29 C
Lahore
Saturday, June 21, 2025
ہومغزہ لہو لہویہ پناہ گاہ صرف یہودیوں کے لیے ہے

یہ پناہ گاہ صرف یہودیوں کے لیے ہے


اسرائیل کی اکیس فیصد آبادی عرب نژاد ہے۔وہاں ہزاروں غیر ملکی صنعتی و زرعی کارکن بھی کام کرتے ہیں ( ان کارکنوں کی اکثریت تھائی لینڈ اور فلپینز سمیت جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھتی ہے)۔ وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتے ایرانی میزائیل حملوں کے خلاف عالمی ( مغربی ) ہمدردی سمیٹنے کے لیے کہا کہ ’’ ایرانی میزائلوں کا ہدف محض یہودی نہیں بلکہ اسرائیل کے نہتے عرب شہری اور غیرملکی کارکن بھی ہیں‘‘۔

اگرچہ اسرائیلی سول ڈیفنس قوانین کے تحت ہر گھر اور عمارت میں ناگہانی حملوں سے بچاؤ کے لیے کم ازکم ایک کمرہ یا احاطہ بطور پناہ گاہ مختص ہونا چاہیے۔تاہم جو شہری عمارتوں اور گھروں سے باہر ہوں وہ کسی حملے ، دھماکے یا اجتماعی حادثے سے خود کو ہنگامی طور پر بچانے کے لیے سرکار کے تعمیر کردہ پبلک شیلٹرز میں پناہ لے سکتے ہیں۔ان زیرِ زمین شیلٹروں میں کرسیاں ، واش رومز ، کچن اور انٹرنیٹ سمیت بنیادی سہولتیں موجود ہیں۔

عموماً ایک شیلٹر دو سے تین سو شہریوں کو پناہ دے سکتا ہے۔مجموعی طور پر اسرائیل کی پینسٹھ فیصد آبادی کو ہنگامی حالت میں پناہ گاہیں استعمال کرنے کی سہولت میسر ہے۔

تاہم ایران اسرائیل جنگ کے دوران ایسی بیسیوں شکایات بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں مسلسل شایع ہو رہی ہیں کہ ان شیلٹرز میں اسرائیل کے عرب شہریوں اور غیر ملکی کارکنوں کو پناہ دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔شاید بہت سے لوگوں کو یہ بات عجیب سی لگے مگر نسل پرست صیہونی نظریے کی علمبردار اپارتھائیڈ ریاست میں اس طرح کا غیر انسانی امتیازی رویہ معمول کی بات ہے۔

 مقبوضہ غربِ اردن اور غزہ میں کسی حملے سے بچاؤ کی پناہ گاہوں کا تصور بھی محال ہے۔عملاً اکیس فیصد عرب اسرائیلی باشندے محض قانون کی کتابوں میں اناسی فیصد یہودی شہریوں کے مساوی شمار ہوتے ہیں۔

دو ہزار بیس اکیس میں جہاں پوری دنیا کوویڈ سے متاثر ہوئی۔ مقبوضہ فلسطین اور اسرائیل بھی اس وبائی چپیٹ سے محفوظ نہ رہ سکے۔جب کوویڈ ویکسین تقسیم ہونے لگی تو اسرائیلی حکومت نے ویکسین کی جو بھی کھیپیں خریدیں وہ سب سے پہلے یہودی شہریوں کے لیے مختص کی گئیں۔حتی کہ تل ابیب اور حیفہ سمیت مرکزی اسرائیلی شہروں اور قصبوں میں قائم عرب اور یہودی آبادی کے مشترکہ محلوں میں بھی ابتدائی طور پر صرف یہودی شہریوں کو ویکسین فراہم کی گئی۔

مقبوضہ غربِ اردن اور غزہ کی پچاس لاکھ فلسطینی آبادی کو کئی ماہ تک ویکسین سے قطعاً محروم رکھا گیا۔صرف مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں نیز غیر قانونی یہودی آبادکار بستیوں اور اسرائیل کے اندر آ کر کام کرنے والے فلسطینی کارکنوں کی سرکاری ویکسینیشن کی گئی تاکہ یہودی شہری ان کارکنوں کی موجودگی میں کوویڈ سے متاثر نہ ہوں۔

