27 C
Lahore
Monday, June 23, 2025
ہومغزہ لہو لہوپاکستان کی مودی کے زخموں پر نمک پاشی؟

پاکستان کی مودی کے زخموں پر نمک پاشی؟


یہ ضروری نہیں ہے کہ کوئی ملک یا کسی مملکت کا سربراہ یا کوئی ادارہ اگر کسی شخص کو امن کا نوبیل انعام دینے کی سفارش کرے تو اُسے یقیناً یہ انعام مل بھی جائے ۔ ہم نے چند ماہ قبل یہ منظر دیکھا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو بھی امن کا نوبیل انعام دلوانے کے لیے اُن کے پارٹی و عالمی بہی خواہوں اور عشاق نے زبردست لابنگ اور سفارشیں کیں ، مگر نوبیل انعام بانی صاحب کو نہ مل سکا ۔

بعد ازاں انھیں اوکسفرڈ یونیورسٹی کا چانسلر بنانے کی بھی کوششیں بروئے کار آئیں ، مگر یہ کوششیں بھی بے ثمر ہی ثابت ہُوئیں۔نوبیل امن انعام دینے والوں کے اپنے پیمانے اور آدرش ہیں ۔ یہ خبر مگر پوری دُنیا میں حیرت اور دلچسپی سے سُنی گئی ہے کہ پاکستان نے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کو نوبیل امن انعام دینے کی سفارش کر دی ہے ۔ اِس سفارش کے پس منظر میں دلیل یہ دی گئی ہے کہ ٹرمپ صاحب نے حالیہ ایام میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فیصلہ کن سفارتی مداخلت کی اور قائدانہ کردار ادا کیا۔ یہ سفارش دراصل اِسی مبینہ کردار کے اعتراف میں کی گئی ہے ۔

پاکستانی قیادت تو ہر فورم پر یہ تسلیم کرتی ہے کہ حالیہ پاک بھارت چار روزہ جنگ رکوانے میں امریکی صدر نے مرکزی کردار ادا کیا ۔ امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، بھی ایک درجن سے زائد بار بیان دے چکے ہیں کہ ’’مَیں نے حالیہ پاک بھارت جنگ بندی کروائی ، اور اِس کے لیے ٹریڈ کو بطورِ لیور استعمال کیا۔‘‘

بھارت مگر امریکی صدر کے بیانات سے متفق نہیں ہے۔ ٹرمپ کے مکرر بیانات کے پیش منظر میں پہلے تو بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، مہر بہ لب رہے ، مگر گزشتہ روز وہ بول ہی پڑے ۔ کہا: ’’ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بند کروائی نہ ہم نے اُن سے اِس بارے کوئی رابطہ ہی کیا۔‘‘امریکا اور امریکی صدر کو مودی جی کے اِس انکار سے دِلی طور پر صدمہ پہنچا ہے ۔

ٹرمپ صاحب مگر پاکستان کے اعتراف پر نہائت خورسند ہیں۔ اِسی لیے انھوں نے جون 2025کے تیسرے ہفتے واشنگٹن میں ہمارے فیلڈ مارشل سے تقریباً دو گھنٹے پر محیط، غیر معمولی، ملاقات کی اور آن دی ریکارڈ کہا:I Love Pakistan۔ ہم قومی سطح پر اِسی پر خوش ہیں اور آپے میں نہیں سما رہے ۔

پاکستان کے سفارشی کردار پر پاکستانی قیادت اور امریکی قیادت میں، یقیناً، ایک نئے باب کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ بھارتی مگر پریشان ہیں ۔ انھیں پاک، امریکا تعلقات میں نئی قربتیں بڑی کھٹک رہی ہیں۔

اِسی پس منظر میں19جون2025ء کو معروف برطانوی اخبار ’’دی گارڈین‘‘ نے Penelope MacRae کا ایک مفصل آرٹیکل اِس عنوان کے تحت Thawing of Relations between Pakistan and US raises eyebrows in India شایع کیا ہے۔ مودی اور بانی پی ٹی آئی کے لیے بھی پاکستان و امریکا کی یہ قربتیں یکساں طور پر بڑی پریشان کن ہیں۔

پاکستان اور موجودہ حکومتِ پاکستان کے خلاف واشنگٹن میں دونوں کی بھاری سرمایہ کاری اکارت چلی گئی ہے ۔ حکومتِ پاکستان کے لیے تومعجزہ ہی ہو گیا ہے ۔ بھارتی خفیہ ادارے اور مودی جی اِس ’’معجزے‘‘ پر سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ اِسی لیے کچھ سیانے کہہ رہے ہیں کہ جاری حساس حالات میں پاکستان نے ٹرمپ کے لیے نوبیل امن انعام کی سفارش کر کے دراصل نریندر مودی کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔

سفارتی دُنیا میں پاکستان کے بڑوں نے جو کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں، یہ ہم سب کے لیے مسرت انگیز ہیں ۔ حیرانی کی بات مگر یہ بھی ہے کہ واقعی ڈونلڈ ٹرمپ نوبیل امن انعام کے مستحق ہیں؟ یہ درست ہے کہ مبینہ طور پر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ رکوانے میں بنیادی کردار ادا کیا، مگر بحیثیتِ مجموعی ٹرمپ کا عالمی امن کے لیے کردار ابھی متعین نہیں ہُوا ہے ۔ ٹرمپ خود بھی کہہ رہے کہ مجھے پتہ ہے ’’یہ‘‘ مجھے نوبیل امن انعام نہیں دینے والے ، یہ صرف لبرلز کو انعام بخشتے ہیں ۔

باطنی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ خود بھی جانتے ہیں کہ انھیں دوسری بار امریکی صدر بنے 120دن سے زائد گزر چکے ہیں ، مگر وہ اپنے اعلانات اور وعدوں کے مطابق دُنیا میں کامل امن قائم نہیں کروا سکے ۔ نہ ہی وہ ابھی امن ساز کے رُوپ میں سامنے آ سکے ہیں ۔ وہ یوکرین اور رُوس میں تباہ کن جنگ بند نہیں کروا سکے۔ 

وہ غزہ میں اسرائیل کی خونریز اوروحشتناک کارروائیاں رکوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ غزہ میں صہیونی اسرائیل اب تک 55ہزار سے زائد معصوم فلسطینی شہید کر چکا ہے اور غزہ کو کھنڈر بنا چکا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ خود اعتراف کر چکے ہیں کہ ’’ مَیں فی الحال اسرائیل کو غزہ میں جنگ بندی بارے نہیں کہہ سکتا کیونکہ اسرائیل ، غزہ میں جنگ جیت رہا ہے ۔‘‘

کیا ہی کہنے ایسی منطق اور ’’امن سازی‘‘ کے !ٹرمپ ہی کی مبینہ شہ پر اسرائیل نے حال ہی میں ایران پر ، بِلا جواز ، حملہ کیا اور مسلسل حملے کیے جارہا ہے ۔ ایران کی ایک متعلقہ وزارت نے اعلان کیا ہے :’’ پچھلے ایک ہفتے کے دوران اسرائیل بمباری کرکے430 سے زائد ایرانی شہید کر چکا ہے اور3500 زخمی۔‘‘ اسرائیل اور امریکا بیک زبان ایرانی سینئر قیادت کے خاتمے بارے اعلان کرتے ہُوئے ہچکچاتے ہیں نہ عالمی سفارتکاری کا دامن تھامتے ہیں ۔ کیا ایسے ماحول میں ٹرمپ صاحب امن کا نوبیل انعام لینے کے حقدار قرار دیے جا سکتے ہیں؟

پاکستان نے ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام دینے کی سفارش کرکے ممکن ہے بھارت کو کوئی شہ مات دی ہو ، مگر یہ سفارش آیا پاکستان کے لیے مفید بھی ثابت ہوگی ؟ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر ، ممتاز دانشور اور کئی عالمی شہرت یافتہ کتابوں کے مصنف، حسین حقانی، اِس بابت یوں کہتے ہیں: ’’خود پسند صدر ٹرمپ کو اپنی تعریف بے حد پسند ہے۔

اِس لیے انھیں امن انعام کے لیے نامزد کرکے پاکستانی حکومت نے اُن کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کا انتظام کیا ہے۔ لیکن تزویراتی مفادات کا یکساں ہونا بھی ضروری ہے۔ کیا بھارت، ایران اور چین پر پاکستان اپنا موقف بدل سکے گا؟۔‘‘حقانی صاحب نے مزید لکھا:’’ پاکستانی مقتدرہ اور حکومت ( امریکا اور امریکی صدر بارے) خوش فہمیوں کا محل تعمیر کررہی ہے ۔ ملاقات اور دوستی اچھی ہے ، لیکن اعتدال کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ۔‘‘

دیکھا اور تجزیہ کیا جائے تو کھلتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے کا اقدام پاکستان کے کئی سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا ۔ مثال کے طور پر سابق امیر جماعتِ اسلامی، جناب سراج الحق، کا کہنا ہے: ’’پاکستان کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام کے لیے سفارش کرنا دو سال سے جاری غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی کو دوام بخشنا اور مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنا ہے ۔‘‘

سراج الحق صاحب نے مزید سخت باتیں بھی کہی ہیں ، مگر ہم بوجوہ اِن کا یہاں اعادہ نہیں کر سکتے ۔ ایک بات مگر واضح ہے کہ کسی کو بھی ٹرمپ کے نوبیل امن انعام لینے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے ، بشرطیکہ (1) وہ مخلص ہو کر ، پوری تندہی کے ساتھ اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں، مسئلہ کشمیر یوں حل کروا دیں کہ پاکستان ، بھارت اور کشمیر میں سب راضی ہو جائیں (2) وہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی بند کروا دیں اور غزہ و مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو اُن کے پورے حقوق حاصل ہو جائیں (3) وہ ایران ، اسرائیل کے بھڑکتے اور مہلک مناقشے کو مستقل طور پر ٹھنڈا کروا دیں۔

یہ مگر بے حد پیچیدہ مسائل ہیں اور شاید ٹرمپ کے دَورِ صدارت سے ماورا بھی ۔ مگر ٹرمپ کے لیے ناممکنات میں سے بھی نہیں ۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج پر اعتبار کیا جا سکتا ہے ؟ یاد رہے کہ یہ وہی ٹرمپ صاحب ہیں جنھوں نے اپنے اولین دَورِ صدارت میں پاکستان بارے بعض ایسے کلمات کہے تھے جن کی یاد سے اب بھی پاکستانیوں کے دل جَل اُٹھتے ہیں ۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات