان پہنچایا تھا‘ مزید اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ایران کے مغربی، مشرقی اور وسطی علاقوں میںفضائی حملے کیے ہیں‘ ان حملوں میں ایئرپورٹس کے انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی دعوے کے مطابق یہاں موجود کچھ ایرانی طیارے بھی متاثر ہوئے ہیں ۔ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر میزائل داغے ہیں جس کے بعد کئی اسرائیلی شہروں میں نقصانات کی اطلاع ہے۔ایرانی ذرایع ابلاغ نے اطلاع دی کہ ملک کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی فضائی حملوں کا سامنا رہا۔ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم کے مطابق تہران کی فضا میں کئی اسرائیلی ڈرونز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکا کی جنگ میں شمولیت کے بعد حالات انتہائی سنگین ہو چکے ہیں‘ اسرائیل اور امریکا کا ٹارگٹ ایران کی ایٹمی تنصیبات اور عسکری انفرااسٹرکچر ہے۔ اگر یہ جنگ مزید جاری رہی تو ایران میں انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچے گا۔ ایران بھی اسرائیل پر مسلسل حملے کر رہا ہے۔ ارد گرد کے ہمسایہ ممالک کی حکومتیں بھی پریشانی اور گومگو میں مبتلا ہیں۔ جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے‘ یہ صورت حال عالمی امن کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
عالمی امور کے ماہرین مسلسل جنگ کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ جلد ختم نہ ہوئی تو اس کا دائرہ پھیلتا جائے گا جس کے نتیجے میں تباہی کا عمل بھی بڑھتا چلا جائے گا۔ایران میں جس طرح ایٹمی سینٹرز کو نشانہ بنایا گیا ہے اور وہاں جو کچھ ہوا ہے‘ اس کے بارے میں بھی ماحولیات کے ماہرین اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہاں کتنا نقصان ہوا فی الحال اس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے۔یہ ایٹمی تنصیبات ہیں کوئی عام تنصیبات نہیں ہیں کہ جس کی تباہی کے اثرات محدود رہیں گے‘ایٹمی تابکاری کے حوالے سے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایران نے امریکا کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کا آغاز تم نے کیا، خاتمہ ہم کریں گے۔
ایرانی فوج کے سینٹرل کمانڈ کے ترجمان ابراہیم ذوالفقاری نے امریکا کو سخت نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حملوں کے بعد اب ایران کے لیے جائز اہداف کی فہرست وسیع ہو چکی ہے، امریکا کے خلاف سنگین نتائج رکھنے والے طاقتور آپریشنز متوقع ہیں۔میڈیا کے مطابق انھوں نے کہا کہ امریکی کارروائیوں نے خطے میں ایران کی دفاعی حکمتِ عملی کو نئی جہت دے دی ہے، تناز ع میں امریکا کے داخل ہونے سے جائز اہداف کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے اور ہم مکمل تیاری کے ساتھ اپنے مفادات کا دفاع کریں گے۔ایرانی ترجمان نے اپنے بیان کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر ٹرمپ جنگ کا آغاز تم نے کیا تھا لیکن ہم اس کو اختتام تک پہنچائیں گے۔
لگتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل نے جن اندازوں کی بنیاد پر ایران پر حملوں کا آغاز کیا‘ وہ غلط ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ جنگ طویل بھی ہو رہی ہے اور اس کا دائرہ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران میں نظام حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ رجیم چینج کی اصطلاح کا استعمال سیاسی طور پر درست نہیں سمجھا جاتا، ایرانی حکومت ملک کو دوبارہ عظیم بنانے میں ناکام ہے تو پھر نظام کی تبدیلی کیوں نہ ہو؟کسی ملک میں کس کی حکومت ہونی چاہیے‘ اس کا اختیار اس ملک کے عوام اور اسٹیک ہولڈرز کو حاصل ہوتا ہے۔طاقت کے بل بوتے پر اب تک رجیم چینج کرنے کا تجربہ درست ثابت نہیں ہوا۔
افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ امریکا نے یہاں طالبان کی حکومت ختم کر کے اپنی حمایت یافتہ حکومت بنائی تھی ‘حامد کرزئی ‘عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کی سربراہی میں جو حکومت قائم ہوئی ‘اس میں افغانستان کے لوگ ہی شامل تھے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ انھیں افغانستان کے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان پر آج بھی طالبان کی حکومت ہے۔ یہ حکومت بھی طاقت کے زور پر قائم ہے۔ اس حکومت کے پاس بھی عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
اس کی وجہ طاقت کے بل پر رجیم چینج کرنا بنی ہے۔ اگر امریکا اور مغربی ممالک عوامی سطح پر جمہوری قوتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیتے‘وہاں سیاسی جماعتیں کھل کر کام کرتیں تو آج شاید افغانستان میں عوام کی مرضی کی حکومت قائم ہوتی۔ بڑی طاقتوں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں افغانستان کے عوام کے چالیس برس ضایع ہو گئے۔لیکن آج 21ویں صدی میں بھی افغانستان میں جمہوری حکومت کا وجود نہیں ہے۔اسی طرح ایران میں بھی اگر رجیم چینج کا تجربہ کیا گیا تو وہ بھی شاید کامیاب نہ ہو سکے۔
ادھر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات اور مزید حملوں کی دھمکیاں عالمی سطح پر غنڈہ گردی ہیں۔جوابی کارروائی کرنا ایران کا جائز حق ہے۔اسماعیل بقائی نے کہا کہ کسی کو نہیں معلوم مستقبل میں کیا ہو گا، اپنے دفاع کے حق کا استعمال کریں گے۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی روس پہنچ گئے ہیں۔ماسکو میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ایرانی پْرامن جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے امریکا نے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی، جوابی کارروائی کرنا ایران کا جائز حق ہے۔عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ موجودہ عالمی صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ ایران اور روس سنجیدہ بات چیت کریں، ایران اور روس مختلف موضوعات پر یکساں اور مشترکہ موقف رکھتے ہیں۔سفارتکاری کا دروازہ یقینی طور پر بند ہو چکا ہے: ایرانی وزیر خارجہ نے یو این کے سیکریٹری جنرل کو خط لکھا ہے ۔
ایران پر امریکی اور اسرائیلی حملوں کی روس سمیت مختلف ممالک نے شدید مذمت کی اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف قرار دیا ہے جب کہ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور آسٹریلیا نے کھل کر امریکی حملوں کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ ایران کوئی جوابی کارروائی نہ کرے جس سے خطے کے امن کو خطرہ ہو، اپنے مشترکہ بیان میں ان ممالک نے کہا کہ ایران جوہری پروگرام پر مذاکرات کرے،عرب ممالک نے ایران پر امریکی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ادھر امریکی حملوں کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے کیے گئے، ٹوکیو، برلن، نیو یارک اور تل ابیب میں ریلیاں نکالی گئیں جہاں عوام نے نیتن یاہو کے خلاف شدید احتجاج کیا، مظاہرین نے جنگ نہیں، امن چاہیے کے نعرے لگائے۔نیویارک میں جنگ مخالف یہودیوں نے احتجاج کیا اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی۔حتیٰ کہ تل ابیب میں بھی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ روس کی سیکیورٹی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین اور سابق صدر دمتری میدویدیف نے کہاکہ ایک خودمختار ریاست کی سرزمین پر میزائل اور فضائی حملے بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، امریکی صدر نے ایران پر حملہ کر کے امریکا کے لیے ایک نئی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ امریکا کا یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی ہے اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بڑھانا ہے، چین تمام فریقین، خاص طور پر اسرائیل پر زور دیتا ہے کہ وہ فوری طور پر حملے بند کرے اور مذاکرات کا آغاز کرے۔ اسلامی تعاون تنظیم سیکریٹریٹ نے امریکی حملوں پر اظہار تشویش کر دیا اور مذمت بھی کی ہے، امریکی سینیٹر اور ڈیموکریٹ رہنما برنی سینڈرز نے کہاہے کہ ایران پر امریکی حملہ غیر آئینی ہے، صدرٹرمپ نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، امریکی آئین کے مطابق جنگ چھیڑنے یا کسی ملک پر فوجی کارروائی کا اختیار صرف کانگریس کو حاصل ہے، صدر کو نہیں۔
عالمی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو امریکا اور اسرائیل کی زبانی مذمت کے سوا کوئی عملی فیصلہ یا قدم نظر نہیںآ رہا‘یورپ کی دو بڑی طاقتیں برطانیہ ‘فرانس کھل کر امریکا کا ساتھ دے رہی ہیں‘ امریکا کا ساتھ دینے کا مطلب اسرائیل کا ساتھ دینا ہے۔ کینیڈا ‘آسٹریلیا بھی مغربی یورپی ممالک کے ساتھ ہیں جب کہ جاپان اور جنوبی کوریا کا رویہ بھی سب کے سامنے ہے۔
ایسی صورت حال میں سب سے اہم کردار روس اور چین کا ہے ‘یہ دونوں طاقتیں معاشی طور پر بھی مضبوط ہیں جب کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی امریکا اور یورپ کے ہم پلہ ہیں۔ اسلحہ سازی اور اس میں جدت کے حوالے سے بھی یہ ممالک امریکا اور یورپ سے کم نہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انھیں ویٹو پاور بھی حاصل ہے۔اگر یہ عملی کردار ادا کریں تو ممکن ہے کہ جنگ رکنے کے امکانات پیدا ہو جائیں۔