مقبوضہ علاقے ( غربِ اردن اور غزہ ) جو بظاہر اوسلو سمجھوتے کے تحت قائم فلسطینی اتھارٹی کی عمل داری میں آتے ہیں۔اسرائیل نے ان علاقوں کے لاکھوں شہریوں کی ویکسینیشن کی ذمے داری فلسطینی اتھارٹی پر ڈال دی۔فلسطینی اتھارٹی کو پیسوں کی اس قدر قلت درپیش تھی کہ وہ ویکسین کی خریداری کے لیے تین ملین ڈالر تک نہ جوڑ پائی۔بالاخر فلسطینی اتھارٹی کو بین الاقوامی خیراتی کنسورشیم ’’ کوویکس ‘‘ کے تحت اتنی ویکسین دستیاب ہوئی جو پچیس فیصد مقبوضہ آبادی کو محفوظ کر سکے۔

ہیومین رائٹس واچ ، ایمنسٹی اور اسرائیلی تنظیم بیت سلیم سمیت لگ بھگ اکتیس انسانی حقوق تنظیموں نے اسرائیلی حکومت سے ’’ ویکسینیشن اپارتھائیڈ ‘‘ ختم کرنے کا اجتماعی مطالبہ کیا۔مطالباتی عرضی میں یاد دلانے کی ناکام کوشش ہوئی کہ چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق کسی بھی علاقے پر قابض طاقت مقبوضہ افراد کی بنیادی صحت اور انھیں وبائی امراض سے بچانے کی مکمل ذمے دار ہے۔انسانی حقوق کی چھ تنظیموں نے اسرائیلی ہائی کورٹ میں اس بابت ایک پیٹیشن بھی دائر کی کہ حکومت کو مقبوضہ علاقوں میں صحت سے متعلق بنیادی ذمے داریاں نبھانے کا پابند کیا جائے۔

اسرائیل نے عدالتی حکم پر عمل درآمد میں بھی بددیانتی برتنے سے گریز نہیں کیا۔فلسطینی اتھارٹی کی بیرونی تجارت آزادانہ نہیں بلکہ اسرائیلی حکومت کی رضامندی سے مشروط ہے۔چنانچہ جو ویکسین فلسطینیوں کے لیے درآمد کی گئی اسے اپنے شہریوں کے لیے رکھ کے اسرائیل نے پہلے سے موجود ایکسپائر ہونے والے زخیرے سے تقریباً ایک ملین وائلز فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کیے۔

مگر غزہ میں ویکسین کی تقسیم کی اجازت دینے سے قبل اسرائیل نے وہاں کی حماس انتظامیہ پر نہ صرف بلیک میل کرنے والی شرائط عائد کیں بلکہ عین کوویڈ کے دوران مئی دو ہزار اکیس میں غزہ پر بمباری کر کے لگ بھگ ڈھائی سو فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔اس بمباری میں تیس صحت مراکز بھی تباہ ہوئے جنھیں ویکسینیشن مراکز قرار دیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کی ایک سرکردہ عرب اسرائیلی تنظیم عدالہ کے مطابق لگ بھگ پینسٹھ ایسے امتیازی قوانین ہیں جو صرف عرب اسرائیلی شہریوں پر لاگو ہیں۔ انیس سو اسی کے نیشنل اسٹیٹ ایکٹ کے تحت اسرائیل یہودیوں کا قومی وطن ہے۔لہٰذا ہر شعبے میں یہودی آبادی کو ترجیحی مواقع اور سہولتیں حاصل ہیں۔اس کے بعدگنجائش اور بجٹ ہو تو عرب اسرائیلیوں کو بھی تعلیم ، صحت ، گھر اور روزگار کے مواقع دستیاب ہیں۔یعنی وہ ریاست کے ’’ مشکوک مساوی شہری ‘‘ ہیں۔

اگر اسرائیلی سرکار کی پالیسی کے خلاف کوئی اسرائیلی عرب شہری تصویر ، تحریر یا ایموجی بھی شئیر کر لے تو وہ آسانی سے گرفتار ہو سکتا ہے۔جب کہ یہودی شہری اگر عرب دشمن یا نسل کشی پر اکسانے والی پوسٹس شئیر کریں تو ان کے خلاف تادیبی کاروائی کا کوئی عملی تصور نہیں۔

مگر اس پٹی کا کیا کیا جائے جو اسرائیل کی پشت پناہ ریاستوں کی آنکھوں سے اتنی کس کے بندھی ہے کہ انھیں مشرقِ وسطی میں جمہوریت کا واحد جزیرہ اگرچہ اسرائیل نظر آتا ہے مگر اس جزیرے میں رنگ ، نسل ، نظریے کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ اس پر انگشت نمائی کا مطلب قابلِ تعزیر اینٹی سیمٹ ازم ( یہود دشمنی ) ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات